Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

APC

nawaiwaqt columns, daily jang columns, sohail warraich urdu columns, express columns, columnist, independent urdu, asad Mahmood, dunya newspaper, javed ch latest column, sohail warraich columns, fifth column, adventure, Sunday, Asad, Columns, Urdu, Urdu Columns, Comics, Urdu Comics, Comedy, Urdu Comedy, urdu column kaar, urdu column today, urdu column daily, columnist, column ghar, column writing, funny columns, funny columns in urdu,funny column ideas, funny column names, funny column titles, funny column writers, funny column examples, apc, apc college, apc stands for, dog, cat, buffalo, horse, donkey, camel, parrot, crow, dove, imagery, Darwin, Darwin’s theory, lamb,  goat, parrot, pigeon, ahmed Nadeem qasmi, talking to animals, olive, republican party, NGO, humor, Fun, APC, اے پی سی، مزاح، کالم، فیچر، بلاگ،

چھٹی کا دن تھا۔میں  اپنے گھر میں ایک دوست کے ساتھ محوِ گفتگو تھا۔میرا دوست مسلسل مجھے زِچ کرنے پہ تُلا ہواتھاکہ وہ بچپن میں  بہت بہادر تھا اور کالج کی دیوار کے باہر لگے سفیدے کے درختوں  کی شاخوں  سے لپٹ کر برسرِ عام جھولا جُھولتا تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ میں  ازحد ڈرپوک واقع ہوا تھااور ایسی کسی حرکت کے خیال سے ہی میری جان جاتی تھی۔ کافی دیر چپ چاپ رہنے اوردل میں  پیچ و تاب ”کھانے“ سے میراحوصلہ بڑھا  تو میں  نے جوابی حملہ کیا کہ اگر درختوں سے لٹک کر جھولا جُھولنے کو تم بہادری سے تعبیر کرتے ہو تو مجھے اپنی بزدلی پہ فخر ہے کیونکہ بندروں  کی طرح شاخوں  پہ پینگیں  جُھولنے سے ڈارون کانظریہءِارتقاءسچا دکھائی دینے لگتا ہے اور میں  مسلمان ہونے کے ناطے ایسی کسی ”صیہونی سازش“ کا حصہ نہیں  بننا چاہتا تھا۔میرے تابڑ توڑ حملے نے میرے دوست کے دانت کسی حد تک کھٹے کر دیئے اور ابھی ہم ڈارون کی تھیوری کا از سرِ نو جائزہ لے ہی رہے تھے کہ دروزے پہ دستک ہوئی۔

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

میں  نے دروازہ کھولا تو باہر کوئی انسان نما مخلوق دکھائی نہ دی۔میں  نے اِدھر اُدھر جھانکا کہ مبادا کوئی شریر بچہ ہو لیکن چند جانوروں  کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔میں  پلٹا ہی چاہتا تھا کہ غراہٹ سنائی دی :

”ارے یہی تو ہے وہ“

 میں  نے غور کیا تو ایک کتا ،گدھے سے مخاطب تھا اور تھوتھنی سے میری سمت میں  اشارہ بھی کیے جارہا تھا۔پھر میں  نے دیکھا کہ گدھا کہہ رہا تھا :

” ہاں ،ہے تو یہی لیکن یہ واپس کیوں  جارہاہے؟“

اس کا جواب آسمان کی طرف سے موصول ہوا:

”شاید اندر پردہ کرانے جارہاہو“

 مجھے لگا کہ واقعی افلاک سے نالوں کا جواب آنے لگا ہے لیکن اوپر دیکھاتو ہمسائیوں  کے گھر کی فصیل سے ذرا نیچے ایک اونٹ کھڑا نظر آیا۔معاملہ کافی دلچسپ معلوم ہو رہا تھا۔سو،میں  نے اب کی بار براہِ راست باہر ایک قطار میں کھڑے کوئی درجن بھر جانوروں  کو مخاطب کیا:

”کیا ڈور بیل آپ نے بجائی ہے؟“

”اور نہیں  تو کیا آپ کے فرشتوں  نے بجائی ہے؟“

میں  نے چونک کر دائیں  جانب دیکھا تو ایک میمنا کھلکھلا رہا تھا۔

 ”آپ سب یہاں  کسی دھرنے میں شرکت کے لیے آئے ہیں ؟“

میں  نے ان کی تعداد پر طنز کیا۔

 ”بھائی !ہم ادب آداب والے جانور ہیں  اور مل بیٹھ کر آپ سے مختلف موضوعات پہ بات کرنا چاہتے ہیں ۔کیا ہم اندر آسکتے ہیں  یا یہیں  گلی میں  ہی کھڑے رہیں  گے؟“

یہ گدھے کا کہنا تھا۔

ادبی وی لاگز  یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

مجھے اُس کے بھائی کہنے پہ بے حد غصہ آیالیکن چپ رہا کیونکہ وہ تعداد میں  زیادہ تھے اور تھے بھی سارے ڈنگر۔اب کی بار ایک بکرے نے صف میں  سے منہ نکالا اور گویا ہوا:

”بھائی جان،آپ گھر میں  پردہ کرائیں  اور ہمیں  اندر بلائیں “

”لیکن گھر میں  تو کوئی نظر نہیں  آرہا“

یہ آواز چھت کی منڈیر سے آئی تھی ۔میں  نے دیکھاتو وہاں  ایک عدد فاختہ ،کوا ،طوطا اور کبوتر میرے گھر میں  ”جھاتیاں “ مار رہے تھے اور یہ ہرزہ سرائی غالباََ فاختہ نے کی تھی۔میں  نے ایک نظر سب کو دیکھا اور پھر جی کڑا کرکے دروازے کے دونوں  پَٹ کھول دیئے۔ دروازے سے اندر داخل ہونے والوں  میں  گدھا، کتا،بلی ،بکرا ،میمنا اور بھینس شامل تھے ۔البتہ اونٹ دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہواجبکہ کبوتر ،کوے،طوطےاور فاختہ نے منڈیر سے ہی اندر کی راہ لی۔میں  اندر دوست کو اس صورتحال سے مطلع کرنے کے لیے کمرے میں  جانے ہی لگا تھا کہ اچانک ایک گھوڑا سرپَٹ دوڑتا ہوا اندر داخل ہوا۔وہ گدھے کا بڑا بھائی لگ رہا تھا۔میں  نے کمرے کی جانب قدم بڑھائے تو وہ سب میرے پیچھے ہولیے،گویا وہ سب بھی ڈرائنگ روم میں  تشریف رکھنے کے ارادے سے آرہے تھے۔گبھراہٹ کے عالم میں  مجھے وہ حکایت یاد آئی جس میں  پہلے بدو خیمے میں  تھا اور اونٹ باہر جبکہ اختتام تک اونٹ خیمے کے اندر تھا اور بدو باہر۔حکایت کے اونٹ نے مجھے مہمان اونٹ کی یاد دلادی۔میں  بوکھلا کر پلٹا تو گدھے سے ”منہ ماری“ کرتے کرتے بچا:

”آپ یہاں  باہر ہی تشریف رکھیں ،میں  اپنے دوست کو بتا کر آرہا ہوں

یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

میں  دوست کو بتا کر ہاتھوں  میں  دو کرسیاں  اُٹھا کر ”مہمانوں “کے خیر مقدم کے لیے بڑھا تو کیا دیکھتاہوں  کہ وہ سب لان کے گھاس پہ ہی ڈیرے ڈال چکے تھے۔میں  نے کرسیاں  ان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا:

”آپ نیچے کیوں  بیٹھ گئے ،اوپر کرسیوں  پر تشریف رکھیں “

جواباََ بلی نے پنجہ دکھا کر کہا:

”یہ سب تم انسانوں  کے چونچلے ہیں ،ہم ایسے ہی ٹھیک ہیں ،تم بیٹھو“

میں  ہڑ بڑا کر کرسی پہ بیٹھ گیا اور بے دلی کے باوجود منہ پر منافقانہ مسکراہٹ لاتے ہوئے پوچھا:

”فرمائیں  ،کیا لیں  گے آپ؟“

”ہم تمہاری کلاس لیں  گے“

 کوے کے اس دندان شکن جواب پہ میری گھراہٹ دو چند ہو گئی۔

”کک۔کیا۔کیا مطلب؟“

میں  نے ہکلاتے ہوئے کہا۔

 ”مطلب یہ کہ ہم انسانوں  کے خلاف شکایت لے کر اور خاص کر تم جیسے نام نہاد دانشوروں  اور ادیبوں  سے خصوصی دو دو ہاتھ کرنے آئے ہیں “

 یہ گھوڑا تھا۔اس کے لہجے سے مجھے یقین ہوگیاکہ وہ کسی جنم میں  سیاست دان رہ چکا ہے ۔

”مطلب کیا ہے تمہارا؟تم کہنا کیا چاہتے ہو؟“

 میں  انجام سے بے خبر ہوکر چلایا ۔

مقبول ترین بلاگ ملاحظہ فرمائیں:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

”بھئی ،اِس قدر چیخنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ہم امن کی علامت فاختہ کو اِسی وجہ سے ساتھ لائے ہیں  تاکہ کوئی بدمزگی نہ ہو“

یہ رائے درویش کبوتر کی طرف سے تھی۔وہ غالباََ میری دھاڑ سے کچھ زیادہ ہی ڈر گیا تھا۔میں  نے فاختہ کی طرف دیکھا:

 ”اَمن کی علامت؟تم کون سے اَمن کی بات کرتے ہو؟اور فاختہ کی اَمن پسندی پہ تم نے احمد ندیم قاسمی ؒ کا وہ شعر نہیں  سنا کہ

اَمن کا خدا حافظ ،جب کہ نخل زیتوں  کا

شاخ شاخ بٹتا ہے بھوکی فاختاں  میں

فاختہ میری اِس بات پہ تِلملا کے بے طرح پھڑپھڑائی:

”اوّل تو یہ کہ جب بھوک لگی تو کوئی مذہب اورکوئی نظریہ نہیں  سوجھتا ،ایسے میں  یہ چیزیں  ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں ۔دوم یہ کہ ،مجھے یہ نام بلکہ لقب دینے والے تم انسان ہی ہو اور سوم یہ کہ ،اب تک یہ شعر میری نظروں  سے نہیں  گزرا ۔سو، جب تک میں  اسے پڑھ نہ لوں ،مجھے اَمن کی علامت ہی سمجھا ،پڑھا ،لکھا اور پکارا جائے“

اِس بات پہ طوطا جھوم جھوم کر ”فاختہ بی۔زندہ باد“ کے نعرے لگانے لگا۔ میں  نے کھسیانہ ہو کر موضوع ہی بدل دیا:

”آپ سب اپنے آنے کامقصد بیان کریں “

 کتا گویا ہوا:

”مقصد تو سیدھا اورصاف ہے کہ تم جانور ،معاف کر نا میرا مطلب ہے کہ تم انسانوں  نے اپنے محاوروں  میں  ہمارا بے دریغ استعمال اوراستحصال کیا ہے “

”مثلاََ؟؟؟“

میں  نے پوچھا۔

نئی ادبی صنف موبائل لٹریچر سیریزملاحظہ فرمائیں:

موبائل لٹریچر

موبائل لٹریچر-2

موبائل لٹریچر-3

موبائل لٹریچر-4

”مثلاََ ……؟“

کوا فوراََ گنگنایا لیکن پھر منہ پھیر کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔غالباََ اس نے ہوم ورک پورا نہیں  کیا تھا۔

مثلاََگدھے سے سر سے سینگوں کی طرح غائب ہونا۔ جبکہ میرے تو سینگ ہوتے ہی نہیں “

گدھا بولا۔

”گدھے ہونا اِسی لیے نہیں  ہوتے“

خلافِ توقع گدھے نے پلک جھپکنے میں  ہی میری بات سمجھ لی اور آنکھیں  نکالنے لگا۔تب مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ وہ کوئی عام گدھا نہیں  بلکہ امریکہ کہ ری پبلکن پارٹی کا گدھا تھا۔

”مثلاََ میری والدہ محترمہ پر جو کہا ہے کہ بکرے کی ماں  کب تک خیر منائے گی“

یہ بکرا تھا جو خاصہ جذباتی لگ رہا تھا،میں  نے اس کی بات کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔

”جیسے؛ جس کی لاٹھی ،اُس کی بھینس“

یہ بھینس محترمہ تھیں ۔ان کے بارے میں  معلوم ہوا کہ وہ ایک NGOچلاتی ہیں  اور ”آزادیءِنسواں  “کی بہت بڑی علمبردار ہیں ۔

 ابھی بحث جاری ہی تھی کہ میرا دوست بھی لان میں  آنکلا ۔جانوروں  کو یوں  ”بِٹّر بِٹّر“ باتیں کرتا دیکھ کر وہ حیران و پریشان سا کرسی پر ڈھیر ہوگیا۔

جانوروں  نے دلائل جاری رکھے ۔

”دھوبی کا کتا ،گھر کا نہ گھاٹ کا“

کتا بھونکا۔

”بوڑھی گھوڑی ،لال لگام“

گھوڑا ہنہنایا۔

 ”اونٹ کے منہ میں  زیرہ“

اونٹ کے کروٹ بدلی جس کے نتیجے میں  میمنا اُس کے نیچے آتے آتے بچا۔

یہ بھی پڑھیے:

میرے ندیمؔ

چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق

”کوا چلا ہنس کی چال ،اپنی بھول گیا“

 کوا اچانک سبق یاد آجانے والے طالبعلم کی طرح خوش ہوا۔

”بلی کو چھیچھڑوں  کے خواب،بلی کے بھاگوں  چھینکا ٹوٹا،میری بلی اور مجھی کو میاؤں “

بلی محترمہ کچھ زیادہ ہی غصے میں  تھیں  تبھی جب بولنے پہ آئیں  تو باقی سب کو چپ کرا دیا۔

آخر آپ سب چاہتے کیا ہیں ؟“

میرا پیمانہءِصبر چھلک چکا تھا۔

”ہم یہ چاہتے ہیں  کہ تمام انسان شریف جانوروں  کی طرح ہمارا مطالبہ مانیں ۔ان تمام ہتک آمیز محاوروں  کو زبان کی صفائی کے نام پر نکال باہر کریں اور آئندہ ایسا کوئی بھی محاورا بنانے سے قبل ہم سے تحریری اجازت لیں “

یہ میمنا تھا،مجھے لگا کہ وہ کوئی ترقی پسند ادیب بھی تھا۔بہرحال ، وہ جو بھی تھا۔میرا پارہ کافی ہائی ہو چکا تھا۔اکیلے میں  بھلے میں  مجھے جانور کہہ لیتا لیکن اپنے دوست کی موجودگی میں  یہ سب کچھ ناقابلِ برداشت تھا۔ سو، میں نے ادب آداب کا چولہ اُتار کر ایک طرف رکھ دیا اورایک دفعہ پھر پوری قوت سے چلایا:

”آپ سب کی بکواس میں  نے سُن لی ہے ۔ اب میری  سنو!“

 میرا اتنا کہنا تھا کہ اونٹ ،کوا ،گدھا ،میمنا اور فاختہ قہقہہ مار کے ہنسے۔ نجانے کیوں ؟

بہر حال میں  نے بات جاری رکھی:

 ”آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہاں  قریب ہی ایک تعلیمی ادارہ  ہے جس کے سربراہان کا یہ دعویٰ ہے وہ گدھوں  کو بھی انسان بناڈالتے ہیں اور تم سب کی اس گستاخی پہ میں  پولیس کو بھی مطلع کر سکتاہوں  ۔ وہاں  تو یہ حال ہے کہ پہلی چھترول کے بعد ہی تم سب نے چیخ چیخ کر اقرار کرنا ہے کہ تم جانور نہیں  بلکہ جدی پشتی انسان ہو“

میری بات سنتے ہی سب سے پہلے گدھا ”نہیں ۔ں ں ں “کہہ کر بھاگا ۔ پھر یکے بعد دیگرے تمام ہی جانوروں  نے اُس کی پیروی کی۔ چند لمحے کے لیے ایک ”مِنی تھیٹر“ کا سا ماحول بن گیا۔

میں  نے پیچھے سے انہیں  پکار کر کہا:

”انسانوں  کو باربار جانور کہنے والوں میں  خود کو بھی انسان کہلوانے کا حوصلہ ہونا چاہیے“

میں  طعنہ مار کر پلٹا تو میرا دوست کرسی پہ اوندھے منہ پڑا تھا۔باربار کانوں  کو ہاتھ لگا تھا اور بڑبڑاتا تھاکہ

”جانور بولنے لگے ہیں ۔یہ سب قیامت کی نشانیاں  ہیں ۔قیامت کی!

بلاگ کے اہم روابط :

رابطہ

آپ بھی لکھیں

ہمارا تعارف

پرائیویسی پالیسی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے