کہیں
سُنا تھا،کسی نے کبھی کہا تھا کہ جھوٹ کو
اتنا زیادہ بولو کہ وہ سچ لگنے لگے۔لیکن ہمارے ہاں یہ مسئلہ نہیں ہے ۔ہمارے ہاں خامی یہ ہے کہ لوگ لایعنی بات کو ہی اس قدر
بولتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اُس سے بڑا کوئی مسئلہ ہی
نہ ہو۔ہم لوگ اپنے ذہن کی پیداوار کو وسوسوں اور شکوک کی کھاد ڈال کر پروان چڑھاتے ہیں ۔اُسے
ایشو اور مسئلہ بنالیتے ہیں ۔ اور پھر
پہروں ، دِنوں اور مہینوں بیٹھ کر اُس کا پرچار کرتے ہیں ۔
اُس
پہ تذکرے کے دوران کئی عوامل کو کھینچ کر
بیچ ڈال لیتے ہیں ۔عوامی جہالت، حکومتی
عدم توجہی اور اس نوع کے بے شمار رونے رونے لگتے ہیں ۔بزعمِ خود ، ارسطو اور سقراط بن بن کر اُس
مسئلے کے حل تجویز کرتے ہیں ۔ اہلِ فکربھی
سر جوڑ کر غوروفکر میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔اور
ایسا کرنے سے ہماری دانشوری کی چھاپ جمنے لگنے لگتی ہیں ۔لوگ عش عش کر اُٹھتے ہیں ۔
چند دِن بعد جب اِس بات کی گرد بیٹھنے لگتی ہیں تو ہم کوئی اور مدعا کھڑا لیتے ہیں اور یوں چل سو چل۔
ملاحظہ ہوں
شرطیہ مٹھے بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
چند
دِن پہلے ایک میڈیا گروپ کے اینکر پہ حملہ ہوا تو اُس نے فوج اور ملک کے حساس
اداروں پہ براہِ راست الزام تراشی کی۔فوج
کے نشریاتی ادارے کے ترجمان نے الزامات کی تردید کی اور حکومت سے عدالتی کمیشن
بنانے کا کہا۔معاملہ چونکہ حساس تھا اس لیے حکومت نے ایک کمیشن تشکیل دے دیا جو
تادمِ تحریر کام کررہاہے ۔لیکن بات جسے یہاں پہ ختم ہوجانا چاہیے تھا ،ختم نہ ہوئی بلکہ یہاں
سے شروع ہوئی۔ ہمارے میڈیا کو ایک نیا
”ہاٹ“موضوع مل گیا۔کئی ایک سیاسی جماعتیں بھی اسے کیش کرانے کے لیے میدان میں اُتر پڑیں ۔
آج اس واقعے کو گزرے بیسیو ں دِن ہو چکے لیکن آج کے اخباروں اور ٹی وی چینلز پہ بھی اس تمام واقعے کی گونج
سنائی دے رہی ہے۔بار بار وہی دُہرایا جارہا ہے کہ
"جنگ
اور جیو گروپ کی طرف سے حساس ادارے کے سربراہ کو مجرم بنا کر پیش کیا گیا ۔میڈیا
گروپ ملک دشمن ہے ، غدار ہے۔اس پہ مستقل پابندی عائد ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔"
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
تمام میڈیا نہ جانے یہ بات کیوں بھول بیٹھاہے کہ اِس معاملے پہ عدالتی کمیشن کام
شروع کر چکا ہے اور جلد یا بدیر اُس کی رپورٹ اور سفارشات بھی سامنے آجائیں گی لیکن نہیں ، میڈیا ہے کہ اس معاملے کو ہی اُچھالے جار ہاہے
۔گڑھے مردے اُکھاڑرہا ہے ۔بال بال کی کھال اُتاررہا ہے
۔
مانا
کہ جیو اور جنگ گروپ کی طرف سے کی جانے والی الزام تراشی ایک بہت بے ہودہ بات تھی
اور اس سے دانستہ یا نا دانستہ طور پر افواجِ پاکستان اور حساس اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی لیکن
اس سارے معاملے پہ کمیشن بیٹھنے کے باوجود ابھی تک اس واقعے کی جگالی کرنے والے
صرف ملکی مفاد نہیں بلکہ اپنامفاد بھی
دیکھ رہے ہیں ۔
آج
ہی ملک کے ایک اخبار میں آدھے صفحے کا
اشتہار اپنے طور پہ شائع کیا گیا جس میں ”آزادی ءِ صحافت“ کے دس بارہ غلط سلط نکات پیش کیے
گئے اور کم و بیش ہر نکتے کے آخر میں اِس
بات پہ شکر ادا کیا گیا کہ اُن کا گروپ ایسے خیالات سے مبرا واقع ہوا ہے۔اب تک کی
تمام” لکیر پٹائی“ کے بعد ایک بات واضح ہوئی کہ کچھ تو یہ تمام بات اس لیے بھی
اچھالے ہی جارہے ہیں کہ ملزم میڈیا گروپ
اُن کاکاروباری حریف ہے۔کچھ فوج اور حساس اداروں کی”گڈ بک “ میں آنا چاہتے ہیں ۔ کچھ شاید پرانی دشمنی نکال رہے
ہیں اور باقی سارے ریٹنگ کے چکر میں ہیں ۔
ملاحظہ ہوں
شرطیہ مٹھے بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
ملزم
میڈیا گروپ کو تو چھوڑئیے کہ یہ تمام کارستانی اُس کی اپنی پیدا کردہ تھی ۔ سو،
اسے تو یہ ”حق “ تھا کہ وہ چند دِن اُسے خوب اُچھال کر ریٹنگ حاصل کرتا ۔لیکن اس
کو بند کرنے کی باتیں کرنے والوں سے کون پوچھے کہ کیا اِس ملک کے تمام حقیقی
مسائل حل ہو گئے ہیں جو وہ سب کچھ چھوڑ کر
ایک ہی موضوع کی ہفتوں سے گردان کیے جارہے
ہیں ؟ کیا تمام لوگوں کو روٹی ، کپڑا،
مکان ،تعلیم، صاف پانی ملنے لگا ہے ؟ کیا بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ہمیشہ ہمیشہ
کے لیے ختم ہو گئی ہے؟ کیا خراب سڑکوں اور
قوانین کے عدم نفاذ کی وجہ سے دِن دیہاڑے حادثات ہونا ختم ہوگئے ہیں ؟؟؟ اور اگر نہیں
،تو کوئی اُن سے پوچھے کہ وہ اُن حقیقی
ایشوز پہ بحث کیوں نہیں کر رہے ہیں ؟ وہ
حکومت اور دیگر اداروں کو آپس میں لڑانے کے بجائے اُن کی توجہ اِن تعمیری اور
ترقیاتی کاموں کو طرف مبذول کیوں نہیں کرا رہے ؟؟؟ کیا وہ ایسا کر نہیں سکتے یا کرنا ہی نہیں چاہتے ؟؟؟ کیا ریٹنگ کا حصول ہی سب کچھ اور
سچی”آزادی صحافت “ ہے؟؟؟
اس
تمام تماشے کے دوران ایک مجھے کپل شرما کی ایک بات بڑی شدت سے یاد آرہی ہے۔کپل
شرما ہندوستان کے ایک نوجوان اور معروف کامیڈین ہیں ۔ ٹی وی کے مشہورمزاحیہ
پروگرام "لافٹر چیلنج" اور "کامیڈی سرکس" کے کئی سیزن جیت چکے
ہیں اور ان دِنوں ایک ٹی وی کے لیے "کامیڈی نائٹس وِد
کپل" کے نام سے ایک کامیڈی شو کی میزبانی کر رہے ہیں ۔شو میں کامیڈی تخلیق کرنے کے لیے ایک گھر کا ماحول
بنایا گیا ہے۔ جس میں گھر کے افراد (دادی،
بیوی، بُوا یعنی پھوپھی اورنوکر وغیرہ) ایک دوسرے پہ جملے کستے ہیں ۔
یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:
پروگرام
میں مزاح پیدا کرنے کے لیے کئی قسم کی
جملہ بازی کے ساتھ ساتھ ذاتیات پہ جگت بازی بھی کی جاتی ہے۔ ذاتیات کو کئی سادہ
لوگ اداکار کی بے عزتی بھی سمجھ لیتے ہیں ۔پچھلے دِنوں ایک پروگرام کے دوران ایک شائق نے کپل شرما سے
کہا کہ
"سر،
جب آپ کی دادی اور بُوا آپ کی بے عزتی کرتی ہیں تو مجھے بہت بُرا لگتاہے"
تو
اِس پہ مزاحیہ ادکارو میزبان نے بے ساختہ کہا کہ
"شائقین میں سے کوئی کچھ نہیں سمجھ رہا تھا لیکن آپ نے اسے بے عزتی کہہ کر سب
کو بتا دیا ہے "
اسی
طرح میں اب تک یہ سوچ رہا ہوں کہ جیو نے فوج کے خلاف چند گھنٹے پروپیگنڈا کرکے
بُرا کیا یا پھر دیگر تمام میڈیا اُن الزامات کو ہفتوں سے بار بار دُہرا کر بُرا کر رہا ہے؟
یہ بھی
پڑھیے:
0 تبصرے