سفر
بے حد تھکان والا تھا۔ایک عربی کہاوت میں سفر کو' وسیلة الظفر'کہا گیا ہے لیکن مجھے تو
سفر تھکا دینے والا ہی لگتاہے۔چاہے وہ جسمانی ہو یا تخیلاتی۔یہ بھی ایک ایسے ہی
تھکا دینے والے سفر کی رُوداد ہے۔مجھے گھر سے واپس لاہور یونیورسٹی میں پہنچنا تھا۔صبح پہلے تو وقت کی پابندی نہ کرنے
کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور رُوٹ کی پہلی دو گاڑیا ں چھوٹ گئیں ۔مجبوراََ ایک لوکل رُوٹ پر سوار ہونا
پڑا۔سفر کی از حد تلخیوں میں ایک اور کا اضافہ ہوگیاتھاکیونکہ لوکل رُوٹ جگہ
جگہ رُکتا اور مسافر 'امپورٹ ایکسپورٹ 'کرتا رہا۔
بہر طور جب گاڑی لاہور میں
داخل ہوئی توجسمانی ابتری کے ساتھ ساتھ
ذہنی شکستگی بھی عروج پہ تھی۔لاہور میں ٹریفک کے اژدھام اور گاڑیوں کے سیلاب نے ہماری گاڑی کی رفتار کم اور گرمی کی
شدت میں اضافہ کر دیا تھا۔ذہنی و جسمانی
شکستگی بڑھنے لگی تھی۔ذہن وجسم کے عضویوں میں شکست و ریخت کا یہ عمل جاری تھا ۔میں نے یونہی
گاڑی کے ایک طرف کا شیشہ نیچے کر کے باہر جھانکاتو ہوا کے کچھ فرحت آمیز جھونکوں نے زندگی کا احساس دلایا۔میں نے محض توجہ سفر کی تھکاوٹ اور گرمی کی شدت سے
ہٹانے کے لیے باہر دکانوں کی پیشانیوں پر چمکتے جلی حروف میں تحریر شدہ سائن بورڈز
پڑھنے شروع کر دئیے۔ایسے ہی میری نظر دو رویہ سڑک کے درمیان میں نصب اُس رکاوٹ پہ پڑی جودو طرفہ گاڑیوں کوٹکرانے سے روکنے اور دونوں طرف یکطرفہ ٹریفک کی روانی کے لیے جی ٹی روڈ کے
وسط میں نصب ہے۔اُس پہ بھی کچھ تنظیموں اور حکیموں نے اپنی خدمات اور مجربات کا تذکرہ لکھ چھوڑا
تھا۔
شرطیہ مٹھے
بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
میری
نظر ایسے ہی ایک اشتہار پہ ٹک گئی جو وہاں جا بجا لکھا تھا۔کسی قوم پرست پنجابی جماعت اور
اس کے قائد کے حق میں تعریف و توصیف کے
قصیدے لکھے ہوئے تھے۔پارٹی منشور کی'تبلیغ وترویج' بھی کی گئی تھی۔یہ پاکستان کے
دل اور پنجاب کے دارالحکومت لاہور کا داخلی دروازہ تھا جہاں پہ یہ قوم پرستی کے نسخے آنے والوں کو 'استقبالیہ'اور جانے والے مسافروں کو'الودائیہ 'دے رہے تھے۔میری ذہنی شکست وریخت
میں مزید اضافہ ہونے لگا۔سفر کی تھکاوٹ
تھی کہ دو چند ہونے لگی۔چندمنٹ کے فاصلے پر واقع بادشاہی مسجدلاہور کے بائیں پہلو میں آسودۂ ِ خاک اقبال کی آواز میرے ذہن میں گونجنے لگی۔
یوں تو سیّد بھی ہو مرزا بھی ہو
افغان بھی ہو
تم سبھی
کچھ ہو بتاؤ
تو مسلمان بھی ہو
اب
جسمانی و ذہنی شکست وریخت کے ساتھ ایک شرمندگی کا احساس بھی تھا جو مجھے اپنے حصار
میں لیے ہوئے تھا۔میں اقبال کو کچھ جواب نہ دے سکا۔میں کیا کہتا؟اقبال سے کیسے کہتا کہ وہ قوم جس کو تم
نے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک ِ کاشغر تک یکجا ہونے یگانگت کی لڑی میں پرو کرحرم کی پاسبانی کا مشورہ دیا تھا وہ ایک
ملک پاکستان میں بھی اکٹھی نہیں ہو پا رہی تھی۔مسلمان بننا تو درکنار یہ
پاکستانی بھی نہیں بن پائے ۔یہ پنجابی،سندھی،بلوچی
اور پٹھان بننا چاہتے ہیں ؟
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
یادگار
اسٹاپ سے یونیورسٹی ہاسٹل تک کا فاصلہ قریباََ ایک گھنٹے کا تھا۔یہ ایک گھنٹہ ایک
اور صدمے کے ادراک کا زمانہ تھا۔اس بات کا ادراک کہ ہماری پیٹھ پہ خنجر گھونپنے میں
کوئی اورملوث نہیں ۔وہ بازو ہمارے ہی ہیں
۔میں نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے آنکھیں موند لیں لیکن آنکھیں موند کر کبوتر بلی سے کب تک بچ سکتا ہے۔سو وہی
ہوا حقیقت بھیانک روپ میں میرے سامنے آ
کھڑی ہوئی اور میں بے بسی سے ہونٹ ہی
کاٹتا رہ گیا۔
کوئی اور
تو نہیں ہے
پس خنجر آزمائی
ہمِیں قتل
ہو رہے ہیں ہمِیں قتل کر
رہے ہیں
ذرا
اِس پاک وطن کی صورتحال اور تاریخ پہ غور کریں تو معلوم پڑتا ہے کہ اردو، بنگالی زبان کا مسئلہ
ہویا اردو،سندھی کا میر جعفروں کا کردار
کسی بیرونی دشمن کا نہیں تھا۔سقوطِ بنگال
تک بات کیوں پہنچی؟ دشمن کے بیرونی حملے
سے قبل مشرقی پاکستان لہولہان کیوں تھا؟۔وہاں
بھی ہمارے اپنے میر صادق موجود تھے جودشمن
کے آنے سے پہلے اپنا وار کر چکے تھے۔ جس کے نتیجے ہماری فوج کے بے سروسامان بے
سائبان جوان دشمن کے سامنے نہ ڈٹ سکے وہ وفاؤں کی لاج نہ رکھ سکے۔
ان
تمام نادانیوں ،گناہوں کا ذمہ دار کون
تھا؟جنرل یحییٰ خان ،شیخ مجیب الرحمان اور جنرل عبداﷲنیازی غیروں میں سے
نہیں توتھے۔گریبان میں جھانک کر اگر دیکھا
جائے تو غداروں کے چہرے صاف نظر آئیں گے مگرافسوس کہ ہم جذباتیت کو حقیقت پسندی پہ
ترجیح دیتے ہیں ۔'سندھو دیش'،'پختونستان'،'جاگ پنجابی جاگ'اور 'عظیم بلوچستان'کے
شوشے چھوڑنے والے کون ہیں ؟ یہ کسی اور کے ہاتھ نہیں ہیں ۔یہ ہمارے اپنے ہیں ۔یہ ہمارے اپنے ہاتھ ہیں جو ہمیں ہی زخمی کیے جارہے ہیں ۔ہم اپنے ہی ناخنوں سے
اپنا آپ لہولہان کر رہے ہیں ۔
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ
پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتش گل سے ہے کہیں
چمن کو جلا نہ دے
مقبول ترین
بلاگ یہ رہے:
ان
سب کے باوجود اتنا سب کچھ ہونے کے باوجودہمارے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگی ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ہم آج بھی نہ صرف 'جاگ پنجابی جاگ' اور
'بلوچستان لبریشن آرمی' جیسی تنظیمیں بناتے ہیں بلکہ سر عام ان کا پرچار بھی کرتے ہیں اور سادہ
لوح لوگوں کو گمراہ بھی کرتے ہیں ۔ہم نے
محض اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے نہ صرف پنجابی ،سندھی ،بلوچی اور پٹھان ہونے
کو اپنی پہچان بنا لیا ہے بلکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کو کئی حصوں میں تقسیم کر کے سرائیکی،ہزاروی اور بہاولپوری کی
طرح کے مزید 'فرقے'بنا رہے ہیں ۔نجانے ہمیں کب عقل آئے گی ؟اپنے ہاتھوں سے منافرت اوریاسیت کے بیج بو کرنجانے ہم کیوں بھول
جاتے ہیں کہ ان کاشت شدہ بیجوں سے امن،امید اور یقین کے پودے کبھی جنم نہیں لیں گے ۔ہمیں
جلد یا بدیر ناامیدی،بے یقینی اورمایوسی
کے گھنے ،تاریک جنگلوں کا سامنا ہی کرنا
پڑے گا۔
کہا
جاتا ہے کہ بے وقوف دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہے لیکن ہمارے ہاں عقلمند دشمنوں سے بے وقوف دوستوں کی تعداد زیادہ ہو جو اسی ٹہنی کا کاٹ رہے ہیں جس پہ بیٹھے ہوئے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ ہم پر رحم کرے کہ حالات کچھ اچھے
معلوم نہیں پڑتے۔اقبال سے کیا کہا جائے جو
کہے جارہے ہیں :
میر
جعفر از بنگال، میر صادق از دکن
ننگ
ِ دیں ، ننگِ ملت، ننگ ِ وطن
مزید دِل
چسپ بلاگ:
0 تبصرے