میں اپنی گلی میں پہنچا تو میرے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا۔لیکن ٹھہریئے یہ جھماکا میرے ذہن میں ہونے سے ذرا قبل ایک جھپاکا سا گلی کے کونے میں بھی ہواتھا۔یہ دراصل ہمسائیوں کا کتا تھا جو طالبان گردی پہ اتر آیا تھا۔نجانے یہ میرے پینٹ کوٹ کے اتنا مخالف کیوں تھا؟مگر یہ وقت فلسفے کے داؤ پیچ لڑانے کا نہیں بلکہ بھاگ کر جان اور پینٹ بچانے کا تھا۔سو، میں نے رفتار میں طوفان میل کو مات دیتے ہوئے کتے کو پیچھے چھوڑااور بندوق سے نکلی ہوئے گولی کی طرح دروازے میں جا لگا۔
خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ دروازہ کھلا تھا۔ اس وقت مجھے کام والی مائی کی اس لاپروائی پہ بے پناہ پیار آیاجس پہ اس سے پہلے میں ہمیشہ اُسے جھاڑ پلاتاآیا تھا۔آن کی آن میں گھر کی دہلیز پار کرکے میں نے اندرسے کنڈی چڑھائی اورپھولے ہوئے سانس پہ قابو پانے کے ساتھ ساتھ یہ غور کرنے لگا کہ آیا بین الاقوامی دوڑوں کے مقابلوں میں شریک ہونے والے کھلاڑی پریکٹس سیشنز میں کتوں سے مدد لیتے ہوں گے یا نہیں؟
آپ کے ذوقِ نظر کی نذر:
چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری
میں دروازہ بند کرکے پلٹا توایک کنکر میرے کان کو چھوتے ہوئے گزر گیا۔ اچانک ہی مجھے ”الہام“ ہوا کہ ”صہیونی طاقتوں“ نے حملہ کر دیا ہے ۔میں نے اِدھر اُدھرنظر دوڑائی اور کیاری میں لگے ایک گھنے پتوں والے پودے کے پیچھے جا چھپا ۔عین اسی لمحے منڈیر سے بے طرح پھڑ پھڑانے اور قہقہوں کی آواز سنائی دی۔ میں نے کانی آنکھ سے جھانک کر دیکھا تو ایک کبوتر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوئے جارہاتھا۔میں کھسیانہ سا ہو کر کپڑے جھاڑتا ہوا صحن میں نکل آیا۔ کبوتر فوراََ ہی نیچے اُترا اور اسی پودے کی ایک شاخ پر بیٹھ گیا جس کے پیچھے تھوڑی دیر پہلے میں ”پناہ گزین “تھا۔کبوتر کے پنجے میں تُڑا مُڑا سا ایک کاغذ بھی تھا جو اس نے میں میری طرف بڑھایا۔میں نے کبوتر کو گھورتے ہوئے کاغذلیا ۔
اسی لمحے مجھ پہ انکشاف ہوا کہ یہ تو وہی کبوتر تھا جو کچھ دن پہلے دیگر جانوروں کے ساتھ بن بُلایا مہمان بن کر میرے گھر آیا تھا۔ مجھے اس پہ بے پناہ غصہ آیا:
”تو یہ پتھر تم نے پھینکا تھا؟تم کہاں کے درویش ہو؟ اگر یہ پتھر میری آنکھ میں لگ جاتاتو ؟“
کبوتر نے منہ بنایا:
”میں نے درویش ہونے کی نشانی کے طور پہ ہی تمہیں پتھر مارا تھا“
”کیا مطلب ہے تمہارا؟“
”لگتا ہے تم نے وہ حکایت نہیں سنی جس میں ایک درویش نے سوال پوچھنے والے کو پتھر مار کر اس کا سر پھاڑ دیا تھااوررہی بات تمہاری آنکھ پھوٹنے کی تو اس طرف تمہاری پشت تھی“
یہ بھی پڑھیے:
کبوتر کی فلسفیانہ ہٹ دھرمی نے مجھے سیخ پا کر دیا :
” اور اگر پتھر سے میرا سر زخمی ہو جاتاتو؟“
لیکن کبوتر نے بھی جیسے نہ ہارنے کی قسم کھا رکھی تھی۔
” پتھر میں نے تمہیں اس لیے مارا تھاکہ جس رفتارسے تم گلی سے گزر کر گھر تک آئے تھے ،مجھے خطرہ تھا کہ تم کہیں خط لیے بناہی اندر نہ چلے جاؤ“
کبوتر سے اس گفتگو کے دوران مجھ پہ دو انکشافات مزید ہوئے۔ایک تو یہ کہ درویشی کا کبوتر سے دور دورکا کوئی واسطہ نہیں۔انہیں تو بس ”بد سے بدنام برا“ والے محاورے نے بدنام کر رکھا ہے اور دوسرا یہ کہ ہو نہ ہو اس کبوتر کا شجرہ کسی نہ کسی وکیل یا واعظ سے ضرور ملتا تھا وگرنہ وہ ہر بات کے حوالے سے اتنے تفصیلی دلائل نہ دیتا۔
”یہ کیا ہے؟ “
میں نے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کے پرزے کی طرف اشارہ کیا۔
”یہ گدھے بھائی جان نے تمہارے نام خط لکھا ہے“
کبوتر نے پہلی مرتبہ کوئی سیدھا جواب دیا۔
”میری بات سنو !امریکیوں کو تو گدھے گھوڑے کو تمیز نہیں ہے لیکن تم تو اچھے خاصے عقل مند پرندے ہو۔ تمہیں اس گدھے کی خاطر یوں خوار ہونے کی کیا ضرورت تھی؟“
ایک نظر اِدھر بھی:
میں نے کبوتر کو ورغلایالیکن وہ ہتھے سے اُکھڑ گیا۔
”یہ سب گروہ بندیاں اور کام چوریاں تم انسانوں کا شیوہ ہیں۔ ہمیں تو تم معاف ہی رکھو“
مجھے اس سچ پہ اس قدر غصہ آیا کہ میں منہ پھیر کر اندر کمرے کی طرف چل دیا۔کبوتر بھی پُھر سے اُڑگیا۔ کمرے میں پہنچ کر میں نے خط کھولا تواس کا متن کچھ یوں تھا؛
”اے نام نہادکالم نگار اورخود ساختہ دانشور، آداب!
پچھلے دنوں خشت سازی کے بَھٹے پہ میں اپنے مالک کی معیت میں اینٹیں ڈھونے پہنچا۔وہاں دو مزدور تمہارے کالم پہ دندیاں نکال رہے تھے۔میں ریڑھے میں جُتاہونے کی وجہ سے شاملِ گفتگو نہ ہو سکا۔انہی دو کی باتوں سے پتہ چلا کہ تم نے ہماری بے ضرر ملاقات کو اے پی سی کہا اور ہمیں بن بُلائے مہمان قرار دیا۔اس کالم میں تم نے صرف ایک ہی پتے کی بات کی جو کہ میرے متعلق تھی جس میں تم نے مجھے امریکی ریپبلکن پارٹی کانمائندہ کہا لیکن تمہاری یہ بات بھی طعن و تشنیع میں لپٹی ہوئی تھی گومیں نے موقع پر ہی پَلٹنیاں کھا کھا کر احتجاج ریکارڈ کرانا چاہا لیکن وہاں موجود کسی نے میری طرف توجہ نہ کی۔
اسی شام میں نے تمہارے کالم اور ہرزہ سرائی کا تذکرہ اپنی انجمنِ جانوراں میں کیا تو تمام جانور غصے سے بھر گئے۔انہوں نے فی الفور ایک مذمتی قرارداد منظور کی ۔پریس کانفرنس کرنے کا بھی ارادہ تھا لیکن تم واپڈا کو دعائیں دو ۔ڈیڑھ گھنٹہ پریس کلب میں بنا بجلی کے پسینہ چھڑانے کے بعد پریس ریلیز موخر کرنا پڑی۔اور ہاں،ایک بات تو میں بتانا ہی بھول گیا۔انجمنِ جانوراں کے اجلاس کے دوران تمہارے کالم کے نازیبا الفاظ پہ فاختہ بی اور بھینس محترمہ کاہتک ِعزت کے احساس سے برا حال تھا۔
ان کی اس حالت کو دیکھ کر قائدین حزب اختلاف کتااور بکرا تو اسی وقت دفعہ 302کے ارتکاب پر تُل گئے تھے لیکن تمہاری قسمت نے یہاں بھی تمہاری یاوری کی اور CNGاسٹیشن کے باہر شیطان کی آنت کی طرح لمبی قطاریں دیکھ کر ہر دو جانوروں کو اپنا ارادہ ملتوی کرناپڑا۔اور ہاں لگے ہاتھوں تمہیں یہ بھی بتادوں کہ خط کو آدھی ملاقات کہا جاتا ہے لیکن تم اسے ایک چوتھائی ملاقات ہی سمجھو کیونکہ میں اپنا پتہ دے کر تمہیں زیادہ فری نہیں کرنا چاہتا ۔البتہ ”اوپر“سے ملنے والی ہدایات وقتاََ فوقتاََ انجمنِ جانوراں کی منظوری سے تم تک پہنچاتا رہوں گا۔تمھیں چاہیے کہ ہماری مخالفت ترک کر دو کہ آخراس میں رکھا ہے کیاہے سوائے ڈرون حملے کے؟ گو اشارہ سمجھنے کی بات تو عقل مند کے لیے ہے لیکن میں اُمید رکھتاہوں کہ کچھ نہ کچھ تمہارے پلے بھی پڑ ہی گیا ہوگیا۔
فقط
گدھا سیکرٹری جنرل انجمنِ جانوراں پاکستان(AJP)“
مزید دِل چسپ بلاگ:
0 تبصرے