اخلاقی
قدریں آئے دن یوں پامال ہورہی ہیں جیسے صحرا میں کبھی نہ ختم ہونے والی آندھیاں چل پڑی ہوں ۔صبح کا اخبار اُٹھایئے تو قتل ،ڈاکہ
زنی اور ہزارو ں ایسے جرائم روزانہ کی
بنیاد اور سینکڑوں کی تعداد میں منہ چڑا رہے ہوتے ہیں ۔کہیں نہ کہیں ،کچھ نہ کچھ تو غلط ہے کہ یہ اُفتاد آن ٹوٹی ہے ۔وگرنہ
وہ دَور گزرے زیادہ عرصہ تو نہیں بیتا کہ
جس کے بارے میں بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ
بے گناہوں کے قتل پہ سرخ آندھیاں اُن کی معصومیت اور بے گناہی کی دلالت کرتی تھیں
۔لیکن آج کے دَور میں ہزاروں معصوم،ظالموں
کی بساط کے مہروں کا شکارہوتے ہیں ۔روزانہ لاکھوں انسان ،”انسانیت“ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں لیکن
کوئی آندھی اُن کے حق میں گواہی دینے نہیں
آتی۔
کچھ
تو وجہ ہے کہ آندھیاں بھی انسان سے عاجز
آگئی ہیں ، انہوں نے بھی انسانی بستیوں سے منہ موڑ لیا ہے۔کہیں نہ کہیں ۔کچھ نہ کچھ تو ضرور غلط ہے۔ آئیے ، اپنے اندر
آویزاں اناءاور بے حسی کے آئینوں کی بجائے احساس اور آگہی کے آئینوں میں جھانکتے ہیں۔ شاید حیرت کے ساتھ ساتھ کچھ حقیقت بھی آشکارہو۔
آپ کے ذوقِ
نظر کی نذر:
چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ
جعفری
عرصہ
ہوا،بچوں کے ایک ماہنامہ رسالے میں ایک کہانی نظر سے گزری تھی۔ کہانی کا راقم مصّر
تھا کہ یہ ایک حقیقی واقعہ ہے۔ کہانی کے مطابق ،پاکستان کے کسی پوش علاقے میں ایک تاجر رہتاتھا۔ایک دن نمازِ عشاءکے بعد اُسے
کسی نے فون پر بتایا کہ وہ مارکیٹ ،جہاں ان کے گودام ہیں ، وہاں پہ آگ لگ گئی ہے۔فون کا تاجر پہ کوئی خاص اثر نہ
ہوا۔ اُس نے آرام و سکون سے اپنے روزمرہ معمولات نمٹائے اور اس کے بعد مارکیٹ کی
طرف روانہ ہوا۔ وہاں پہنچا تو دیگر تمام
مارکیٹ جل کر خاکستر ہوچکی تھی لیکن حیرت انگیز طور پر اُس تاجر کا گودام بالکل
محفوظ تھا۔مارکیٹ کے دوسرے تمام تاجر اس معجزے پہ حیرت زدہ رَہ گئے ۔ آفت گزیدہ
تجّار میں سے ایک نے ،جس کے ہوش وحواس کسی
حد تک بحال تھے، اُس تاجر سے دریافت کیا کہ جب وہ سب اپنی اپنی جمع پونجی کو آگ کے
حوالے ہوتے دیکھ اور اسے بچانے کی مقدور بھر کوشش کر رہے تھے تو وہ کہاں تھا؟اور پھر اتنی تاخیر بعد وہ آیا بھی تواُس کے
اعصاب اور ہوش وحواس پہ کسی بھی جذباتی پریشانی یا کسی بھی اضطراری کیفیت کا شائبہ
تک کیوں نہیں تھا؟اور یہ بھی کہ تمام تر مارکیٹ جل کر راکھ کا
ڈھیر میں تبدیل ہونے کے باوجود بھی محض
اُسی کا گودام سلامت کیونکر رہا تھا؟
یہ بھی
پڑھیے:
اُس
تاجر نے دیگر تمام ساتھی تجّار کا تجسس دیکھا تو گویا ہواکہ
"میرے
عزیزو!آپ سب کی حیرت بجا ہے ۔سب سے پہلے تو میں آپ کے اس ازحد مالی نقصان پہ افسوس کرتاہوں اور
مشکل کی اِس گھڑی میں آپ کے ہمقدم رہوں گااوررہی بات میرے گودام کے محفوظ رہنے کی تو میں
نے ہر سال کی طرح اِس دفعہ بھی پوری مقدار
میں زکوٰة تقسیم کی تھی اور مجھے میرے
اﷲپہ پورا یقین تھا کہ وہ میرے پاک مال کی حفاظت ضرور فرمائے گااور دیکھ لیں کہ ایسا ہی ہوا"
ہم
لوگ معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کازور وشور سے ذکر ضرور کرتے ہیں لیکن اپنا فرض ادا کرنے کا کوئی نہیں سوچتا۔ ہم میں سے ہر کوئی دانشور بن کر شب کی تاریکی کا تجزیہ
تو پورے طمطراق سے کرتاپھرتا ہے لیکن اپنے گریبان میں جھانک کر کوئی نہیں دیکھتا کہ اُس کے حصے کی شمع کون روشن کرے
گا؟مجھ سے بہتر یہ بات آپ لوگ جانتے ہوں گے کہ آج کل کے دَور میں زکوٰة جیسا اہم فریضہ
(جس کے انکار پہ خلیفہ اوّل نے باقاعدہ اعلانِ جنگ کر دیا تھا) اکثر لوگوں نے پسِ پشت ڈال دیا ہے ۔
ایک نظر اِدھر بھی:
ہم میں سے بہت سے اِس اڑھائی فیصدی زکوٰة کو نعوذباﷲ
غیرضروری خیال کرتے ہوئے ترک کر چکے ہیں ۔رمضان کے مہینے میں بنکو ں میں سے
تمام رقم نکلوا لی جاتی ہے تاکہ اُس پہ زکوٰة ادا نہ کرنا پڑے۔مانا کہ حکومت کی
طرف سے وضع کیاگیا نظام بعض لوگو ں کے لیے
قابلِ بھروسہ نہیں ہے لیکن یہ کوئی قرار
واقعی عذر نہیں ہے کیونکہ زکوٰة دینے یا
نہ دینے پہ ہر صاحب ِ نصاب بذات ِ خود اﷲ تعالیٰ کو جواب دہ ہے ۔
بات
صرف زکوٰة تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ عُشر
جو ایک اور اہم مالی عبادت ہے۔اِس سے لوگ اس درجہ غافل ہو چکے ہیں کہ اکثریت کو علم ہی نہیں ہے کہ عُشر کسی فریضے کا نام ہے۔اقبال اگرآج کے
دَور میں ہوتے تو انہیں علم ہوتا کہ تیمور کے گھرسے فقط حمیت ہی رخصت
نہیں ہوئی بلکہ مذہب بھی اب اس کے ہاتھ سے
سرکتا جارہا ہے۔
آپ
یقین مانیں کہ جس دن سے ہم نے خود کی
اصلاح کا بیڑا اُٹھا لیا ۔جس دن ہم نے راستے میں پڑے کانٹوں اور ان کے پھینکنے والوں پہ تنقید کرنے کی بجائے ان کانٹوں کو اپنے ہاتھوں سے اُٹھا نا شروع کر دیا۔اسی دن وہ ”تبدیلی“ آنا
شروع ہوجائے گی جس کے داعی ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے ہیں ۔لیکن ایسا سوچتا ہی کون ہے؟کاش کہ کوئی
سوچے!
مزید دِل
چسپ بلاگ:
0 تبصرے