Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

سپاس نامہ برائے استاد محترم جناب ماسٹر محمد سعید صاحب

Farewell speech for teacher in urdu


تِرے سوا کوئی دعویٰ کرے خدائی کا

میں ماننا تو کجا، اُ س کو جانتا ہی نہیں


ابھی مٹی نہ کھنکی تھی ، ابھی پانی نہ برسا تھا 

مگر بزمِ عناصر میں ترے ہونے کا چرچاتھا

ــــــــــــــــــــــــــــ


یعنی اب سعید صاحب بھی جا رہے ہیں؟


آپ سوچیں  گے کہ میں یہ پوچھ رہا ہوں، یا بتا رہاہوں۔ 

دراصل جب میں 2016ء میں یہاں آیا تو اِنہوں نے پہلے دِن کی چائے مجھے پلائی تھی۔ آج اِن کا الوداعی کھانا کھایا جارہاہے۔ گویا چائے سے شروع ہونے والا سفر کھانے پر ختم ہو رہاہے۔ یہ سات سالہ رفاقت بنتی ہے۔ اِن سات سالوں میں اِنہوں نے کوئی سات سو دفعہ مجھے کہا کہ 

"لکھو میری درخواست"۔


 میں نے تو کبھی نہیں لکھی لیکن اِس دفعہ اِنہوں نے خود لکھ لی اور کام پکا کرنے کے بعد بتایا کہ

"بس اب جا رہا ہوں، روکنا مت"۔ 


 سوچتاہوں ڈھلیں گے یہ اندھیرے کیسے 

 لوگ رُخصت ہوئے اور لوگ بھی کیسے کیسے 


دسمبر سانحات کا مہینہ ہے ۔ کیا مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور آرمی پبلک سکول پر حملہ کم بڑے سانحے تھے کہ اب یہ بھی اسی ماہ میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔جونؔ ایلیا ہوتے تو کہتے :


 جو یہاں سے کہیں نہ جاتا تھا 

 وہ یہاں سے چلا گیا ہے کہیں 


اب بندہ کیا سپاس نامہ لکھے۔ اور  اگر  لکھے تو بھلا لکھے کیا؟


سنتے ہیں ایک پارس نام کا پتھر ہوتا ہے۔ جس سے اگر کوئی شے مس ہو جائے تو سونا ہو جاتی ہے۔اِن  کا تعلق بھی اسی قبیل سے تھا۔


پڑھا ہے کہ ہُمانامی ایک تخیلاتی پرندہ ہے جو اگر کسی کے کندھے پر بیٹھ جائے تو اُسے بادشاہ بنا دیتاہے۔ یہ بھی اُسی پرندے کے تعلق دار تھے۔

 مزید دِل چسپ  بلاگ)یہ ہم نہیں، لوگ کہتے ہیں):

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

سعید صاحب اور شاعری لازم و ملزوم ہیں۔ عباس تابش ؔ نے صرف اپنے لیے ہی تو نہیں کہا ہو گانا کہ


 سکوت ِ دہر رَگوں تک اُتر گیا ہوتا 

 اگر میں شعر نہ کہتا تو مَر گیا ہوتا 


اِنہوں نے 37 سال سکول میں گزار دئیے۔ سوچیں تو ساڑھے تین دہائیاں۔ سوچیں تو پاکستان میں جتنا عرصہ جمہوریت رہی ، اس سے بھی دو چار سال زیادہ۔ بندہ ایک ہی ذمہ داری اِتنے احسن طور سے بھلا اِتنا لمبا عرصہ کیسے نبھا سکتا ہے؟


شاید ایسے کہ کسی دُھن میں گزری ہوئی زندگی چند ثانیے کی ہی معلوم ہوتی ہے۔ جبھی تو اصحاب ِ کہف بھی کئی سو سال سونے کے بعد مصر تھے کہ محض چند گھڑیاں ہی سوئے ہیں۔ 


 یہ جو میں بھاگتا ہوں وقت سے آگے آگے 

 میری وحشت کے مطابق یہ روانی کم ہے 


ان میں دھن سمائی تو چند دِنوں میں سٹاف روم بنا ڈالا۔ وہ کام جو حکومتیں کرتے ہوئے دہائیاں اور سال لگا دیتی ہیں۔ اِنہوں نے "اپنی مدد آپ" کے تحت چند روز میں ہی کر ڈالا۔ جانے کیوں مجھے عامر سہیل کی  چار مصرعوں پر مشتمل نظم "نشانی "یاد آگئی ہے ۔ کہتے ہیں:


 نشانی ہے بیٹھک 

 مری پسلیوں سے پُرانی ہے بیٹھک 

 یہاں باپ کی چارپائی پڑی تھی 

 یہاں شاعری ہاتھ باندھے کھڑی تھی 


یہ جارہے ہیں مگر ان کی نشانی باقی ہے۔ چاہیں تو یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ:


 یہ زلزلوں میں تسلسل ہے بے گھری سے مری 

 زمیں کا سارا توازن مرے مکاں سے تھا 


بحثیت ِ قوم ہم میں جو کنفیوژن ہے۔ اُس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قائدِ اعظم کو دیکھ کر لوگ گھڑیاں ٹھیک کر لیتے تھے اور اقبال ہمیشہ دَیر سے آتاہے۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ اگر قائدِ اعظم کہیں وقت سے پانچ منٹ پہلے پہنچ جاتے تو لوگوں کی تو گھڑیا ں خراب ہو جاتیں۔ مگر سعید صاحب اِس معاملے میں الگ ہی واقع ہوئے تھے۔ گھنٹوں پہلے سکول پہنچ جاتے اور گھنٹوں بعد بھی موجود رہتے۔ بلکہ اِسی پر کیاموقوف، یہ تو اِتوار کو بھی سکول آ جایا کرتے تھے۔مگر پلوں کے نیچے پانی ہمیشہ بہتا ہی رہتا ہے۔ اور پھر وقت صرف گھڑی تک ہی محدود کہاں رہتاہے:


 جینے مرنے کے علاوہ بھی یہاں 

 ایک صورت درمیانی اَور ہے 


 تم اسے اچھے دِنوں میں دیکھنا 

 وقت کی اپنی روانی اور ہے 


میرے چند فاضل دوستوں کو ان کی پی آرشپ  پر تحفظات تھے۔ حالانکہ اِس کام کے لیے اداروں کو آئی ایس پی آر نامی ڈیپارٹمنٹ بنانا پڑتا ہے ۔اس کے لیے خلوصِ دل ، میٹھی زبان اور اخلاق ِ حسنہ نامی مقناطیس درکار ہوتا ہے۔ انہیں آگاہ ہونا چاہیے کہ 


 بس دیکھ کر ہی اُس کو پرندے اُتر پڑے 

 اُس کو تو آؤ آؤ بھی کہنا نہیں پڑا 


میرا ماننا ہے کہ سخاوت ولائیت کے درجوں میں سے ایک درجہ ہے۔ کتنے ہی ایسے واقعات کا میں شاہد ہوں کہ اِنہوں نے  بچوں کی، اُن کے والدین کی مالی اِمداد کی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اِس ضمن میں میرے اُستاد مجیب الرحمٰن مرحوم کے بعد یہ دوسرے شخص ہیں۔ جن کے پیسوں پر ابھی بھی کئی لوگ ہائی سکولوں اور کالجوں تک میں پڑھ رہے ہیں۔


فراقؔ گورکھپوری نے یقیناً ہمارے ہی لیے  کہا تھا کہ 


 آنے والی نسلیں تم پہ فخر کریں گی ہم عصرو 

 جب بھی اُن کو دھیان آئے گا تم نے سعید کو دیکھا ہے 


اب دیکھیں کہ یہ جا رہے ہیں اور ڈیپارٹمنٹ ہے کہ پنشن ہی ختم کرنا چاہ رہا ہے۔ کبھی کبھی موہوم سی اُمید جاگتی ہے کہ اِن جیسا اختتام سب کو نصیب ہو مگر محکمہ ِ تعلیم کا کچھ بھروسہ نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اِسے دوسرا سانس بھی اب مشکل ہی آئے۔


آخر میں اِن کے لیے کچھ مشورے ہیں:

ایک تو یہ کہ اب پڑھنے لکھنے کی طرف توجہ دیں۔ یقین مانیں کہ یہ جیسا بولتے ہیں۔ اُس سے کئی درجے اچھا لکھتے ہیں۔

دوم یہ کہ 


 سمجھ میں کوئی مثال آئے تو آنے دینا 

 کہیں سے اُس کا خیال آئے تو آنے دینا 


 بچھڑنے والے تیرے لیے اک مشورہ ہے 

 اگر ہمارا خیال آئے تو آنے دینا 


 آئیے! سعید صاحب کو الوداع کہتے ہیں اور سید مبارک شاہ کو یاد کرتے ہیں:


 یہ آٹھ پہروں کا شمار کیا ہے؟ 

  یہ سات رَنگوں کے اِس نگر میں  

  جہات چھے ہیں  

  حواس خمسہ  

  زمان ثلاثہ  

  جہان دو ہیں  

  خدا ہے واحد  

  خدائے واحد  

  یہ تیری بے اَنت وسعتوں کے  

  سفر پہ نکلے ہوئے مسافر  

  عجیب گنتی میں کھو گئے ہی  

  کہ تھک کے راہوں میں سو گئے ہیں 

شرطیہ کٹھے مٹھے بلاگ:

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے