Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

اب تو غالب کا تعلق نہیں دربار کے ساتھ

 Ab To Ghalib Ka Taaluq Nhi Darbar K Sath, Ghalib, Abbas Tabish, Joke, Appreciation, Motivation, Demotivation, Asad, Asad Mahmood, Blogs And Reviews,

ایک پرانا لطیفہ ہے کہ ایک حضرت بہت پہنچی ہوئی شخصیت تھے ۔دور دور تک ان کا شہرہ تھا لیکن ان کی بیوی نے کبھی قابل اعتناء نہ سمجھا تھا۔وہ ان لوگوں  کو بھی کوستی  ان کی عقل کاماتم کرتی جو ان حضرت کو پیر مان کر ان کے پاس آتے تھے۔ان حضرت نے بیوی کو بہت قائل کرنا چاہامگر وہی ڈھاک کے تین پات کے مصداق ہردلیل ہر ٹوٹکا ہر نسخہ بھینس کے آگے بین بجانا ثابت ہوا۔بالآخر تنگ آکر انہوں  نے سالوں   مہینوں  کی ریاضت کے بعد ایک ایسا وظیفہ پا لیا جو پڑھتے ہی وہ ہوامیں  اُڑنے لگتے تھے۔

ایک صبح انہوں نے وہ وظیفہ پڑھا اور ہوامیں  اُڑنے لگے۔نیچے سے ان کی بیوی نے بھی یہ منظر دیکھالیکن خاوند کو پہچان نہ پائی۔وہ 'فلائٹ'کے بعد گھر پہنچے توبیوی کو خلافِ توقع اپنا منتظر پایا۔

وہ انہیں  دیکھتے ہی بولی:

''تم بڑے پیر بنے پھرتے ہو پیر تو لوگو ں  نے آج دیکھا ہے وہ اﷲ کا بندہ ہو امیں  اُڑ رہا تھا''

پیر صاحب کے گویا دل کی مراد بر آئی گویا ہوئے:

''واﷲ!وہ میں  ہی تو تھا''

 پہلے پہل تو ان کی بیوی کو یقین ہی نہ آیاکہ ہوا میں بغیر پیرا شوٹ کے 'ہوابازی 'کرنے والا ان کا شوہر ہی تھا۔بہر حال جب پیر صاحب کے مریدوں  اور اِرد گرد کے عینی شاہدین نے بھی ان کے حق میں  گواہی دی تو ان کی زوجہ محترمہ نے بادل نخواستہ مانتے ہوئے فرمایا:

''اچھا تو وہ تم تھے جبھی ٹیڑھے میڑھے اُڑے جارہے تھے''

شرطیہ مٹھے بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

شاید یہ لطیفہ پڑھ کر آپ کو ہنسی نہ آئی ہو۔آپ نے اسے بہت پرانا یا دقیانوسی خیال کیا ہو۔لیکن ٹھہریئے!جی کڑاکے اسے ایک دفعہ پھر پڑھیے!آپ کو احساس ہوگا کہ یہ ہمارے معاشرے کا ایک عمومی رویہ ہے۔،ہمارے یہا ں  کسی کی کامیابی کو تسلیم کر کے ایک تالی بجانے کے بجائے اس کے کام میں  سے 'حسب ِ توفیق'کیڑے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

کسی بھی پھول یا پرفیوم کی خوشبو میں  یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ اچھے برے کی تمیز کیے بغیر ہر کسی کو خوشبودار بنا دیتی ہے بلکہ پھول تو خود کے مسلنے والے کے ہاتھ کو بھی سراپا معطر بنا دیتاہے۔شاید اسی لیے پھول اور خوشبو اچھائی اور نیکی کے استعارے کے طور پہ استعمال ہوتی ہے۔اس کے برعکس بندوق سے نکلی ایک گولی بھی یہ خاصیت رکھتی ہے کہ کسی اچھے ،برے یا اپنے ،پرائے کی تمیز کیے بنا سامنے آنے والے کو ختم کر دیتی ہے ایک زندگی ،ایک گھر اور ایک خاندان اُجاڑ دیتی ہے۔

حضرت ِانسان اشرف المخلوقات ہے ۔اس کی سرشت میں  فرشتے اور حیوان دونوں  کی خصلت موجو د ہے ۔یہ اپنے آپ پہ جو بھی رُوپ طاری کرنا چاہے جو بھی بھیس بھرنا چاہے بھر سکتا ہے اورپھر اسی سوانگ کے لحاظ سے فرشتہ یا حیوان بن جاتاہے اوردنیامیں  ممتاز یا رُسواہوتاہے۔دنیاوی لحاظ سے اگر دیکھا جائے توایک شخص اپنے اچھے اور پاکیزہ کردار کی بدولت ایک پھول بن جاتا ہے ایک ایسا پھول جس کی خوشبو سے نہ صرف اس کی اپنی شخصیت اور زندگی خوشبو دار ہوجاتی ہے بلکہ وہ اپنی زندگی سے وابستہ لوگوں  میں  بھی خوشی اورطمانیت بانٹنے کا سبب بن جاتاہے۔اس شخص کا اپنا آپ اور اس سے وابستہ لوگ بھی اسی طرح مہکنے لگتے ہیں  اسی طرح خوشبودار ہوجاتے ہیں   جس طرح کسی پھول کو چھونے والے کا ہاتھ خوشبو سے بھر جاتاہے۔

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

تصویر کے دوسرے رُخ کے طور پر اگرکسی پہ حیوانی خصلت غالب آجائے۔ وہ خود پہ حیوانی خصلت طاری کر لے تو وہ بندوق کی اسی اندھی گولی کی مثل ہو جاتاہے جو نہ تو خو د خوشبو دار ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے اِردگرد بسنے والوں  کو چین کا سانس لینے دیتی ہے۔ایسے لوگوں  کے گردو نواح میں  بسنے والوں  میں  بھی کسی عطر کی خوشبو کی بجائے خوف ،بے بسی اور بے کسی کی بو جنم لیتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ گروہ با لکل اسی طرح ایک بدبودار جو ہڑ کی شکل دھار لیتا ہے ،جیسے ایک گندی مچھلی سے پورا تالاب گندہ ہوجاتاہے۔ایساا نسان اور ایسا گروہ نہ تو قابل ستائش ہوتا ہے اور نہ ہی معاشرے میں  امن و محبت کی علامت۔

تنقید اورتعریف بھی اسی دائرے میں  آتے ہیں ۔ہماری بدقسمتی ہی ہے کہ ہمارے اِردگرد کسی کے اچھے کام کی تعریف کرنے والے بہت کم اور اس میں  سے کیڑے نکالنے والے بہت زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ہمارے ہاں برائیوں کو پھیلانے اور ان پہ بات کرنے والوں  کی کثرت ہے لیکن کسی کے اچھے کام پہ اس کی تعریف و توصیف میں  دو میٹھے بول بولنے والے بے حد کم۔

      یہ سب آپ کے اپنے ہاتھ میں  ہے کہ آپ کس راستے کے راہی بنتے ہیں ۔خود پہ فرشتوں  کی خصلت طاری کرکے پھول کی طرح معاشرے کو خوشبوداراور رنگین بناتے ہیں یا پھر تاریکی کے راستے کاانتخاب کرتے ہیں  اور حیوانی خصلت خود پہ طاری کر کے بندوق کی اندھی گولی کی طرح معاشرے کو غم ویاس کابدبودار جوہڑ بنادیتے ہیں ۔ایک مفکر کا کہنا ہے کہ ''آپ کی ایک تھپکی یا شاباش کا اثر سو گنا زیادہ ہوتا ہے بہ نسبت اس کے جو آپ کی حوصلہ شکنی سے ہوتاہے''۔آپ لوگوں  کو داد دیجیے اور پھر اس کا مثبت ردّ ِعمل بھی دیکھئے لوگ نہ صرف اپناکام مزید تندہی اور ذوق و شوق سے کریں  گے بلکہ آپ اپنے گرد بھی سکون،خوشی اور طمانیت کی ایک خوش کن لہر کا حصار محسوس کریں  گے کیونکہ نیکی کبھی بھی ضائع نہیں  جاتی ۔یہ کسی نہ کسی صورت میں  آپ کو لوٹادی جاتی ہے۔بصورتِ دیگر آپ کو عباس تابشؔ کی زبان پکڑنا پڑے گی جن کا کہنا ہے :

ناشناسانِ سخن اب تو معافی دے دو

اب تو غالب کاتعلق نہیں  دربار کے ساتھ

مقبول ترین بلاگ یہ رہے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے