بچپن
میں ہمارے محلے کی کسی مٹیارکادوسرے
گاؤں کے ایک لڑکے سے اکھ مٹکا ہوگیا۔ میرے
اور میرے ہم عمروں کے چچاؤں اور بڑے بھائیوں نے بڑی پلاننگ کر کے اُس لڑکے کو عین موقع پہ
پکڑ لیا۔ اہل محلہ نے یہ منظر اپنی آنکھوں
سے دیکھا کہ وہ سب اس عاشق کو لاتیں
گھونسے مارتے جارہے تھے اور بار بار کہہ رہے تھے :
''اَسی مر گئے آں ؟اوئے اَسی مر گئے آں !''
چھوٹا
ہونے کے باعث جب میری کچھ سمجھ میں نہ آیا
تو میں نے اپنے چچا سے پوچھ ہی لیا کہ
''چچاجان!اس جملے کا کیا مطلب ہے؟''
تو
وہ بولے:
''دیکھ
چھوٹو!وہ ہمارے محلے کی عزت سے کھیل رہا تھا''
''محلے
کی عزت؟؟؟ جمیل کی بہن عزت النساء سے چاچو؟؟؟''
میں نے سراپا حیرت ہو کر پوچھا اور جواب میں ایک کڑاکے دار آواز سنی:
''چل
بھاگ جا اُلو کہیں کا!''
یہ
گونج سن کر جمیل بھی میرے ساتھ ہی بھاگ نکلا ۔وہ میرا ہمجولی تھا۔یقینا اُس کے پلے
بھی کچھ نہیں پڑا تھا۔
یہ بھی
پڑھیے:
اس
طرح کا دوسرا واقعہ سکول میں پیش آیا ۔جب
میرے ایک کلاس فیلو'چوہدری' نے آ کر مجھ سے کہا کہ
''آج تیرے بھائی کی عزت خراب ہو گئی''
''کیاہوا
عزت باجی کو؟''
میں نے بھاگتے ہوئے جمیل کو پکڑ کر استفسار کیا۔
''ابے
گھومڑ!اس کی بہن عزت نہیں ،میں محاورہ بول رہاہوں ''
چوہدری
نے فوراََ بات سنبھالی ۔
''پر
تجھے کیا ہواہے ٹھیک ٹھاک تو کھڑا ہے؟''
جمیل
نے بات سمجھ کر گفتگو میں حصہ لیا۔
''یار!وہ
اپنی کلاس فیلونور نہیں ہے آج اُس نے میرا لنچ شیئر نہیں کیا''
''توآ
ج کیا وہ اپنا لنچ لے کے آئی تھی؟''
میں نے فوراََ ہی پوچھا اور چوہدری سے چپت کھائی۔
''ارے
نہیں بے! وہ سلطانے کے ساتھ بیٹھی کھا رہی
تھی''
''تو
پھر کیا ہوا؟دو دِن پہلے جب تم چھٹی پرتھے تو اُس نے جمیل کے ساتھ بھی تو کھایا
تھا''
میرا
اتنا کہنا تھا کہ چوہدری نے اونچا سا ''کیا'' کہا اور آستینیں چڑھا کے جمیل کے پیچھے بھاگا۔میرے کانوں میں
اُس کی آواز برابر آرہی تھی ۔
''جمیلے تیری تو !اوئے اسی مر گئے آں ؟''
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
کالج
میں اس طور کے ہنگامے کافی تعداد میں ہوئے ۔سال اوّل کے امتحان ختم ہوئے تو میں خوشی خوشی گھر جانے کی تیاری میں تھا کہ فیقا اور طیفا آگئے ۔یہ دونوں ہمارے ہوسٹل کے 'لوکل' بدمعاش تھے ۔
''سلام
شہزادے''
فیقے نے کرسی اُٹھا کر میرے کمرے کے دروازے
میں جمالی۔
''وعلیکم
السلام! پیپر کیسا ہوا طیفے بادشاہ؟''
میں نے پوچھاتو وہ بھڑک گیا۔
''ارے
پیپر کیاخاک اچھے ہونے تھے!''
''کیوں کہیں
اس دفعہ بھی تم غلط بوٹی تو نہیں
لے گئے تھے؟''
میں نے ازراہِ ہمدردی پوچھا۔
''ابے
نہیں !تُو بتا تیرے پرچے تو بڑے اچھے ہوئے
ہوں گے
ہے نا؟''
طیفے
کے بجائے فیقا بولا۔
''
ہاں ہاں بڑے اچھے ہوئے ہیں اللہ کرم کرے تو فرسٹ ڈویژن تو پکی ہے''
''ہاں ہاں
ڈویژن تو تیری بنتی ہے ''
طیفے
نے بھی طنز کیا جسے میں سمجھ نہ پایا ۔
''ہے نا؟بس دُعا کرو یار ' میں بھی دُعا کروں
گا کہ تمہارے پیپر چیک کرتے وقت ممتحن عینک گھر بھول آئے''
میں نے بچے کھچے کپڑے سمیٹ کر بیگ میں ٹھونسے۔
''وہ
سب چھوڑ ! تو یہ بتا مہوش تیرے ساتھ والی قطار میں بیٹھتی رہی ہے نا؟''
طیفے
نے تفتیش کی۔
''ہاں
''
میں نے
بیگ کے اوپر بیٹھ کر اس کی زِپ بند کرتے
ہوئے کہا۔
''دیکھ
طیفے ! یہ مان رہا ہے''
فیقا
چلایا۔
''کیا
مان رہاہوں ؟''
میں نے گھبرا کر فیقے کی طرف دیکھا۔
''اور
تجھے سارے پیپر بھی اُسی نے دکھائے تھے ؟''
فیقے
نے تیزی سے سوال کیا۔
''ہاں
''
میں نے
الماری بند کر کے اُسے تالا لگایا۔
''دیکھا
فیقے ! یہ بھی مان رہا ہے ''
طیفا
کڑکا۔
''میں کیا نہ مانوں ؟؟''
میں نے گھبراہٹ میں دونوں
کو باری باری دیکھا۔
یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:
''تم نے اُس کے پیپر کیوں دیکھے؟''
طیفے
نے جرح کی ۔
''کیونکہ
اُس نے دکھائے تھے''
میں نے سیدھا سا جواب دیا۔
''اوئے!
تیری ہمت کیسے ہوئی؟ اَسی مر گئے آں؟ ''
فیقے
نے کرسی سے اُٹھ کر مجھے گھورا۔میں بچپن
سے یہ جملہ سن سن کر اُکتا چکا تھا مجھے
لگاکہ وہ چڑارہا ہے ۔ میں نے کرارا جواب
دینے کا سوچا:
''نہیں پر تم دونوں
تو زندہ ہونا؟؟''
میرا
جواب سن کر اُن کی کنپٹیاں لال
ہوگئیں ۔میں نے بیگ اُٹھا یا اورفیقے کو دھکا دے کر کرسی کے
اوپر سے ہوتا ہوا نکل بھاگا۔پیچھے دونوں
اپنے کھودے گڑھے میں خود گر
گئے۔فیقاکرسی سے ٹکر کر دروازے کے سامنے ستون سے جالگا اور سر پھوڑ بیٹھا جبکہ
طیفا، فیقے سے ٹکرا کر دوسری منزل سے نیچے جارہا اور بازو تڑوا بیٹھا۔غیر مصدقہ
اطلاعات کے مطابق چھٹیوں کے بعد
دونوں مجھے بھائی اور مہوش کو بھابی کہتے
پائے گئے۔
اس
طرزکا آخری اور اپنی نوعیت کا کوئی سواں
واقعہ یونیورسٹی میں پیش آیا۔ہمارے
ڈیپارٹمنٹ کی ایک لڑکی نے دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے لڑکے کو لائن دی تو چوتھے دِن ہی
لڑکے کو پھینٹی پڑی اور یہی نعرے لگے کہ
''
اَسی مر گئے آں ؟اَسی مر گئے آں ؟''
اس
پر وہ لڑکا تو کچھ نہ بولا البتہ ہماری ہیر نے جل کر کہا:
''جیسے تم لوگ ہو مر ہی جاؤ تو بہتر ہے''
میرے
خیال میں یہ سب سے بہتر جواب تھا۔
مقبول ترین
بلاگ یہ رہے:
0 تبصرے