پروفیسر
ہمارا دُور کا دوست ہے ۔دور کاایسے کہ ہمارے مزاج میں کچھ بھی مشترک نہیں لیکن پھر بھی ہم ایک دوست کو دوست کہتے ہیں ۔ہمارے
آدھے کالم اس کی وجہ سے تخلیق پاتے ہیں ۔
بقیہ آدھوں میں پنچ لائنز اِسی کے نام ہوتی ہیں
۔ تیزی اور طراری اس پر بس ہے ۔کئی دفعہ ایسا ہوا کہ حرکت پروفیسر نے کی
اور مار ہمیں پڑی۔اور جب غلطی ہماری ہوئی
تو بھی ہمیں ہی پڑی۔پروفیسر اسے 'قسمت کا
کھیل'کہتا ہے جبکہ میں اسے 'دو نمبری
'خیال کرتاہوں ۔ لیکن آدمی ذہین ہے ایک
مقامی کالج میں پڑھاتا ہے ۔اس کی شخصیت
بچوں کے ساتھ رہ رہ کے کھلنڈری ہو گئی ہے ۔مختلف
حالات میں اس کے فی البدیہہ جملے سننے سے
تعلق رکھتے ہیں ۔
ہمیں پروفیسر کی ایک کلاس میں بطور آبزرور بیٹھنے کا بھی اتفاق ہوا۔پروفیسر
کلاس سے کہہ رہا تھا :
''دیکھو
بیٹا !آپ سے جس بھی زبان میں سوال کیا
جائے ،اُسی زبان میں جواب دو''
''سر
!اگر کوئی انگلش میں سوال کرے ؟''
ایک
طالبہ نے پوچھا۔
''تواسے
انگلش میں جواب دو''
''سر!اگر
کوئی پنجابی میں سوال کرے؟''
''تو
اُسے پنجابی میں جواب دو''
یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:
''سر!اگر
کوئی پشتو میں سوال کرے ؟''
''تو اُسے پشتو میں جواب دو''
پروفیسر
پرجوش ہوتا گیا۔
''اور سر اگر مجھے پشتو نہ آتی ہو؟''
کسی
نے ایک جائز نکتہ اُٹھایا۔
''تو
اسے صاف جواب دے دو''
پروفیسر
بغیر رُکے بولا۔
ایک
دِن ہم کالج کینٹین پہ بیٹھے چائے سموسے اُڑا رہے تھے کہ میں نے یونہی بات اُڑائی کہ
''پروفیسرسنا ہے کہ بڑے بوڑھے لائٹ جانے پہ بھی
اناللہ پڑھا کرتے تھے۔کیا واقعی؟؟؟''
''ہاں ہاں بالکل''
اس
نے تائید میں زور سے سر ہلایا۔
''ایسا کیوں کرتے تھے وہ
؟؟؟''
میں
نے اسے چھیڑنا چاہا۔
''شاید وہ اس بات کو واپڈا کی وفات پر محمول کرتے ہوں ''
وہ
ترنت بولا اور حاضرین کو لاجواب کردیا۔
ایک
دِن کوئی دوسرا لیکچرر اس سے صلاح لے رہاتھا کہ
''یار!ہر
دودِن بعد میرے موبائل پر میسج آجاتا ہے کہ کل صبح 9بجے سے سہ پہر 1بجے تک لائٹ
بند رہے گی۔ ایسی حرکتیں آخرکون کر
رہاہے؟''
پروفیسر
نے دو ثانئے سوچا اور پھر پورے اعتماد سے بولا :
''یہ
'روشنی' والے ہیں جو ملک میں اندھیرا پھیلانے میں مصروف ہیں ''
(یہ
میسجز روشنی نامی اکاؤنٹ سے بھیجے جاتے تھے)
مقبول ترین
بلاگ یہ رہے:
پروفیسر
کے ساتھ سفر کرنے کا بھی اپنا مزہ ہے ۔ میرے ساتھ ایک دفعہ سڑک پر چہل قدمی کر رہا
تھا۔ یہ ایک چھوٹے سے قصبے کا بازار تھا۔پروفیسر ہورڈنگز بل بورڈز اور دکانوں کے نام دیکھتا ہوا اچانک رُک گیا ۔ میرا ہاتھ
پکڑا اور جلدی سے ''چاچا اینڈ سنز''نامی ٹیلرنگ شاپ میں گھس گیا۔
''یہ
دُکان کیا آپ کی ہے ؟''
وہ
ایک بزرگ صورت ٹیلر سے مخاطب ہوا۔
''جی ہاں ''
''تو پھر فوراََ اس کا نام 'چاچااینڈ
کزنز'کردیجئے، 'چاچااینڈ سنز 'درست نہیں ''
پروفیسر
نے تیزی سے کہا اور فریق مخالف کے کسی بھی ردعمل کا انتظارکیے بنا ہی مجھے دُکان
سے باہر کھینچ لایا۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ
جعفری
چند قدم دُور غلہ منڈی سے گزرہوا تو ایک کمیشن
شاپ میں گھس گیااور مالک سے کہنے لگا:
''آپ
کی دُکان کا نام 'مرید کمیشن شاپ'کچھ جچتا نہیں اِسے 'مزید کمیشن شاپ 'کردیجئے''
پروفیسر
آج کے دَور میں بھی دوستوں میں مزاح بانٹتا پھرتا ہے۔ کئی دفعہ اس سے کہا ہے کہ
لکھا بھی کرو لیکن اس کا کہنا ہے کہ میری بولنے کی ٹائمنگ لکھنے سے زیادہ بہتر ہے۔پروفیسر
غیر شادی شدہ ہے ۔کئی بار جب دوست شادی پر اصرار کرتے ہیں تو کہتا ہے کہ
''
میں نے بھی شادی کرلی تو تم مظلوموں کو ہنسائے گاکون؟''
سب اس بات کو ہنسی میں اڑا دیتے ہیں کیونکہ یہی سچ ہے۔
یہ بھی
پڑھیے:
0 تبصرے