ظفر
اقبا ل کے مطابق اِس وقت شاعری پر پیغمبری دَور ہے ۔ غالباََ وہ اِس سے بھی کچھ بُرا کہتے مگر تہذیب آڑے گئی
ہو گی ۔ نہیں زبان تو کبھی اُن کے آڑے
نہیں آئی۔ ویسے بھی جو بندہ باقاعدہ
حوالوں سے خود کو غالب ؔسے بڑا شاعر ثابت کردے ۔
اُس سے بھلا کچھ اور کیا بعید ہوسکتا ہے۔ بہرحال اُن کی اِس بات (پہلےوالی)سے
مکمل انکار بھی ممکن نہیں۔
بہر
حال ،جائیے ظفر اقبال اور اُن جیسے دیگر اُردو دانوں کو خبر کیجئے کہ وہ اُردو
شاعری کے دورِ یسریٰ وصال اور عہد ِ اَپسرا گل میں جی رہے ہیں۔ اگر آپ ابھی تک اِن دونوں عظیم شاعرات کی
انقلابی شاعری سے محفوظ ہیں تو دو کام کیجئے ۔
اوّل تو فوراََ صدقہ دیجیے اور دوم
مر جائیے ۔ کیونکہ ہم نہیں چاہتے
کہ اِس بلاگ کو پڑھنے کے بعد آپ خدانخواستہ ہر دو خواتین کی شاعری پر بھی نظر ڈال
بیٹھیں اور پھر 32بور لے کر ہمیں ڈھونڈتے ہوئے پائے جائیں۔
دِل چسپ
ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
تاہم
اگر آپ شاعر ی پڑھے بغیر جاننا چاہیں کہ یہ دو شاعرات کیسی ہیں تو آسانی کے لیے
بتا دیں کہ یہ شاعری کی دُنیا کی 'ڈِھن چک پوجا' ہیں۔ اب وہ لوگ جو ' ڈِھن چک
پوجا'کو بھی نہیں جانتے ۔ وہ یقینا Living Legends ہیں ۔ بلکہ وہ اگر پہلے بتادیتے تو مہوش حیات کے ساتھ
ہی انہیں بھی'تمغہ امتیاز ' سے نواز دیا جاتا۔
ماناکہ
ہم خود بھی 'عہد ِ جاہلیت'میں عروض کی ٹانگیں توڑتے رہے ہیں ۔ لیکن اِن لڑکیوں پر تو کوئی خاص 'عطا'ہے ۔ ان
کی فیس بک وال پر آزاد نظمیں ہی نہیں باقاعدہ آزاد غزلیں بھی موجود ہیں۔ سونے پہ
سہاگہ اِن کے حصے کے بے وقوف کچھ بہت ہی زیادہ تعداد میں ہیں۔ آف کورس ان میں زیادہ تر مرد حضرات ہیں اور وہ بھی ایسے
ایسے جو انہیں شعری دنیاکی منٹو ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں ۔ شاعرہ کی DPکو چار بار زوم کرکے چالیس تعریفی
کمنٹس لکھنے والوں کو ہم بتا دیں کہ اگر منٹو کو ان کی یہ باتیں معلوم ہو جائیں تو
وہ ان سب پر شکاری کتے چھوڑنے کے بعد خود
Uber
کی ٹیکسی کے نیچے آ جائیں۔
مزید دِل چسپ بلاگ:
کسی دَور میں مرد شعراء
بھی حکیمی شاعری کیا کرتے تھے ۔ جو خالص
مردانہ بلکہ پوشیدہ امراضِ مردانہ کی وجہ اور علاج دونوں ہوا کرتی تھی۔ 'ہزل' نا م کی صنف ِ سخن بھی خالص مردانہ محفلوں
کی جان رہی ہے ۔ لیکن ان دو شاعرات کی
شاعری خالص فیمنسٹ جذبوں کی عکاس بھی نہیں ہے ۔
یہ کوئی Transgenderقسم
کی شاعری ہے ۔ جس میں کبھی مونچھیں جھلکتی ہیں تو کبھی بلاؤز۔
فی الحال تو ان خواتین پر
تنقید کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے کیونکہ ان کے ڈیزائنر
Dressesوالی پوسٹس کے متوالے کسی بھی وقت جیالوں
کا روپ دھار سکتے ہیں ۔ خیر ‘اُردو
کے خیر خواہ بددل نہ ہوں کیونکہ ایسی شاعری ہمیشہ شاعرہ کی عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ
غروب ہوجایا کرتی ہے ۔ عروض کی خامیاں Brandedمیک اَپ بھی بھلا کتنے
دِن چھپا سکتا ہے ۔ ایک اصلی اور جینوئن شاعرفرحت عباس کا ایک مطلع ہی ایسی شاعرات
اور ان کے ہمنواؤں کے لیے کافی ہے ۔
آگ ہو تو جلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
برف کو پگھلنے میں دیر
کتنی لگتی ہے
یہ بھی
پڑھیے:
0 تبصرے