Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

جاوید چودھری سے حامد میرتک!

 Javed Chaudhry Se Hamid Mir Tak, Javed Ch, Hamid Mir, Columnist, Best Columnist, Madeenay Ka Shaheed, Hakim Muhammad Saeed, Gaye Dino Ka Suraj, اسد,

جاوید چودھری میرے پسندیدہ ترین لکھاریوں  میں  سے ایک ہیں ۔وہ ایک قومی اخبار میں  کالم نگار ہیں ۔بنیادی طور پر لالہ موسیٰ ایک پسماندہ گاں  سے تعلق رکھتے ہیں  لیکن اب ان کا شمار پاکستان کے ان چند ایک گِنے چُنے لوگوں  میں  ہوتاہے جو ابن الوقتوں کی آنکھوں  میں  آنکھیں  ڈال کر سچ کہہ بھی سکتے ہیں  اور ببانگ ِ دہل لکھ بھی سکتے ہیں ۔”زیرو پوائنٹ“ کے عنوان سے ان کی چھ کتب بھی شائع ہوچکی ہیں  جو ان کے مختلف اخبارات میں  لکھے کالمز کا مجموعہ ہیں ۔انہیں  سندھ کے سابق گورنر اور ادارہ طبِ ہمدرد کے بانی حکیم محمد سعید شہیدؒ کی شہادت پہ ایک کالم بعنوان"مدینے کاشہید" لکھنے پہ بہترین کالم نگار کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ان کی ایک اور کتاب "گئے دِنوں  کے سورج"صحافت میں  ان کے ابتدائی دنوں  کی سرگرمیوں  کی عکاس ہے۔ اس میں  چند بڑے لوگو ں  سے ملاقاتوں  کے احوال کا تذکرہ ہے اور کچھ آغاز کے دنوں  کے فیچرز بھی ہیں ۔یہ کتاب تاریخ ،واقعات ،معلومات اور منفرد اندازِ تحریر کی حامل ہے۔اس میں  اعلیٰ درجے کی ادبی چاشنی بھی ہے اور بیان کردہ معلومات ،تاریخ اور معلومات میں  ایساحسین امتزاج، ایک ایساعمدہ ربط ہے جوقاری کو تادیر اپنے حصار میں  لیے رکھتاہے۔وہ ایک معروف نجی چینل کے لیے ”کل تک “کے عنوان سے ایک ”ٹاک شو“(Talk Show) کی میزبانی بھی کرتے ہیں ۔مختلف کالجوں  اور یونیورسٹیوں  میں  مختلف موضوعات پہ لیکچر دینے کے لیے بھی بلائے جاتے ہیں ۔فی الوقت وہ پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے لکھاری ہیں ۔

  جاوید چودھری حقائق پسندانہ شاعری کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنتے ہیں ۔وہ کئی مرتبہ اپنے کالمز میں  اس بات کا اظہار کر چکے ہیں  کہ انہیں مختلف طبقہ ہائے زندگی کی طرف سے سخت ردّ ِ عمل اور شدید تنقیدکا نشانہ بنایا جاتا ہے۔وہ لوگوں  کے اس رویے سے کافی جز بز ہوتے ہیں ۔اگر کوئی کالم ،اس میں  لکھی گئی کوئی کڑوی سچائی کسی ”صاحب کی طبع نازک پہ گراں  گزرے ،کچھ حقائق کسی کواپنی اناء،اپنے ذاتی مفاد کے منافی لگیں تو وہ محض تنقید پہ اکتفاءنہیں  کرتا بلکہ کئی غیر اخلاقی باتیں  کو تنقید کا حصہ بنا لیتاہے۔آج کل ایسا بھی ہوتا ہے کہ موبائل ایس۔ایم۔ایس،فیس بُک اور سماجی رابطے کی کئی دیگر ویب سائٹس(Websites) پہ بھی ”ناپسندیدہ“ افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے متعلق جھوٹا پراپیگنڈہ کر کے ان کی شہرت اور ساکھ کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔جاوید چودھری صاحب کو بھی کئی اندازمیں حق گوئی سے باز رکھنے کی کوشش کی جا چکی ہے۔وہ اپنے کئی کالمز میں  بھی اس با ت کا اظہار کرچکے ہیں  اور ایک دفعہ تو انہیں  لوگوں  کے اس رویے سے تنگ آکر یہاں  تک کہنا پڑا کہ میں کالم نگاری چھوڑ کر کوئی دوسرا کاروبار شروع کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں  جس میں  لوگوں  کی زہر میں  بجھی باتوں  کے تیروں  کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

مزید دِل چسپ بلاگ:

جائیے! منہ دھو رکھئے

ہم خواہ مخواہ معذرت خواہ ہیں

  بات محض تنقیدکی ہو تو کوئی بھی تخلیق کاراسے بُرا نہیں گردانتا کہ کسی بھی تخلیق کے معیار کااس سے متعلق مثبت یا منفی تنقید دیکھ کر ہی کیا جاتا ہے لیکن چونکہ ہمارے ہاں  کا باوا آدم ہی نرالا ہے اسی لیے یہاں  صرف غیر اخلاقی تنقید پر بھی اکتفاءنہیں  کیا جاتابلکہ اکثر اوقات تخلیق کار کو”سبق سکھانے“کے لیے قانون بھی ہاتھ میں  لینے سے گریز نہیں  کیا جاتااور سچ کہنے ،لکھنے والوں  کو صفحہءِ ہستی سے ہی مٹا دیا جاتا ہے۔پاکستان میں  حالیہ چند برسوں  میں  سینکڑوں  صحافیوں  اور اہلِ علم ودانش کو قتل کر دیا گیاہے۔سچ کی کڑواہٹ کو برداشت نہ کر سکنے والوں نے حق کا وہ سرچشمہ ،وہ منبع ہی ختم کر دیا ،سچ کے عَلم سے گھبرا کراس عَلم کو بلند کرنے والے ہاتھ ہی کاٹ دیئے ۔یہاں  دعاں  کے لیے اُٹھے ہاتھ کاٹنے کی رسمیں  عام ہیں :

بلند ہاتھوں  میں  زنجیر ڈال دیتے ہیں

عجیب رسم چلی ہے ،دعا نہ مانگے کوئی

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

حق و باطل کی بات ہو تو ان کی جنگ تو ازل سے جاری وساری ہے۔حق کی صفوں  میں  منصور الحق جیسے دیوانے ہیں  تو شر کے پاس ہلاکو اور چنگیز خان جیسے سپاہی۔کبھی حق کو مٹا دیا جاتا ہے اور کبھی ایسا کرتے کرتے باطل خود مٹ جا تا ہے،لیکن اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ حق پسِ زنداں  ہوتا ہے اور ظلم و جور ہر طرف راج کر رہاہوتا ہے،حق کے نصیب میں  شاید صرف ”آخری فتح“ ہی ہوتی ہے۔فی زمانہ تو یہی ہوتا دیکھا گیاہے کہ جس کسی نے بھی باطل کی مخالفت میں  زبان کھولی ،سچ کا پرچم تھام کر اُسے لہرانے کا عز م اور حوصلہ کیااسے نشانِ عبرت بنادیا گیااور ہمارے وطنِ عزیز میں  تویہ ”رسم“ کچھ زیادہ ہی پابندی سے نبھائی جاتی ہے۔برسوں  پہلے کراچی کے فٹ پاتھوں  پہ علامہ حسن ترابی، مفتی شامزئی کا خون بہایا جاتا ہے،کراچی ہی کی ایک سڑک پہ گورنر سندھ حکیم محمد سعید ؒ کو سرِ عام گولیوں  سے چھلنی کردیا جاتا ہے، ڈاکٹر شبیہ الحسن کو لاہور کی ایک سڑک پراندھی گولی کا شکار بنادیاجاتا ہے۔کوئٹہ میں  (اور حالیہ پنجگور میں  بھی) صحافیوں  کواپنے مفاد کی راہ میں  رکاوٹ بننے پہ راہی ملک ِعدم کر دیا جاتاہے،دن دیہاڑے مینگورہ(سوات ) میں  ملالہ یوسف زئی پہ سرِ عام گولیوں  کی بارش کر دی جاتی ہے!حق و باطل کی جنگ میں  یہ تمام داستانیں ، قربانیوں  کے یہ قصے نئے نہیں  ہیں کیونکہ ازل سے ہی حق کو نمو کے لیے لہو کی ضرورت رہی ہے،سچائی کے یہ دیئے کسی تیل سے نہیں  بلکہ دیوانوں  کے لہوسے روشن ہوتے ہیں  اور پھر حق کے یہ دیئے حق پرستوں  کے سروں  کی فصیل پہ ہی سجتے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیے:

عیّاریاں

نیو بِگ بینگ تھیوری

میرے ندیمؔ

  ان تمام واقعات میں  تازہ اضافہ معروف کالم نگار حامد میرکو نشانہ بنانے کی بزدلانہ کوشش ہے ،اسلام آباد میں  ان کی گاڑی میں کسی نے بم رکھ دیا،ان کی زندگی باقی تھی ،سو، وقت پہ پتہ چل جانے پربم ڈسپوز(Dispose) کر دیا گیایوں  وہ محفوظ رہے۔ اس واقعے سے چند دن قبل جمعیت علمائے اسلام کے راہنمامحترم قاضی حسین احمد کو بھی خود کش حملے کے ذریعے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی لیکن خوش قسمتی سے وہ بھی محفوظ رہے۔

  اب یہ سب ہمیں  ہی سوچنا ہے کہ وہ کون سے چہرے ہیں  جو اپنے مفاد کی راہ میں  آنے والی ہر رکاوٹ ،ہر سچائی کو ختم کر دینے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں ،یہ کون لوگ ہیں  جو اسلام کے نام پہ دہشت گردی اور قتل وغارت کر رہے ہیں ۔ یہ کیسے مسلمان ہیں  جو اپنے جیسے مسلمانوں  کو ہی ختم کر کے اپنا اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔یہ کیسے اسلام کی ترویج کررہے ہیں  اور کیسے اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں  کہ اس کے لیے انہیں جمعیت علمائے اسلام کے راہنما قاضی حسین احمد جیسے راہنما پہ قاتلانہ حملہ کرنا پڑتا ہے۔یہ لوگ میر جعفرو میر صاد ق کے چولے میں  ملبوس ہمِیں  میں  موجود ہیں ۔تخلیق کار کسی بھی ملک کااثاثہ ہوتے ہیں لیکن ہم میں  موجو د یہ غدار ہاتھ ان اثاثوں ،انہی تاریخ ساز ہستیوں  کو ختم کرنے کے دَرپے ہیں ۔جہاں تخلیق کار نہ رہیں تو معاشرہ مہذب کہلانے کا حق دار نہیں  رہتا۔ایک تخلیق کار کی موت ،ایک پورے عہد کی موت ہوتی ہے۔ہم میں چھپے غداروں  کے ہاتھ ،جو عِلم ،فن اورتخلیق کے عَلم کودفن کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ،ہمیں  وہ ہاتھ کاٹنے ہوں  گے۔ہمیں اپنے عہد کو موت سے بچانا ہوگا۔

ایک نظر اِدھر بھی:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے