Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

سرسری ہم جہاں سے گزرے

Sar-sari hum jaha'n se guzray, Asad Mahmood, Comics, Column, Meer Taqi Meer, Painting, Loadsheding, vacations, Taliban, Moon light, Hurricane, اسد،

آپ نے تو سن ہی رکھا ہوگا کہ کسی دانشور نے کہا تھا کہ بچوں  میں  یہی خامی ہے کہ وہ بڑے ہوجاتے ہیں  ۔بالکل اسی طرح میرا بھی یہ ماننا ہے کہ چھٹیاں  چاہے کتنی ہی طویل کیوں  نہ ہوں   ان میں  خرابی یہی ہے کہ وہ ختم ہوجاتی ہیں ۔اب یہی دیکھ لیں  کہ اس بار ہمیں  کافی طویل گرما کی چھٹیاں  ہوئیں  لیکن پھر وہی افتاد کہ ختم ہوگئیں ۔بہرحال  یہ قصہ جو ہم آپ کو سنانے جارہے ہیں   یہ چھٹیاں  ختم ہونے سے پہلے کا ہے۔

چھٹیاں  ختم ہونے میں  محض ایک ہفتہ باقی تھا اور ہمیں  اسی غم سے فرصت نہ تھی کہ ایک روزصبح سویرے بلکہ منہ اندھیرے ہی گاؤں  کے درمیان نصب بجلی کا ٹرانسفارمر کسی کوے کی 'دست درازی'کی وجہ سے 'پٹاخہ 'مار گیا اور لائٹ ایسے ہی آنے لگی۔ جیسے گاؤں  کی قدیم اور نایاب سڑک پہ بس 'گیئر 'بدل بدل کے چلتی ہے ۔ایسی لائٹ کا فائدہ تو کچھ نہ تھا کہ بجلی پہ چلنے والی کوئی بھی چیز چلائی نہ جاسکتی تھی ۔ سو  ہم نے ٹرانسفارمر کے پٹاخے کو نقارۂ خدا سمجھا اور خریداری کے لیے قریبی شہر کی طرف نکل کھڑے ہوئے ۔

شہر جاتے ہوئے راستے میں  جو ہمارا چند لمحے کو رُخ آسمان کی طرف ہوا تو کیا دیکھتے ہیں  کہ کچھ گھٹائیں  جنوب مغرب کی جانب سے پیش قدمی کررہی ہیں ۔ہم نے ماہرانہ تجزیہ کی غرض سے بادلوں  کا دوبارہ بغور جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا رُخ شمال مغرب کی طرف ہے اور ہم ان کی زد سے کافی دور یعنی نسبتاََ مشرق میں  موجود ہیں ۔سو  مطمئن ہوکر بازار پہنچے اور اطمینان سے خریداری میں  مصروف ہوگئے ۔

مقبول ترین بلاگ یہ رہے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

کچھ ہی دیر بعدجب ہم ایک سبزی کے کھوکھے پہ کھڑے بھاؤ تاؤ کررہے تھے تو شمال مغرب سے جنوب مغرب کی سمت میں  ایک سرسراتی ہوئی سی ٹھنڈی ہوا کی لہر چلی ۔ہم نے چونک کر دیکھا تو گھٹاؤں  کے وہ 'بریگیڈز 'جوشمال مغرب میں  جمع تھے۔  انہوں  نے اچانک ہی جنوب مشرق کی طرف چڑھائی کردی تھی۔ہم نے ان کی اس 'حربی چال'پہ سیخ پا ہوگئے کیونکہ انہوں  نے ہمیں  اچھاخاصا گھیر کے مارنے کا پروگرام بنا رکھا تھا اور اب توہم ان کے دام میں  تقریباََ آ بھی چکے تھے ۔

ہم نے جب محسوس کیا کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے تو فوراََسے اپنے ماہرانہ تجزیے پہ دو حرف بھیجے اور غلطی سدھارتے ہوئے فوراََ پسپائی اختیار کی ۔ مزید خریداری کا ارادہ ترک کردیا۔ خریدی ہوئی اشیاء سمیٹیں  اور واپسی کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے لیکن بادل اس معاملے میں  کافی تیز نکلے کیونکہ ہم اپنے پاؤں  پہ اور وہ ہوا پر سوار تھے ۔اور اس سے پہلے کہ ہم شہر کو الوداع کہتے ، گردآلود آندھی کا ایک کمزور مگر تیز رفتار پھریرا چل پڑا۔ہم نے دگنی رفتار سے گاؤں  کی جانب مارچ جاری رکھالیکن ابھی شہر کی تنگ و تاریک گلیوں  میں  ہی تھے کہ ہلکی بونداباندی نے بھی آن لیا۔ہماری رفتار مزید بڑھ گئی۔

بادلوں  کے نرغے میں  آجانے کے بعد ہم نے دوبارہ 'دستیاب وسائل 'دیکھے تو چند شاپنگ بیگ ہی نظر پڑے ۔ہم نے اگلی سٹریٹجی مرتب کرنے سے پہلے ایک مرتبہ پھر منہ آسمان کی سمت اُٹھایا اوریہ دیکھ کر ازحد خوش ہوئے کہ بادلوں  کی فوج تقریباََ گزر چکی ہے۔یہ معاملہ البتہ دوسرا تھا کہ بوندا باندی تواتر سے جاری تھی ۔یکایک بوندوں  کاسائز اور حجم بڑھ گیا ۔ ہم جو ابھی شہر اور گاؤں  کے تقریباََ درمیا ن میں  ایک نیم پہاڑی پگڈنڈی پر تھے اور بادلوں  کے گزر جانے کا سوچ کر خوش ہوئے جارہے تھے ،اس اچانک افتاد سے گھبرا گئے اوراس سے پہلے کہ ہم حواس باختہ ہی ہوجاتے ۔ہمیں  ایک شعر یادآگیا۔

یہ اس کی مرضی ہے  آئے نہ خاکداں  کی طرف

ہمیں  تو دیکھتے رہنا ہے آسماں  کی طرف

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

 عباس تابش کے مشورے کی روشنی میں  ہم نے ایک بار پھر رُخ آسمان کی جانب موڑا تو دیکھ کر لرز اُٹھے کہ سیاہ آبنوسی گھٹاؤں  کی ایک 'کمک'شمال مغربی سرحد پہ نمودار ہورہی ہے اور تیزی سے سارے آسمان کو اپنے تصرف میں  لے رہی ہے ۔ہم  گو کہ ہانپ رہے تھے پھر بھی رفتار میں  مناسب اضافہ کردیا۔

پگڈنڈیوں  کوہم نے تقریباََ 'جہازی رفتار'سے طے کرتے ہوئے جب ایک ندی کو عبور کیا تو اچانک کیمرے کی سی تیز فلیش لائٹ (Flash Light)نے ہمیں  پھر چونکنے پہ مجبور کردیا ۔اوراس بار آسمان پہ کیا دیکھتے ہیں  کہ نصف مغرب یا جنوب مغرب انتہائی سیاہ گھٹا  جو اپنے رنگ میں  رات کی ظلمت کو بھی مات دے رہی تھی ۔آناََ فاناََ پہلے سے موجودذرا کم سیاہ گھٹاؤ ں کا تعاقب کررہی ہے۔ایک لمحے کو ہمیں  یوں  لگا کہ جیسے وہ نئی کالی گھٹا90ء کی دہائی والے 'طالبان'ہوں ،جو افغانستان میں  اسلامی انقلاب کے بعد دیگر تمام حربی گروہوں  کو دبوچ رہے ہوں ۔

نئی آبنوسی گھٹاؤں  کے بریگیڈز کو تیز چمکتی ہوئی آسمانی بجلی کا ساتھ بھی حاصل تھا۔  جو وہ وقتاََ فوقتاََ زمین کی سدا سے اُجڑی مانگ میں  ڈال کر اُسے مکمل بھسم کرنے کے درپے تھی ۔ یا پھر شاید کسی گوہرِ گم گشتہ کی تلاش میں  سرگرداں  تھی ۔رفتہ رفتہ ہماری منزل نزدیک اور خنک ہواؤں  میں  تیزی آتی گئی ۔ہم گھر کے نزدیک پہنچے تو یوں  کہ پورے 'افغانستان 'پہ طالبان کا قبضہ تھا اور ظلمت ایسی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتاتھا۔اِدھر ہم نے گھر میں  قدم رکھا اور اُدھر دھیمی بونداباندی نے منہ زور بارش کا روپ دھار لیا اور محض دو گھنٹے میں  ہی جل تھل کرکے رکھ دیا۔

شام ڈھلنے سے ذرا قبل مغرب کی سمت میں  گھٹائیں  کم ہوئیں  تو کسی مصور کے اعلیٰ پایہ شہکار سے بھی بڑھ کر منظر تھا ۔ ایک سرسراتے ہوئے پتوں  والے پودے کی آڑ سے میں  نے دیکھا کہ سورج کو گھٹاؤں  نے گو آزاد نہیں  کیا تھا لیکن ایک طرف سے کچھ یوں  سرک گئی تھیں  کہ سورج کی روشنی کی کرنوں  سے کئی دلفریب شیڈز بن گئے تھے اور نیچے زمین پہ جس طرف روشنی تھی  وہاں  کھیتوں  میں  کھڑا پانی کسی نگینے کی صورت چمک رہا تھااور دوسری طرف جہاں  روشنی مدھم تھی ،جس طرف سے سورج گھٹاؤں  کی زد میں  تھا، وہاں  کچھ کم چمک دمک والے گوہر اور تیز خنک ہوا اس پینٹنگ کو ایک نیا زاویہ بخش رہے تھے ۔یہ قدرت کی مصوری تھی ،جوبلاشبہ کسی بھی انسانی شہ پارے کو مات دے رہی تھی۔

شرطیہ مٹھے بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

اس تیز بارش اور گرج چمک سے بجلی کی فراہمی جو دِن بھر معطل تھی ۔ اس کی معطلی طویل تر ہو گئی تھی اور رات میں  صرف دو منٹ کے لیے ہی ہم اس سے مستفید ہو پائے ۔کچھ رات ڈھلی تو مطلع صاف ہوگیا اورآسمان کے عین وسط میں  نصف حجم کا چاند دادِ حسن پانے لگا۔اب ایک نئی پینٹنگ نے جنم لیا ۔تمام رُؤئے ارض پر جیسے کسی نے سفیدی میں  ہلکی مقدار میں  سیاہی ملا کر گویا قلعی پھیر دی تھی ۔جس کے سبب درخت اور دیگر تمام موجودات فقط سیاہی مائل ہی دکھائی پڑتی تھیں لیکن یہ تمام اشیاء چاندی کے فریم میں  جڑی ہوئی معلوم ہوتی تھیں ۔

رات کے پچھلے پہر ایک شدید طوفانی ہوا کی آمد ہوئی ۔گھنٹے بھر تک کھڑکیاں  اور دروازے بجتے رہے ۔درختوں  کی شاخیں  فضا میں  اِدھر اُدھر ہاتھ چلاتی رہیں ۔تیز ہوائیں   ریل کی کان پھاڑتی سیٹی کی مانند  چنگھاڑ چنگھاڑ کر اپنے غضب کا اظہار کرتی رہیں ۔یوں  معلوم پڑتاتھاکہ یہ ہوائیں  کرۂ ارض کے تمام مکانوں  کو جڑ سے اُکھیڑ کر رکھ دیں  گی اور تمام موجودات کو حرفِ غلط کی طرح مٹادیں  گی۔لیکن ایسا کچھ نہ ہوا  یقینا مشیت ِ ایزدی ہی یوں  تھی۔البتہ صبح دم میں  نے اُٹھ کر دیکھا تو چھوٹی چھوٹی دو پہاڑیوں  کے درمیان ایک کھیت کے بند پر موجود ایک بیری کا درخت درمیان سے ٹوٹ چکا تھا۔

مزید دِل چسپ بلاگ:

نیو بِگ بینگ تھیوری

میرے ندیمؔ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے