نامعلوم
کیا بات ہے کہ دسمبر نصف سے زیادہ بیت چکا ہے لیکن ہمارے چمن پہ خزاں کی رُت آ کے ٹھہر گئی ہے،جانے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ درختوں پہ بچ جانے والے خزاں رسیدہ پتے بھی اِک ایک کر کے گر رہے ہیں لیکن یہ خزاں رُت تو فرعون ونمرود کی اَکڑی گردنوں میں نصب
سریّے کی طرح مستقل ٹھہر گئی ہے۔یہ 23دسمبر کی رات کا پہلا پہر ہے،چاند شباب پہ ہے
لیکن فضا میں مٹیالے رنگ کی دُھند اس بُری
طرح سے چھائی ہوئی ہے کہ اجالا ملگجا سا دکھائی دے رہا ہے ۔
اس
ملگجے اجالے سے اندھیرا اپنی تمام تر ظلمت کے ساتھ رونما ہونے کو بے تاب ہے،گو رات
کا پہلا پہر ہے لیکن آبادیوں پہ ہُو کا عالم
طاری ہے ۔ہلکی ہلکی ہوا،جوعام دنوں میں روح و دل کو گدگدا جاتی ہے ۔اس کی سرسراہٹیں عجب
وحشت سی لیے ہوئے ہے۔فضامیں وقفے وقفے سے فائرنگ
کی آواز گونجتی ہے اور پھر ان کے پیچھے ،پسِ منظر میں رواں موسیقی
کی دُھنوں کی طرح ،دُور کہیں کتوں کے
بھونکنے کی آوازیں آنے لگتی ہیں !
آنکھوں دیکھے اور کانوں سنے واقعات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے،بڑے بزرگ آج تک یہی نصیحت
کرتے آئے ہیں کہ دیکھوہمیشہ آنکھوں دیکھے واقعات کو ہی سچ جاننا ،کانوں سنے واقعات میں جھوٹ کی ملاوٹ ہوتی ہے لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ
آنکھو ں دیکھے واقعات آپ بیتی ہوتے ہیں اور کانو ں سنے جگ بیتی۔سو،آج ایک جگ بیتی سنیے:
شرطیہ مٹھے
بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
شام
کا وقت تھا،ایک ویگن اپنی منزل کی طرف محوسفر تھی۔دن بھر کے تھکے ہارے، صبح سے سہ پہر
تک دفاتر میں کولہوکے بیل کی طرح کام کرنے
والے اور دن بھر کی دماغی مشقت کرنے والے طالب علم اس ویگن کے مسافروں میں شامل تھے۔مسافر دن کی بھر کی تھکان کی وجہ سے اونگھ
رہے تھے۔گاڑی سڑک پہ فراٹے بھرتی ہوئی جارہی تھی۔تاحدّ ِنگاہ مکانات کاجوسلسلہ سڑک
کے دونو ں طرف پھیلا ہوا تھا،وہ دھیرے دھیرے
ختم ہونے لگا تھااورگاڑی ایک نسبتاََسنسان علاقے میں داخل ہوتی گئی۔
اچانک
ہی ویگن کے پیچھے چلنے والی ایک چھوٹی گاڑی کی رفتار تیز ہوئی اور وہ ویگن کو ”اوور
ٹیک“کرتے ہوئے اس کے سامنے جا کر رُک گئی ۔ڈرائیور نے گھبراکر بریک پہ پاؤں رکھااوراور گاڑی پہیّوں سے چرچراہٹ کی ایک بلند آواز پیدا کرتے ہوئے رُک
گئی۔گاڑی کے پہیّوں سے بلند ہونے والی نامانوس
چرچراہٹ اورگاڑی کے رکنے سے جنم لینے والے زور دارجھٹکے سے گاڑی میں اونگتے مسافر چونک کر اُٹھ بیٹھے اور نیم واآنکھوں
سے اِردگرد دیکھنے لگے۔حیرت کی یہ کیفیت مسافروں
پہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی کیونکہ ویگن کے
سامنے آکر رُکنے والی چھوٹی گاڑی سے چند اسلحہ بردار اشخاص نمودار ہوئے اور ویگن کو
گھیرے میں لے لیا۔
ویگن
کے اندر مسافروں کی چند لمحے پہلے کی حیرت
اب وحشت اور خوف میں بدل چکی تھی۔مسلح افراد
ویگن کے مسافروں کو ایک ایک کر کے نیچے اُتارتے
اور ان کے پاس موجود روپوں اور سازوسامان سے
محروم کرتے گئے۔مسافر اس وقت بھلا کیا سوچ رہے ہوں گے؟وہ یقینادن بھر کی مزدوری ،بیٹے کے سکول یا بیٹی
کے کالج کے فیس ڈاکوؤں
کو نہیں تھمانا چاہتے ہوں گے۔یقینا وہ محمد بن قاسم کی آمد کے منتظر ہوں گے جو ان کی داد رسی کو پہنچے لیکن محمد بن قاسم
کہاں آنیوالا تھا،یہ قوم تو اب بانجھ ہوچکی
ہے،اس میں اب محمد بن قاسم پیدا ہی نہیں ہوتے اور کوئی پیدا ہوبھی جائے تو ہمارا معاشرہ،
ہمارے راجہ داہراپنی اپنی سلطنتوں کو تاراج
ہونے سے بچانے کے لےے اسے خود ہی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ،اسے سرِراہ کسی بم دھماکے یا اندھی گولی کا نشانہ
بننے والا مظلوم یا بم جیکٹ سمیت خود کو اُڑانے والا دہشت گرد بنا دیتے ہیں ۔
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
بہر طور،ڈاکوؤں نے رہزنی کے بعد ”مالِ مسروقہ“کا حساب کیا تو لگ
بھگ آٹھ ہزار روپے بنے ۔کچھ مسلح افرادنے اپنی گاڑی کی جانب قدم بڑھائے،ایک دو نے گاڑی
کے قریب کھڑے ہوکر کچھ سوچا،پھر باقی سب سے چند لمحے کھسر پھسر کی۔ان میں سے ایک راہزن ویگن کی طرف آیا اورتمام رقم مسافروں
کی طرف بڑھاتے ہوئے گویا ہوا:
"ہمیں تو یہ معلوم نہیں ہے کہ کس کی جیب سے ہم نے کتنی رقم نکالی ہے لیکن
براہِ مہربانی اپنا اپنا حصہ واپس لے لیں ''
مسافروں پہ سکتہ طاری ہوگیا ۔کوئی محمد بن قاسم نہیں آیا تھا۔ فضامیں کسی صلاح الدین ایوبی کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ کسی نے شیح عبدالقادر جیلانی ؒ کی طرح
سچ گوئی اور ماں سے کیا ہوا عہد بھی ایفا نہیں
کیا تھا۔ پھر ایسا کیاہوگیا تھا کہ راہزن لوٹا
ہوامال واپس کرنے پہ آمادہ تھے؟مسافروں کو
خدشہ گزرا کہ یہ راہزنوں کی کوئی چال بھی ہوسکتی
ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آگے بڑھنے والا اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔کچھ دیر یونہی شش
و پنج کی کیفیت میں گزری۔
کوئی
آگے نہ بڑھا تو لٹیرا دوبارہ گویا ہوا:
”ہم
مذاق نہیں کر رہے،تم سب اپنا اپنا حصہ واپس
لے لو۔ہم نے تمہارے محافظوں سے یہ ویگن لوٹنے
کے دس ہزار روپے طے کیے تھے جبکہ یہ تو کوئی آٹھ ہزار روپے بنتے ہیں ۔ ہم ایسے واپس گئے تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔سو،
آپ سب لوگ اپنی اپنی رقم واپس لے لیں !"
ڈاکو راج کے ایسے قصے بچپن میں
الف لیلوی داستانوں میں پڑھا
کرتے تھے لیکن میرے چمن پر آج کل صحیح معنو ں میں ڈاکو
راج نافذ ہوچکا ہے۔قانون نافذ کرنے والے ادارے یا تو خوابِ خرگوش کے مزے لُوٹ رہے ہیں
یا پھر ”حصہ بقدرِ جثہ“وصولنے کے بعد چین کی
بانسری بجا رہے ہیں اور اس بانسری کی مدہوش کن لَے سن سن کے حاکم اپنی ”گڈ گورننس“کے
نعرے لگا رہے ہیں ۔کیا آپ کو بھی ایسا ہی نہیں لگتا جیسے روم ایک مرتبہ پھر جل رہا ہو ااور نیروگردوپیش
سے بے خبربانسر ی بجا نے میں مصروف ہو ؟!
میں نے یہ جگ بیتی شب کے پہلے پہر کو سنی تھی۔یہ 23دسمبر
کی رات تھی۔رات کے تیسرے پہر تک کوئی انجانی سی،سکتے سے ملتی جلتی کیفیت مجھ پہ طاری
رہی۔رات کے تیسرے پہر میں نے دوبارہ صحن میں
جھانکا توملگجا اُجالاابھی تک بھر پور اُجالا
بننے کی تگ ودو میں مصروف تھا،چاند خوب جوبن
پر تھالیکن مشرق تا مغرب پھیلی وہ مٹیالی سی دُھند مزید گہری ہوچلی تھی ۔فضامیں ابھی بھی وقفے وقفے سے فائرنگ کی ترتراہٹ گونجتی
تھی اور پھر اس کے پیچھے کہیں دُور، بہت دُور،پسِ
منظر میں رواں موسیقی کی طرح ،کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں !
مقبول ترین
بلاگ یہ رہے:
0 تبصرے