Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

موسمی پرندے

 Mausami Parinday, Hussain Haqani, Quaid e Azam, Jinnah, MFN, Aman Ki Asha, Kashmir, Shahab Nama, Qudrat Ullah Shahab, Lamonade, India, Pakistan, Asad,

کہیں  سنا تھا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ جب لوگ اپنے سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں  کو بے وقوف سمجھیں  گے اور یہی قربِ قیامت کا زمانہ ہوگا۔دانشور اور دیگر لوگ خود کو عقلمند تو شاید روزِ ازل سے ہی سمجھتے رہے ہیں لیکن اب بزرگوں  کو بے وقوف بھی کہا جانے لگا ہے،ان کے کیے ہوئے فیصلوں  کا سرِ عام مذاق اُڑایاجاتا ہے ۔

چند دن پہلے ہی امریکہ میں  پاکستان کے سابق سفیر اور موجودہ مفرور ملزم حسین حقانی کا ایک قومی اخبار میں  یہ بیان پڑھا کہ قائداعظمؒ نے پاکستان کو تسلیم کرانے کے لیے امریکہ کی منت سماجت کی تھی ۔ اس کے ساتھ ہی حسین حقانی نے امریکہ سے یہ مطالبہ بھی کیا (بلکہ شاید بزعمِ خود نصیحت کی )کہ وہ پاکستان کی باگیں  ذرا کھینچ کر رکھے۔مجھے اس بیان پہ ذرا بھی حیرت نہیں  ہوئی ۔ میمو گیٹ اسکینڈل میں  جھوٹا بیان دے کر بیرون ملک فرار ہونے والے سابق سفیر کا یہ بیان ”کھسیانی بلی،کھمبا نوچے “کے ہی مترادف ہے لیکن ان کایہ بیان اشرافیہ اور دانشوروں  کے ایک طبقے کی سوچ کا عکاس ہے۔

 اس طبقے میں  وہ لوگ شامل ہیں  جو روزِازل سے ہی قیامِ پاکستان کے بلواسطہ یا بلاواسطہ مخالف ہیں ۔یہ وہی طبقہ ہے جو اپنے مفادات کے لیے کبھی قیامِ پاکستان کو ایک عظیم گناہ قرار دیتا ہے،کبھی قائداعظم ؒکو سیکولر کہتا ہے اورکبھی اپنی دوہر ی شہریت کے حق میں  قائداعظم ؒ کاقیامِ پاکستان کے قبل کا برطانوی پاسپورٹ دکھا کر انہیں  برطانوی باشندہ ثابت کرنے کی تگ ودو میں  مصروف نظر آتے ہیں ۔یہ طبقہ منافقانہ حد تک ہوشیار بھی ہے۔ انہیں  سیدھے سبھاؤ پاکستان کی مخالفت میں  بات کرنے کے نتیجے میں  عوامی ردّ ِ عمل کے خمیازے کااحساس بھی ہے ۔سو،یہ ”امن کی آشا“جیسی مہمات اور MFNجیسی خرافات کے ذریعے اپنے خیالات و نظریات کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں  میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں ۔

شرطیہ مٹھے بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

”امن کی آشا “نام ہے اس مہم کا ،جو ایک پاکستانی اور ہندوستانی میڈیا گروپ نے مل کر چلائی ہے۔یہ مہم ان لوگوں  کا اکٹھ ہے جو سرحدی لکیروں  کو بے معنی اورلایعنی و غیر ضروری گردانتے ہوئے سرحد کے دونو ں  اطراف میں  ”محبت اورامن “کو پھیلانا چاہتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں  جو اپنی ان کوششوں  کے دوران ہمیشہ یہ بھول جاتے ہیں  کہ جن سرحدوں  کو وہ مٹانے کی بات کرتے ہیں ۔

 وہ سرحدی لکیریں  ،جن کی ان کی نظر میں  کوئی اہمیت ہی نہیں  ہے۔  ان سرحدوں  ،ان لکیروں  کی بنیادیں  لاکھوں  مسلمان مہاجرین کے لہو پر استوار ہیں ۔ان لکیروں  کی بنیادوں  میں سنگینوں  میں  پروئے گئے سینکڑوں شِیر خواروں  اور ہزاروں  باعصمت خواتین کی عصمتیں  دفن ہیں  ،جو ہجرت کرتے ہوئے ہندو اور سکھوں  کے قہر کا نشانہ بن گئیں ۔بہت سال پہلے بچوں  کے ایک ماہنا مہ رسالے میں  ایک خاتون شاعرہ نے اپنے آٹو گراف میں  ان ”لکیروں  “کی حقیقت کو ایک شعر میں  یوں  ڈھالا تھا:

یہ نگر جو تمہیں  ملا ہے ،یہ کوئی عام سا نگر نہیں  ہے

ہے اس میں  زندہ لہو بھی شامل ،فقط یہ مٹی کا گھر نہیں  ہے

رہی بات بھارت جیسے ازلی دشمن کو MFN(Most Favorite Nation)قرار دینے کی تو وہ اس طبقے کے چند حکمرانوں  کے سازشی اذہان کا نتیجہ ہے۔

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

مجھے نہیں  لگتا کہ اس طبقے میں  شامل لوگ کسی لاعلمی کاشکار ہیں بلکہ یہ ہٹ دھرمی ہے جو وہ رَور رکھے ہوئے ہیں  اور جو انہیں  چین سے بیٹھنے نہیں  دے رہی۔ہٹ دھرمی کا تو کوئی علاج نہیں  البتہ لاعلمی کا علاج کیا جاسکتا ہے ۔سو، آج متحدہ ہندوستان میں  مسلمانوں  کے ساتھ رَوا رکھے گئے سلوک کی ایک جھلک،قدرت اﷲ شہاب کی شہرہ آفاق آپ بیتی شہاب نامہ سے ملاحظہ کریں :

(قدرت اﷲشہاب کا تعلق جموں  سے تھا۔ان کے بچپن میں جموں  میں  طاعون (Plague ) کی وباءپھیل گئی اور انہیں  سری نگر کی طرف جانا پڑا،دورانِ سفر ،راستے کے واقعات کو ذرا دیکھیں )

”اب پہاڑی رستہ شروع ہونے والا تھااور بس گھاؤں  گھاؤں  کرتی پیچ در پیچ سڑک پہ چلنے لگی جو بھورے پہاڑ اور سرسبز درختوں  کے ساتھ کالے ربن کی طرح لپٹی ہوئی کبھی اوپر اُٹھتی تھی ،کبھی نیچے لڑھکتی تھی اور کبھی بڑے بڑے بیضوی دائرے کاٹ کرنظر سے اوجھل ہو جاتی تھی ۔ ایک طرف سنگلاخ چٹانیں  ہی چٹانیں  ہی تھیں ۔دوسری طرف پر مہیب گہرائی ہی گہرائی۔جگہ جگہ پہاڑی جھرنوں  کا پانی چھوٹی چھوٹی شفاف چادریں بن کر چٹانوں  کے اوپربہتا تھا۔

سڑک کے کنارے پکے چبوترے اور حوض بنے ہوئے تھے اور جھرنوں  کاپانی لوہے کے نل کے ذریعے چوبیس گھنٹے ان پر گرتا رہتا تھا۔ہندو ڈوگرے ان نلوں  کی دھار کے نیچے کھڑے ہو کر نہاتے بھی تھے ،کپڑے بھی دھوتے تھے ، پانی بھی پیتے تھے ۔مسلمانوں  کو ان چبوتروں  کے پاس تک پھٹکے کی اجازت نہ تھی کیونکہ ان کے چھونے سے چشمے کاصاف پانی ناپاک ہو کر بھرشٹ ہو جاتا تھا۔جو بچا کچھا مستعمل پانی چبوتروں  سے بہہ نکلتا تھا ،اس کی نکاس سڑک کے دوسری جانب نشیب کی طرف تھی۔یہاں  سے یہ از سرِ نو ایک بیمارسی آبجو بن کر نیچے کی طرف رواں  ہوجاتا تھا۔اس سیکنڈ ہینڈ پانی کو اپنے استعمال میں  لانے کی مسلمانوں  کو کھلی اجازت تھی ۔

ڈیڑھ دو گھنٹے کی مسافت کے بعدڈرائیور نے بس کاپانی بدلنے کے لیے ایک چشمہ کے پاس پڑاؤ کیا اورمسافروں  کو وارننگ دی کہ یہاں سے چل کر اب وہ اودھم پور پہنچ کر رُکے گا۔اس لیے جس نے کچھ کھانا پینا ہو وہ یہیں  سے کھا پی کر چلے۔سڑک کے کنارے ایک چھپر میں  حلوائی اور سوڈاواٹر کی دکان تھی ۔ایک تھال میں  باسی پکوڑے تھے جن پر کچھ مکھیاں  بے دلی سے منڈلا رہی تھیں ۔ دوسرے تھال میں  لڈو تھے جن پر سری نگر بانہال روڈ کی گرد اس قدر تہہ در تہہ جمی ہوئی تھی کہ ان پر مکھیوں  نے بھی بھنبھنانا چھوڑ دیا تھا۔لکڑی کے برادے میں  لت پت برف کی سل ایک مَیلےسے ٹاٹ میں  لپٹی ہوئی تھی اور لیمونیڈ کی بہت سی بوتلیں  بے ترتیبی سے پڑی تھیں ۔

مقبول ترین بلاگ یہ رہے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

سب سے پہلے دکاندار نے پتوں  کے دونے میں  پکوڑیاں  اورلڈو ڈال کر ایک ایک بوتل کے ساتھ بس کے ڈرائیور اور کلینر کو نذرانہ دیا۔باقی سب مسافروں  نے لیمونیڈکی بوتلوں  پر یورش کی ۔دکاندار نے چارچار لڈو اور کچھ پکوڑے ڈال کر بہت سے دونے تیار کر رکھے تھے۔جو مسافر لیمونیڈ طلب کرتا ،اسے مٹھائی کا ایک دونا بھی زبردستی خریدنا پڑتا تھا۔باقی سب مسافر تو خیر اپنی اپنی بوتل اور گلاس اور برف لے کر چھاں  میں  بیٹھ گئے لیکن سات آٹھ مسلمان پسنجروں  کو لیمونیڈ پینے میں  بڑی دیر لگی۔

دکان سے باہر کونے میں  ایک ٹوکری لٹک رہی تھی ۔اس میں  کانچ کا ایک مَیلا سا گلاس اوندھا پڑا تھا۔مسلمان خریدار اس گلاس کو اُٹھا کر فقیروں  کی طرح ہاتھ پھیلائے دکاندار کے سامنے کھڑا ہوجاتا تھا۔ دکان والادور ہی دور سے اس میں  برف کی ڈال چھناک سے پھینکتا تھا اور پھر بوتل کو کھول کر ڈیڑھ دو فٹ کی بلندی سے گلاس میں  لیمونیڈ انڈیل دیتا تھا ۔کچھ جھاگ خریدار کے ہاتھ پر پڑتی تھی،کچھ چھینٹے اس کے کپڑو ں پر اُڑتے تھے اور دو تین گھونٹ بوتل میں  بچ رہتے تھے ،جسے منہ لگا کر اور ڈکار مار کر حلوائی خود ہضم کر لیتا تھا۔لیمونیڈ پی کر ہرمسلمان اپنا گلاس خود دھو کر دوسرے خریدار کے باہر والی ٹوکر ی میں  لٹکا دیتا تھا“۔(بحوالہ: شہاب نامہ از قدرت اﷲ شہاب،صفحہ نمبر32,33)

یہ ہے وہ اصل حقیقت اور ہندوستانی ذہنیت جس کا ذکر کرنے کی ہمارے دانشوروں  کو فرصت نہیں  ملتی ۔ہمارے دانشور آزاد ملک میں  پیدا ہوئے ہیں ،اس لیے انہیں  اس ذلت کا اندازہ ہی نہیں  ہے جو متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں  کو برداشت کرنا پڑتی تھی،انہیں  شودروں  سے بھی کم تر سمجھا جاتا تھااوریہی و ہ ہندووانہ ذہنیت ہے جو امن قائم کرنے والے اور محبت پھیلانے کے دعویداروں اور روشن خیالوں  کو نظر نہیں  آ تی ۔

مزید دِل چسپ بلاگ:

نیو بِگ بینگ تھیوری

میرے ندیمؔ

چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے