Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

اختلاف سے اختلاف

 Ikhtelaf Se Ikhtelaf, Naiki, Baddi, Sin, Virtue, Good, Bad, praisal, admire, MFN, Lahore Shoot Out, LOC, Shahab Nama, Qudrat Ullah Shahab, Two Nations

اختلاف ِ رائے زندگی کے جنم لینے کے لیے ضروری بھی ہے اور اس کے جاری وساری رہنے کا جواز بھی۔اختلاف ِ رائے اگر زندگی کی بنیاد نہ ہوتا تو روز ِ ازل ہی ابلیس اﷲ تعالیٰ کے سامنے تن کر کھڑانہ ہو جاتا۔ یہ رائے اور عمل کا اختلاف ہی تھا جس نے آدم ؑ کو جنت سے زمین پر پہنچا دیا۔زمین پہ پہنچ کے انسان نے نت نئے گل کھلانے کا سلسلہ جاری رکھا ۔روز ِازل ، ابلیس کے اختلاف ِرائے سے جن دو فرقوں ،جن دو گروہوں  نے جنم لیا تھا،وہ،اچھائی اور برائی، نیکی اور بدی کے استعاروں  میں  ڈھل گئے اور ہر چیز کی قدرومنزلت اور معیار کااندازہ ، اس کی وقعت کا تعین بھی انہی دو بنیادوں  پہ کیا جانے لگا۔انسان کی سوچ ،اس کا خیال ،اس کو سب سے پہلے انہی دو اکائیوں ،اچھائی اور برائی کی کسوٹی پہ پرکھا جاتا ہے۔ کسی چیز کی تخلیق کے ساتھ ہی اس پہ ،اس کی اچھائی ،برائی کی بناءپہ تنقید یا تائید کے ڈونگرے برسنا شروع ہو جاتے ہیں ۔

تنقید اور تائید ،بذات ِ خود کوئی بری چیز نہیں  ہے لیکن یہ اس وقت بری بن جاتی ہیں  جب ہم انہیں ذاتی پسند ،ناپسند کی بنیاد پہ برتنا شروع کر دیتے ہیں ۔وہ چیز یا واقعہ ،جس کے بارے میں  ہمیں  بالکل معلوم نہیں  ہوتا یا محض سرسری سا علم ہوتا ہے،ہم اس کی تعریف میں  رطب اللساں  بن جاتے ہیں ، یا توپوں  کا رخ اس کی طرف کر کے اپنے تئیں  اس کا ستیا ناس کر ڈالتے ہیں ۔

شرطیہ مٹھے بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

1947ءمیں  پاکستان بننے سے بہت پہلے ہی، یعنی اس وقت جب مسلمانوں  نے ابھی محض نئے وطن کاسوچا ہی تھا، ایک نئی مملکت کو معر ضِ وجود میں  لانے کا فیصلہ ہی کیاتھا،اس وقت سے ہی اس فیصلے پہ تائیدو تنقید شروع ہوگئی تھی۔صرف ہندو اور انگریز ہی اس کے مخالفین میں  شامل نہ تھے بلکہ بدقسمتی سے بہت سے مسلمان اور کئی جیّد عالمِ دین بھی ان کے ساتھ تھے ۔غرض یہ کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں  کے اس فیصلے کو کسی نے سراہا تو کسی نے دیوانے کی بڑ کہا۔ ہر انسان کی اپنی ذاتی سوچ اور اپنا اپنا ذاتی خیال ہوتا ہے اور وہ اپنی مرضی کے مطابق سوچنے میں  حق بجانب بھی ہوتا ہے لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے ،جب وہ اپنے وضع کردہ نظریات دوسروں  کے سامنے پیش کرتا ہے اور پھر ان سے یہ توقع بھی کرتا ہے کہ وہ اس کے پیش کردہ حقائق پہ ہو بہو”ایمان“ بھی لے آئیں۔

بہر حال بات ہورہی تھی دوقومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کی ،کہ بہت سے لوگ اس کے مخالف تھے لیکن چاہے جیسا بھی تھا، اس نظریے کو کسی تائید حاصل تھی یا تردید کا سامنا تھا،ہندوں  ،انگریزوں  کی سازشوں  کاسامنا تھا یا اندرونی میرجعفروں  کی ریشہ دوانیوں  کا ،پاکستان معرضِ وجود میں  آگیا۔ہندو اور انگریز تو تھے ہی پاکستان کے ازلی دشمن،سو، وہ جابجا سازشوں  اور حیلے بہانوں  سے پاکستان کے خلاف نفرت اور بے جا پروپیگنڈے کے بیج بونے لگے۔قیامِ پاکستان کی مخالفت کرنے والے بہت سے مسلمانوں  نے بھی تقسیم ِ ہند کے دنوں  میں  ہندوں  اور سکھوں  کی طرف سے مہاجرین کے خاک و خون کے دریا بہتے دیکھ کر دو قومی نظریئے کی ازلی سچائی کو تسلیم کرلیا اورانہوں  نے اپنے سابقہ گناہوں  سے تائب ہوکر اپنی بقیہ زندگی پاکستان کی خدمت کے لیے وقف کر دی، لیکن بہت سے ایسے بھی تھے جو مزید توانائی سے وطنِ عزیز کی جڑوں  کو کھودنے میں  مصروف ہوگئے۔وہ آئے دن ہندوں  اور انگریزوں  کو مسلمانوں  کا وفادار ثابت کرنے کی کوششوں  میں  مصروف رہے اور آج تک ایسا ہی کررہے ہیں ۔ ان کے پیٹ میں ،بھارت مخالف کوئی بھی بات سنتے ہی اس سے ہمدردی کے مروڑ اُٹھے لگتے ہیں ۔

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

ان ”معززین“ کی طرف سے بار بار یہ فرمان سنائے جاتے ہیں  کہ

 ”ہم اپنے دوست تو بدل سکتے ہیں  لیکن ہمسائے نہیں ،سو، بھارت کے ساتھ ہمیں  ہر قیمت پہ خوشگوار تعلقات رکھنے چاہئیں “۔

ان ”معززین“ کی طرف سے اس بات کی وضاحت نہیں  کی جاتی کہ ان خوشگوار تعلقات کی نوعیت سے ان کی کیا مراد ہے اور ہمیں  کونسی ”قیمت “تک ایسا کرنا چاہیے۔ہاں ،البتہ ان کے چہرے مہرے کے انداز سے یہ بات پتا چلانا زیادہ مشکل نہیں  کہ ”ہرقیمت پہ“سے ان کی مراد کیا ہے۔

ان کی مرادیقینا یہ ہے کہ بھارت چاہے تو کشمیر پہ اپنا جابرانہ تسلط جمائے رکھے،وہاں  اپنی لاکھوں  کی تعداد میں  افواج بٹھا کر انسانی حقوق کی کھلے عام پامالی کرتا رہے،لیکن ”ہمیں اس کے ساتھ خوشگوار تعلقات کامطالبہ اور خواہش ہی کرنی چاہیے“۔

 بھارت چاہے تو 1947ء،1965ء،1971ءاور 1998ءکی جنگیں  ہم پہ مسلط کر دے، ملکِ پاکستان کو دو ٹکڑے کر کے چیختا پھرے کہ ”آج ہم نے دو قومی نظریئے کو بحیرہءِعرب میں  ڈبو دیا ہے“،90ہزار پاکستانی سپاہیوں  کی قید کر لے اور ان میں  سے سینکڑوں  کو ذہنی معذور اور ہزاروں  کو اپاہج بناڈالے،لیکن ”عظیم دانشوروں “کے بقول ”ہمیں  بھارت سے تجارت کے لیے واہگہ بارڈر کھول دینا چاہیے“۔

مقبول ترین بلاگ یہ رہے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

ہندوستان چاہے تو ہر دوسرے روز لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرکے پاکستانی علاقوں  پہ گولہ باری کرتا رہے اور ہر تیسرے دن پاکستانی سپاہیوں  کو شہید کرتا رہے اور پھر اس پہ مستزاد یہ کہ عالمی برادری میں  ہمارے ہی خلاف پروپیگنڈا کرتا رہے،لیکن ”ہمیں  امن کی آشا جیسی مہمات جاری رکھنی چاہئیں “۔ انڈیا چاہے تو اپنی خفیہ ایجنسی ”را“ کی مدد سے دن دیہاڑے لاہور میں  سری لنکن ٹیم پہ ”لاہور شوٹ آٹ“ جیسے حملے کر کے یہاں  سے نہ صرف بین الاقوامی کرکٹ کا خاتمہ کردے بلکہ بین الاقوامی کرکٹ کے احیاءمیں  سب سے بڑی رکاوٹ بنا رہے،لیکن ”ہمیں  انڈیا کو موسٹ فیورٹ نیشن(MFN ) قرار دے دینا چاہیے“۔

انڈیاچاہے تو اسرائیل اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں  موساد اور سی ۔آئی۔اے کیساتھ مل کر بلوچستان ، خیبر پختونخواہ اور کراچی میں  قیامت برپا کیے رکھے ،سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں  آنے والے دریاں  پہ ڈیم بنابنا کے پاکستان کو بنجر بنانے کے منصوبے روا رکھے ، دنیا جہان کا اسلحہ جمع کر کے تیسری دنیا پہ حکمرانی اورساتھ ایشین ٹائیگر بننے کے خواب دیکھے ،لیکن ”ہمیں  پھر بھی اس سے اچھے تعلقات ہی روا رکھنے چاہئیں “۔

مجھے میر جعفروں  اور میر صادقوں  کے قبیلے سے کسی اچھی بات کی توقع اور امید بھی نہیں  ہے ۔مجھے اعتراض ہے توصرف اس بات پہ کہ وہ حقائق کو مسخ کر کے من چاہے انداز میں  ڈھال کر عوام تک پہنچارہے ہیں اور بہت سے ”بھیڑ چال“چلنے والے لکھاری بھی ان کے نقشِ قدم پہ چلنے اور ہر چڑھتے سورج کے سامنے ماتھا ٹیکنے میں  اپنا فرض بھول جاتے ہیں ۔انہیں  چاہیے کہ اگر وہ ہوا کے رخ کر مطابق چلنا ان کی کوئی مجبوری بھی ہے تو عوام کو گمراہ کرنے کے بجائے تمام تاریخی حوالہ جات بھی ساتھ دیا کریں  تاکہ عوام خود ہی ”اخذ کردہ حقیقت“ کے بجائے ”اصل حقیقت“تک پہنچ پائیں ۔

مزید دِل چسپ بلاگ:

نیو بِگ بینگ تھیوری

میرے ندیمؔ

چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے