Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

کرداری سازی کی سائنس

 Kirdaar Saazi, Urdu, Columns, Urdu Columns, Comics, Urdu Comics, Asad, Asad Mahmood, Fun, University, Punjab University, Corruption, Character Science

”چلوبھئی چلو،سارے لوگ سیمینار ہال میں  چلو.... ! چلو،چلو....!

ہم سب نے چونک کر پیچھے دیکھا ۔سامنے پرنسپل کھڑے تھے۔وہ ہمیں  بھیڑوں کی ہانکنے لگے۔دراصل ، وقوعہ کچھ یوں  ہے کہ یہ مورخہ 4دسمبر کی ایک سہانی صبح تھی ۔دوستوں  کے ہمراہ میں  شعبہ انجنیئرنگ میں  داخل ہوا تو پہلی کلاس کا وقت ختم ہوچکا تھا۔کلاس فیلو،جو کلاس سے باہر نکل رہے تھے ،ان سے معلوم ہوا کہ مزیدکوئی کلاس نہیں  ہوگی کیونکہ سیمینار ہال میں کچھ دیر بعد انسدادِ کرپشن پہ ایک سیمینار منعقد ہورہا ہے۔ہم یہ ”خوش خبری “ سن کر پلٹا ہی چاہتے تھے کہ پرنسپل صاحب نازل ہو گئے اور ہم سب کو ”ہنکا “ کر سیمینار ہال میں  لے گئے اور مزے کی بات یہ کہ بعد میں  اپنی تقریر کرتے ہوئے ہماری ”فرمانبرداری“کی یوں  ”داد “ دی کہ کہنے لگے:

”یہ سب آپ کے والدین کی اچھی تربیت کا ہی اثر ہے کہ آپ لوگ یہاں  ہیں “۔

  سیمینار ہال میں  پہنچے تو معلوم ہواکہ بین الاقوامی ہفتہءِ انسدادِ کرپشن (جو کہ 3سے 9دسمبر تک منایا جاتا ہے)کے سلسلے میں ”مستقبل کی تعمیر کے لیے نوجوان نسل کی کردار سازی" (Character building of youth for future building)کے عنوان سے سیمینار منعقد کیاجارہا ہے۔انسدادِکرپشن ڈے 9دسمبر کو منا یا جاتا ہے،اس کی ابتداء2003ءمیں  ہوئی جب میکسیکو ،امریکہ میں  انسدادِ کرپشن ڈے منانے کی ایک قرار داد پیش کی گئی ۔پاکستان ان چند ممالک میں شامل تھا جنہوں  نے 9دسمبر 2003ءکو ہی اس پہ دستخط کر دیئے تھے۔سیمینار ہال میں  بیٹھے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ نیب (NAB, National Accountability Beauro) کے ڈپٹی ڈائریکٹر،ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سوشل سائنسز کے سربراہ(Dean)جناب محترم ڈاکٹر ذکریا ذاکر صاحب بھی آ موجود ہوئے۔

مزید دِل چسپ بلاگ:

جائیے! منہ دھو رکھئے

ہم خواہ مخواہ معذرت خواہ ہیں

اسپانسرڈ شاعرات

  رسم ِ دین و دنیا نبھاتے ہوئے تقریب کا باقاعدہ آغازتلاوتِ قرآنِ کریم اور نعت ِ رسولِ مکرمﷺسے کیاگیا۔ہیلے کالج پنجاب یونیورسٹی کے ایک مقرر نے مسلمان نوجوانو ں  کے تدبّر اور عزم کی نشاندہی کی ۔اس کے بعد NABڈپٹی ڈائریکٹر نے حاضرین کو اس قومی ادارے کے کام کرنے کے طریقہءِ کارکے بارے میں  آگاہ کیا، ان کے مطابق NABانسدادِ کرپشن کے لیے تین طرح کے اقدامات بروئے کار لارہا ہے:

1-   آگاہی(Awareness)

2-    انسداد/روک تھام(Prevention)

3-    نفاذ(Enforcement)

  انہوں  نے دورانِ گفتگو یہ بھی بتایا کہ یہ اداراہ 1999ءمیں  وجود میں  آیا اور اب تک اس میں  2,36,000درخواستیں  رپورٹ ہوئیں  جن میں  سے 4720پہ عمل درآمد ہوا ،اور ان کے نتیجے میں  اڑھائی سو ارب روپے کی وصولی( Recovery)ہوئی۔

 ڈائریکٹر ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے بھی کچھ دیر نوجوانوں  کی تعریف کرکے ہمارے سینے پھلائے اور اجازت چاہی(جوہم نے بخوشی دے دی)۔آخرمیں  سماجی سائنسدان(Social Scientist)

ڈاکٹر ذکریا ذاکر صاحب نے مائیک سنبھالا۔سماجی سائنسدان بقول اُنہی کے وہ ہوتا ہے جو معاشرے کا رویہ بدلتاہے (A social scientist who changes the behavior of the society)

مزے دار ادبی ویڈیوز اور وی لاگز  یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

انہوں نے انسان کی نفسیاتی باریک بینیوں اورسماجی پیچیدگیوں سے ہمیں آگاہ کیا۔ان کی گفتگو کو تین حصوں  میں  بانٹی گئی تھی۔سب سے پہلے کردار سازی پہ جو اب تک کی تحقیق ہوچکی ہے اس کا نچوڑ ہمارے سامنے رکھ دیا کہ

"نارمل شخصیت اچھا کردار تشکیل دیتی ہے"( Normal personality creates good character)

انہوں  نے مزید بتایاکہ گزشتہ دو سو سال سے معاشرے پہ صرف تنقید کرنے والے کوئی تبدیلی نہیں  لاسکے ۔انہوں  نے کردارسازی کے عام مستعمل منفی طریقے بتائے جو کردار سازی کے بجائے کردار کشی کا کام کرتے ہیں ،آپ بھی دیکھئے:

٭صرف تقریر جھاڑنے سے کچھ نہیں  ہوتا،تقریریں  جھاڑنے سے آپ اچھے مقرر توکہلا سکتے ہیں لیکن معاشرے میں  مثبت کردار سازی کاعمل پروان نہیں  چڑھ پائے گا۔

٭ڈرا دھمکا کر لوگوں  کے روّیے کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرنا بھی بے سُود ہے کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ہرمسلّط شدہ بات کا توڑ نکال لیتا ہے ۔ڈاکٹر صاحب نے بتا یا کہ محض سزاں  سے کرپشن ختم کرنے میں  کسی حد تک مدد تو مل سکتی ہے لیکن ایسے یہ مکمل طور پہ ختم ہونے والی نہیں ہے۔یہ مرض جڑ سے صرف سزا ں  کے خوف سے ختم نہیں  کیا جاسکتا کیونکہ ”متاثرہ“شخص قانونی پیچ و خم کو اپنے بچا کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے اور سزاں  کو غیر موثر کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے ۔

یہ بھی پڑھیے:

عیّاریاں

نیو بِگ بینگ تھیوری

میرے ندیمؔ

٭لوگوں  اور بالخصوص نوجوانوں  کی آزادی میں  رکاوٹ بننا یا ان میں  دباکے زیرِ اثر کردار سازی پروان چڑھانے کی کوشش بھی فضول ہے کیونک انسانی ذہن خوشدلی سے صرف وہی چیز قبول کرتا ہے ،صرف اسی بات پہ عمل کرتا ہے جو اس پہ مسلّط نہ کی گئی ہو بلکہ اس نے آزادی سے اور اپنی مرضی سے اس کا انتخاب کیا ہو۔

  آخر میں  ڈاکٹر ذکریاذاکر صاحب نے کردار سازی کے صحیح طریقوں  پہ بھی روشنی ڈالی :

٭معاشرے میں  نوجوانوں  کی بھرپور شمولیت ہو تاکہ نوجوان اس معاشرے کو اپنا معاشرہ (sense of ownership of society)سمجھیں ۔ ان میں  معاشرے کے حوالے سے احساسِ ذمہ داری آئے۔تاکہ وہ اس معاشرے کومحض بزرگوں  کا دقیانوسی معاشرہ خیال نہ کریں ۔

٭نوجوانوں  کی ایسے تربیت کی جائے کہ وہ اس معاشرے کو اپنا سمجھیں ۔ وہ اس معاشرے سے وابستہ ہر چیز کو اپنا جانیں۔  وہ یہ جانیں  کہ ہم یہاں  جو بوئیں  گے ،کل کو وہی کاٹیں  گے چنانچہ ہر شخص اپنا احتساب خود کرے ۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ سڑک پہ ہونے والے حادثے (Road Accidents)کبھی خود بخود نہیں  ہوتے ،ان کی ہمیشہ تین وجوہات ہوتی ہیں ۔

1-   سڑک خراب ہوگی ،جو کسی ٹھیکیدار /معمار کی غلطی/کرپشن ہوگی۔

2-    گاڑی خراب ہوگی جو گاڑی کے مالک /مکینک کی غلطی ہوگی۔

3-    ڈرائیورکی غلطی ہو گی۔

٭انہوں  نے کہا کہ ہمیں  خود میں  یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ عوام کا پیسہ ہمارا ہی پیسہ ہے ،وہ ہمِیں  سے تعلق رکھتا ہے(Public money belongs to us)اور دوسری بات یہ کہ ہم سچ بولنا سیکھیں  ،انہوں  نے انگریزی میں  ایک لافانی جملہ کہا:

Untruthful behavior is linked with corruption

  تقریرکے آخر میں  انہوں  نے ہمیں  نصیحت کی کہ

 "آیئے!ہم ایک ایسامعاشرہ بنائیں ،جہاں  کردار خود بخود بنے ،ہر کوئی ایماندار بننا چاہے،بے ایمانی کرنے اور بے ایمانی کرنے کا کوئی سوچے تک نہیں "

ایک نظر اِدھر بھی:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے