Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

یادِ ماضی قریب (2) - قاصد، پرنسپل اور پھلوں کی ریڑھی

 
Remembering Recent Past-2, Yaad-e-Maazi Qareeb-2, asad, asad mahmood, urdu, columns, urdu columns, comics, urdu comics, college, memories, college memories, science, kallar kahar, science college kallar kahar

سردیوں  کا موسم تھااور رات ساڑھے دس ،گیارہ بجے کاعمل ۔ہم سب پڑھائی میں  منہمک تھے کہ اچانک کمرے کا دروازہ غیر معمولی تیزی سے کُھلا اور حضرت قاصدبجلی کی سی تیزی سے اندر داخل ہوئے ۔ یہ حضرت ہمارے ہی کلاس فیلو تھے ۔بس پڑھائی کی مشقت سے بچنے کے لیے قاصد کی ذمہ داری بحسن و خوبی نبھا رہے تھے۔اُن کی آمد خیر کی خبر نہیں ہوتی تھی۔ اس بار بھی چھوٹتے ہی پکارے:

کچھ کر لوجوانو،اُٹھتی جوانیاں ہیں

دوڑو،زمانہ چال قیامت کی چل گیا

ہمیں  موصوف کی اچانک آمد اور دو معروف شعروں  کا ستیاناس کرنے پہ بے طرح غصہ آیا لیکن اس سے پہلے کہ جواباََکچھ کہتے ، چھٹی حس ّ نے ہمیں  خبر دار رہنے کا اشارہ کیا ۔  چند لمحے بعد ہی قاصد کے عقب میں  ہاسٹل وارڈن صاحب ”نازل“ ہوتے پائے گئے۔  ہم تمام اہلِ کمرہ دوبارہ رضائی میں  دبک کر پڑھائی میں  مشغول رہنے کی کمال اداکاری کا مظاہرہ کرنے لگے....!

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

ہاسٹل وارڈن صاحب نے کمرے میں  جھانکا۔ اہلِ کمرہ کومصروف ِ مطالعہ پا کر شاباش دی اور واپس پلٹ گئے۔ قاصد نے محض تین چار سیکنڈ کے ”طویل“توقف کے بعد اپنی تقریر جاری رکھی:

حاضرین و ناضرین! وہ تمام طلباءجنہوں  نے سالِ اوّل کے سالانہ امتحانات میں  450سے زائد نمبر حاصل کر رکھے ہیں ۔ انہیں  پرنسپل صاحب یاد فرما رہے ہیں “....

یہ کہہ کر قاصد تواگلے کمرے میں ” پیغامِ یار“ پہنچانے چل د ئیے لیکن ہمارا دل دہلاکر رکھ دیا۔ کیونکہ ہم بھی اُن چند طالب علموں  میں  سے ایک تھے،جو گزشتہ سال امتحانات میں  یہ معرکہ سرانجام دے چکے تھے۔ اور”کُوئے جاناں  “میں  طلبی کا پروانہ پانے والوں  میں  سے ایک تھے۔

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

پرنسپل صاحب اکثر دو تین ماہ بعد ہماری ”حوصلہ افزائی“ کے لیے ایسی حرکات باقاعدگی سے کرتے تھے۔ یعنی محض تین چار گھنٹے کا ”مختصرسا“موٹیویشنل (Motivational) لیکچر دیا کرتے تھے۔  رات کے وقت ایسے لیکچرز دینے سے وہ دو مقاصد حاصل کرتے تھے۔ ایک تو یہ کہ وہ قابل اور ذہین طلباءکو دیر سے سونے کی عادت پہ عمل کراتے تھے ۔ دوسرا فائدہ طلباءکو ہوتاتھا اور وہ یہ کہ وہ ان لیکچرز کے فوراََ بعد سو جاتے تھے اور صبح جب اُٹھتے تھے تو لیکچرز کے ناروا اَثرات سے کافی حد تک محفوظ ہو چکے ہوتے تھے....!

بہر ِطور ،ہم نے دل کو دونوں  ہاتھوں  سے تھاما، اسے تھپتھپایا ،حوصلہ دیا اور آئندہ چند لمحوں  بلکہ چند گھنٹوں  کے روح فرسااور حوصلہ شکن حالات کے لیے تیار ہوتے ہوئے کُوئے یار کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔ دفتر کے باہر پہنچے تو ہمارے بیشتر ہم منصب (450سے زائد نمبر لینے والے)جمع ہوچکے تھے۔ سب ہنگامی لیکچرکے متوقع موضوعات کے حوالے چہ مگوئیوں  میں  مصروف تھے۔  کچھ دیر بعد جب تمام لوگ پہنچ چکے تو ہم نے ڈرتے ڈرتے ،دبے پاں  دفتر میں  جھانکا لیکن پرنسپل اور ہاسٹل وارڈن دونوں  غائب! سو، تمام حضرات نے دفتر میں  ڈیرے ڈال دئیے اور پرنسپل صاحب کا انتظار کرنے لگے۔

کچھ دیر بعد ایک روح افزاءہوا کے جھونکے کی طرح ایک اُڑتی اُڑتی خبر کانوں  میں  پڑی کہ جناب ِپرنسپل ،ہاسٹل وارڈن کے ہمراہ اپنی ذاتی گاڑی میں  رات کے کھانے کے لیے کسی ہوٹل کا قصد فرما چکے ہیں  اور کب تک واپس آئیں  گے ؟ یہ کسی کو معلوم نہیں  ۔ البتہ ہمیں  کچھ دیر انتظار کر لینے کا کہا گیا۔ تمام طلباءنے پہلے تو جان میں  جان آنے کے بعد اتنے گہرے گہرے سانس لیے کہ دفتر کی کھڑکیوں  کے پردے پنکھے کی طرح گھومنے لگے۔ پھر گفتگو کے موضوعات تبدیل ہونے لگے۔ ایک”ایمان شکن“ معرکے سے پہلے ہلکی پھلکی گفتگو سے سبھی ذہن کو پرسکون اور تازہ دم کرنے لگے۔ دو صاحبان نے کھڑکی کے کے سامنے والی نشستوں  پہ قبضہ جما لیا تاکہ پرنسپل صاحب کی پہلی جھلک پہ ہمیں  مطلع کر سکیں ۔

ایک نظر اِدھر بھی:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

کالج کی ایک نادر و نایاب شخصیت جناب ناصربد حواسی ہمارے ساتھ تشریف رکھتے تھے۔ یہ حضرت سالِ اوّل میں  تو 450سے زائد نمبر لینے کااعزاز رکھتے تھے لیکن سالِ دوم کے کسی کلاس ٹیسٹ میں  پاس نہیں  ہوئے تھے۔ لہٰذاہر لیکچر میں  پرنسپل صاحب کی”مشقِ سخن“ کا خصوصی نشانہ تھے۔ سو، انہوں  نے اپنی ”ستم بیتی “سےایک تازہ واقعہ ہمارے بھی گوش گزار کیا۔ فرمانے لگے کہ گزشتہ روز پرنسپل صاحب سے سامنا ہوا تو انہوں  نے حسب ِ معمول مجھے جھاڑ پلائی اور گویا ہوئے:

 "اوئے ناصر!(پرنسپل صاحب کے لب و لہجے میں )تُو خود کو سمجھتا کیا ہے؟ اِس کالج میں  آنے سے پہلے تیری حیثیت ہی کیا تھی؟سال اوّل میں  تو اندھے کے ہاتھ بٹیر لگنے کی مثل تمہارے 450نمبر آگئے ہیں  لیکن اب کیا تُو پھَلوں  کی ریڑھی لگانے کا ارادہ رکھتا ہے؟"

(واضح رہے کہ ناصر بد حواسی سالِ دوم کے دوران میس انچارج بھی تھے )

اِس کے بعد وہ چند لمحے خاموش رہے اورہم نے جان لیا کہ وہ ناقابلِ بیان جملوں  کو حذف کر رہے ہیں ۔ دوبارہ گویا ہونے پہ انہوں  نے ہمارے خیال کی تائید کی اور پرنسپل صاحب کی غیرحاضری میں  ہمیں  گواہ بنا کر انہیں  جواب دینے لگے۔ جو شاید وہ کل جھاڑ کے فوراََ بعد سے سوچ رہے تھے اور ”ایسا ہی “موقع ملنے کے منتظر تھے:

”سر جی !آپ کیا سمجھتے ہیں  کہ میں  ایف ایس سی کے بعد پھَلوں  کی ریڑھی لگاں  گا؟( آواز میں  کسی انقلابی لیڈر کے لہجے کی سی گھن گرج تھی)،سر جی !خدا کی قسم !میں  ایف ایس سی کے بعد پھَلوں  کی ریڑھی ہر گز نہیں  لگاں  گا۔ اگر مجھے محض آپ کے کالج کی عطا کردہ سند کی وجہ سے کہیں  پہ بھی ملازمت نہ ملی تو میں  چپراسی بن جاں گا۔ مجھے بھولا زُلف تراش کا شاگرد بننا منظور ہے۔ میں  200روپے والا دیہاڑی دار مزدور بننے کو ترجیح دوں  گا مگر پھَلوں  کی ریڑھی کسی صورت نہیں  لگاں  گا“....

تمام کتھا سننے کے بعد حاضرین نے ان کو داد دی اور ایک ”متفقہ قراردار“منظور کرلی گئی کہ پرنسپل صاحب سے بدلہ اُتر گیا ہے۔

40,50منٹ مزید گزرنے کے بعد ہاسٹل انتظامیہ نے ہمیں  اطلاع دی کہ پرنسپل صاحب لیٹ ہو چکے ہیں  لہٰذا” میٹنگِ ہٰذا “ پرنسپل صاحب کی ”غیر معینہ مرضی“ تک ملتوی کی جاتی ہے۔

جب ہم اسٹڈی ٹائم (Study Time) کا وقت پرنسپل صاحب کی ہنگامی ملاقات کی نذر کرکے سونے کے لیے واپس کمرے میں  پہنچے تومعلوم پڑا کہ دُور کہیں  پرنسپل صاحب کی گاڑی ان کی آمد کی نوید سُنا رہی تھی،ہم کالج انتظامیہ کی تسلی کے باوجود کہ میٹنگ آج نہیں  ہوگی، پرنسپل صاحب کے ہاتھوں ”دھر لیے جانے “کے خوف سے سر پٹ اپنے کمرے کی جانب بھاگے اور رضائی سے خود کو سر تا پا ”مقفل“ کرنے کے بعد ہی دوسرا سانس لیا....

یہ بھی پڑھیے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے