Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

مسعود مفتی کا ایک اور چہرہ

 Masood Mufti Ka Aik Aur Chehra, Masood Mufti, 1971, Departure, Bengal, massacre, Dhaka, Bangladesh, Asad, Asad Mahmood, Javed Ch, Sohail Warraich, اسد

مجھے باقی لکھاریوں  کا تو علم نہیں  لیکن میرے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض دفعہ تو موضوعات راہ چلتے مل جاتے ہیں  اور بعض اوقات لکھنے بیٹھو تو مضامین ذہن سے ایسے غائب جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔بہر حال یہ موضوع بھی انہی موضوعات میں  سے ایک تھا جو اچانک سے میرے ذہن میں  عود کر آیا تھا۔مشرقی پاکستان کے آخری سیکریٹری وزارتِ تعلیم اور ممتاز ادیب مسعود مفتی کا16دسمبر 1971ءکے سقوطِ ڈھاکہ کے سے خون آشام پسِ منظر میں  لکھا گیا ایک مضمون بعنوان ”ایک اور چہرہ“میرے زیرمطالعہ تھا۔

  غلطی زندگی میں  کون نہیں  کرتا،اپنے اپنے انداز اور قد کی غلطی ،چھوٹے کی چھوٹی اور بڑے کی بڑی غلطی۔چھوٹی غلطیو ں  پر معافی بھی مل جایا کرتی ہے اور اگر غلطی قابلِ معافی نہ ہو تو سزا بھی زیادہ بڑی نہیں  ہوتی لیکن جوں  جوں  قد بڑاہوتا جائے ،غلطی کا امکان کم اور کی جانے والی غلطیوں  کا قد بھی بڑا ہوتا جاتا ہے،بڑی غلطی کا خمیازہ بھی بڑا ہی چکانا پڑتا ہے ۔بعض اوقات بہت سی شخصی غلطیاں  مل کر اجتماعی گناہوں  کا روپ دھار لیتی ہیں ،ایسا بھی ہوجایا کرتا ہے کہ لمحوں کی خطائیں  ،صدیوں  پر بھاری پڑ جائیں ۔

  بحثیتِ قوم1947ءمیں  غلامی کے طوق اپنی گردن سے اتار کرہم آ زاد وطن کے شہری بنے۔یہ اس وقت کی آبادی اور رقبے کے لحاظ سے دنیائے اسلام کی سب سے بڑی مملکت تھی لیکن ابھی 24برس ہی بیتے تھے کہ ہماری قوم کی یگانگت،یکجہتی اور نظریہئِ پاکستان کے ستونوں  پہ کھڑی عمارت نہ صرف کھوکھلی اور شکستہ ہوگئی بلکہ جب بیرونی دشمن نے حملہ کیا تو وہ دھڑام سے زمین بوس ہوگئی۔محافظوں  کو حملہ آوروں  کا استقبال کر کے ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔پاکستان بننے سے بٹنے تک کا یہ سفرمحض اس ایک نسل کے جوان ہونے تک کا تھاجو قیامِ پاکستان کے وقت پیدا ہی ہوئی تھی۔ یہ سوال گزشتہ41برس سے جواب کامتمنی ہے کہ ان 24برسوں  میں  ایسا کیا ہواکہ اپنے پرائے بن گئے،حالات اس نہج پر کیسے اورکیوں  پہنچے کہ دوست دشمن،محب وطن غدار اور حبیب رقیب بن گئے۔ یہ سانحہ کیونکر ہو کہ ہمارے خاکی پوشوں  کی بے سروسامانی کے باوجود کی گئیں وفائیں  بارآور نہ ہوسکیں  ۔وہ کیسے گل تھے جن سے زہر ہی زہر سا پھوٹتا رہا،جو باغبانوں  تک کو لہولہان کر گیا۔

مزید دِل چسپ بلاگ:

جائیے! منہ دھو رکھئے

ہم خواہ مخواہ معذرت خواہ ہیں

اسپانسرڈ شاعرات

   بہت سے افراد نے اپنی بساط کے مطابق بہت کچھ لکھا۔حمودالرحمان نامی کمیشن بھی بنایاگیا۔سیاست دانوں  کی کارستانیاں  اور فوج کی بے سر وسامانیاں منظرِ عام پر آئیں لیکن اس سب کے باوجود کوئی اپنی غلطی تسلیم کرنے پہ تیار نہ ہوا۔شاید ہم ایسے ہی کم ظرف ہیں  کہ وقت گزرنے ،طوفان ٹوٹ چکنے کے بعد بھی ازالہ تو درکنار،اپنی اپنی غلطی ماننے سے ہی گریزاں ہیں ۔مجھے تو یوں  لگتا ہے کہ ہم جیسے کم ظرف اس قابل ہی نہ تھے کہ اس اعزاز کے حق دار رہتے،بنگال کے پٹ سن کے ریشوں ،پنجاب کے گندم کے خوشوں ،وادیِ سندھ کے کماداور مکئی ،جوار کے سِٹّوں  اور بلوچستان و سرحد کے باغات کے پھلوں  والی سر زمین یکجا رہتی۔ہاں !یہ ہماری کم ظرفی بھی تو تھی جس نے ہمارے وطن کو دولخت کر دیا۔ہمیں  پاکستانی مسلمان بننے کے بجائے بنگالی،بلوچی،پٹھان ،سندھی اور پنجابی بنادیا۔

   مسعود مفتی صاحب نے یہ مضمون 1977ءمیں  تحریر کیا تھا۔انہوں  نے اپنے اعلیٰ ظرف ہونے کاثبوت دیتے ہوئے اپنی خطاں  کی پردہ پوشی نہیں  کی ،اپنی نسل کے ہاتھوں  سر زد ہونے والی غلطیوں  کو انہوں  نے زدِ قلم کیا ہے۔انہوں  نے کیاکیا کہا تھا ،آیئے!انہی کی زبانی سنتے ہیں :

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

”1947ءمیں  دو قوموں  کے ساتھ دو رویوّں  نے بھی جنم لیا۔ ایک طرف پاکستان میں  کامرانی کے بعد کاہلی ابھری ،تو دوسری طرف ہندوستان میں  ہار کے بعد ہمت ابھری۔ہم 1940ءمیں  مقصدشناس بنے ۔1947ءمیں  مقصد براری ہوئی توہم نے سامانِ حرب اتار کر رکھ دیا اور سستاتے ہوئے سو گئے۔ہندو 1940ءسے بہت پہلے مقصد شناس بن چکے تھے۔1947ءمیں  انہیں اپنے مقصد میں  ناکامی ہوئی تو ان کی ساری سوچیں  اور کوششیں  اسی مقصد کے تعاقب میں  لگ گئیں ۔ہماری مقصد فراموشی اور ان کی مقصدی لگن دو مختلف رویّے تھے۔مشرقی پاکستان کی نئی نسل ان دو رویّوں  کا لازمی نتیجہ تھی۔جب ہم نے اپنے بچوں  کی انگلی چھوڑ دی تو دوسروں  نے تھام لی اور قدم قدم اپنے ساتھ چلانے لگے، اور بالآخر اُدھر لے گئے جدھر وہ لے جانا چاہتے تھے۔

  ان دو رویّوں  نے ہماری نسل کو کس طرح نئے انداز میں  ڈھالا؟اس کی داستان طویل ہے،مگر دو لفظوں  میں  بیان ہوسکتی ہے:”نظامِ تعلیم“۔نظامِ تعلیم ایک خاص رُخ میں  چلنے والی ہَوا ہے، جس کے رُخ کا تعیّن ہر قوم کو خودکرنا پڑتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے تساہل کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں  یہ ہَوا24برس تک پاکستان کے مخالف رُخ میں  چلتی رہی۔ہَوا کے اس رُخ متعیّن کرنے میں  سب سے بڑا حصہ ہندو اساتدہ کا تھا۔اس کے بعد ان عناصر کا جو یا تو ہندوستان کے ایجنٹ تھے یا اپنے طور پر نظریہئِ پاکستان میں  یقین نہ رکھتے تھے۔یہ عناصر بڑے موثر طریقے سے پالیسی مرتب کرنے والے اداروں  میں  دخیل تھے۔

یہ بھی پڑھیے:

عیّاریاں

نیو بِگ بینگ تھیوری

میرے ندیمؔ

  قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مارچ 1971ءکی فوجی کاروائی کے بعد تعلیمی ادارے دو تین دن ماہ بند رہے اور جب رفتہ رفتہ کھلنے لگے تومسلمان اساتذہ کی بہت بڑی تعداد غیر حاضر تھی ،مگر ہندو اساتذہ کم وبیش سبھی حاضر ہوگئے تھے اور بڑی تندہی سے اپنے مذموم کاروبار میں  مصروف رہے۔اساتذہ کے علاوہ نصابی کتب بھی ہَوا کے رُخ کو ادھر ہی چلا رہی تھیں ،میٹرک کی انگریزی کی کتاب میں گرامر کی تراکیب کی تشریح کے لیے جو فقرے بنائے جاتے تھے ان میں  زیادہ تر ہندوں  کے نام تھے اور ذکر بھی ہندو رسومات یا کلچر کاہوتاتھا۔ تاریخ کی ایک درسی کتاب میں سب سے نمایاں تصاویر پرتھوی راج اور رانا سانگا کی تھیں ،اکبرِ اعظم کے سیکولرازم کی تعریف تھی مگر کسی مسلمان بادشاہ کی تصویر نہ تھی۔

  نئی نسل پر یہ الزام ہے کہ اس نے وطن سے نفرت کی اور وطن کے دشمن سے محبت کی ۔اس نے دو قومی نظریے سے نفرت کی جس پر پاکستان کی عمارت کھڑی ہے۔اس نے ان حالات کو فراموش کردیا جن کی وجہ سے پاکستان کاوجود ناگزیر تھا۔اس نے اپنی تواریخ کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے سے انکار کر دیا۔اس نے اپنا ماضی اپنی آنکھوں  سے نہیں  دیکھا بلکہ اپنے کانوں  اور غیروں  کی زبانوں  سے پرکھا۔اس کا یقین دھندلا اور عمل اُلٹا ہے۔نئی نسل پر الزام بیشک درست ہے مگریہ ملزم نہیں ہے۔اصل ملزم وہ نسل ہے جس پر یہ الزام نہیں  لگایا جاتایعنی بزرگ نسل جس نے پاکستان حاصل کیا تھااور پھر بڑی دیدہ دلیری سے ان نعروں  کو تار تار کرنے لگے ،جو سفر کے دوران اس کے پرچم پر لکھے تھے۔ان کے بجائے تواریخ کی مردہ قوموں  کے کفن کی دھجیاں  اٹھا کر سینے پر سجانے لگے۔نئے عہد توڑ ڈالے اور کہنہ فرسودگیوں  کو نئے زاویے سمجھ کر اپنا لیا۔

  منزل پر پہنچ کر نئی نسل کو تربیت دینے کے بجائے اس کے سامنے روح و جسم کی سٹرپ ٹیز(Strip-Tease)کرنے لگے۔ سرسید، علی برادران،سیّد عطااﷲ شاہ بخاریؒ،علامہ عنایت اﷲ مشرقی،علامہ محمد اقبالؒ اور قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کی دی ہوئی پوشاکیں نوچ کر اتارنے لگے اور بالآخراندر سے اٹھارویں اور انیسویں صدی کا وہ گھن زدہ زوال پذیرکردار نکال پیش کیا،جس نے ہند کی اسلامی سلطنت کوفرنگی کے ہاتھوں  بیچ ڈالا تھا۔بزرگ نسل نے نئی نسل کو اگر کچھ بتایا تو صرف یہ کہ ’غنڈہ ہیرو ہے،شرافت گناہ ہے،دیانت داری بزدلی ہے،موقع پرستی عقل مندی ہے،بے اصولی اصل ہے،بااصولی نقل ہے،خوشامد عبادت ہے،اخلاقی جرات حماقت ہے،خود احتسابی بغاوت ہے اور سیاست رشوت ہے‘جب سوچ کاہر دھارااُلٹا بہنے لگا تو نظامِ تعلیم کی کجی بھی نظر نہ آئی اور اس کے نتیجے میں  نئی نسل کے وطنیت کے تصور کو بھی گھن لگ گیا۔پاکستان سے غداری اسی نسل نے کی ہے جس نے پاکستان بنایا تھامعماروں کی غداری بدترین غداری ہوتی ہے۔ایسی عمارت کے مکین ہمیشہ ہی چھت گرنے کے اندیشوں میں  بھٹکتے رہتے ہیں ۔“

  مسعود مفتی صاحب نے جو نقشہ کھینچا ہے وہ 1947ءسے 1971ءتک کا ہے لیکن آپ آج کے حالات کا جائزہ لیں توخاکم بدہن کیا ایسا نہیں  لگتا کہ ہم ایک اور سقوط کی طرف بڑھ رہے ہیں کہ گردوپیش ،ہر سُو وہی فضاہے جو ایک طوفان کے آنے سے پہلے کی ہوتی ہے۔وہ طوفان ،جس کے بعد پھر” کمیشن “بنتے ہیں  اور حقائق چھپائے جاتے ہیں ۔

ایک نظر اِدھر بھی:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے