جی
تو جناب !ہم دو سال کلر کہار کے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں گزار کر بخیر و عافیت واپس آ چکے ہیں۔
کیا
کہا ؟آپ کو خوشی ہوئی؟
بہت
اچھے !ہماری دعا ہے کہ آپ بھی کچھ عرصہ اس جیل نما ہاسٹل میں گزاریں ،رہائی پر یقینا آپ کو زیادہ خوشی ہوگی۔
بہر
حال،چھوڑیں ،گلے شکوے تو ہوتے ہی رہیں گے ۔”جیل
“سے رہائی کے بعدہم ایک دن اداس اداس سے بیٹھے تھے کہ اچانک ہمیں یہ سوجھی کہ کیوں نہ کچھ واقعات آپ سے بھی شیئرکیے جائیں ۔بس یہ خیال
آنا تھا کہ ہم نے قلم کو تلوار کی مانند تھاما اورقرطاس پہ گدھے اور گھوڑے دوڑا دیئے۔
اس
سے پہلے کہ آپ واقعی برہم ہو جائیں اور سچ مچ کی تلوار لے کردفعہ 302پر عمل کرنے کا
سوچنے لگیں ،بہتر یہی ہوگا کہ آپ کو کچھ دلچسپ
موضوعات سے محظوظ کیا جائے۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
آپ
نے سنا ہو گا کہ شوق دا کوئی مُل نئیں۔ ہمارے ہاسٹل میں ایک حضرت حسن خیالوی صاحب تھے۔یہ اِس محاورے کی
عملی شکل تھے۔ یہ جناب کرکٹ کے بلا کے جنونی تھے ۔کرکٹ کے حوالے سے اس قدر جذباتی تھے
کہ اگر پاکستان کی ٹیم کوئی ایک آدھ میچ ہار جائے تو ان کی بھوک اُڑ جاتی تھی۔ ہاسٹل
میں اپنے ہر جاننے والے کومیچ ہارنے کی وجوہات
اور اگلے میچ کی متوقع منصوبہ بندی سے آگاہ کرتے نظر آتے ۔ اور اگر دوسری ٹیم کی بدقسمتی
سے پاکستانی کرکٹ ٹیم جیتنے میں کامیاب ہو
جاتی تو اس قدر پیٹ بھر کر کھاتے کہ اگلے کئی ہفتوں تک کھانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔(اب ان کے بارے میں
شنید ہے کہ وہ اکثر بھوکے ہی رہتے ہیں کہ کیونکہ آج کل مخالف ٹیمیں ذرا خوش قسمت واقع ہونے لگی ہیں ۔سو، اب یہ اوّل الذکر
عادت سے چھٹکار ہ پانے کے لیے کوشاں ہیں )
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
ہاسٹل
کے قوانین نہایت ہی سخت تھے ۔ یہاں تک کہ کوئی
طالب علم موبائل فون بھی پاس نہیں رکھ سکتا
تھا۔اگر کسی کے پاس موبائل نما کوئی آلہ برآمد
ہوجاتا تو سرِعام توڑ دیاجاتا۔کرکٹ میچ بھی انتظامیہ کی مرضی ہوتی تو ٹی۔وی لا کر دکھا
دیا جاتا ورنہ کسی کی کیا مجال جو چوں چراں
کر سکے۔ لیکن حسن خیالوی کا تو کھانا پینا ہی کرکٹ سے مشروط
تھا۔ سو ، انہوں نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے
انتظامیہ سے چھپ کرموبائل فون پاس رکھ لیا اور ہاسٹل کے تمام طالبعلموں کو پورے دو سال تک ہر میچ کی تازہ صورتحال (Match
Updates)سے آگاہ کرتے رہے ۔ مزے کی بات یہ کہ ایک دفعہ
بھی ”گرفتِ سرکار“میں نہ آئے۔اِس معاملے
میں وہ ہمیشہ اس معاملے کو اپنی احتیاط پسندی سے جوڑتے۔ لیکن گھر کے بھیدیوں کے
مطابق چوکس عملہ دو نکاتی غیر تحریری معاہدے پر اِن کا ساتھ دیتا تھا۔ وہ یہ تھے:
1. گاہے بگاہے 'بابا قائدِ اعظم' کی سپلائی
2. تازہ بہ تازہ کرکٹ اَپ ڈیٹس تک رسائی
ایک نظر اِدھر بھی:
سالِ
دوم کے آخری دنوں میں ایک دن یہ حضرت ہمارے
کمرے کے آگے”محوِ رقص“ تھے ۔ ہماری جو شامت آئی تو سلام کے بعد پوچھ بیٹھے کہ
”جناب!مستقبل میں پاکستان کرکٹ ٹیم کس ملک کا دورہ کرنے جارہی ہے؟
“جواباََ
ارشاد ہوا:(ان کے بارے میں ایک اور بات جو
ہم بتانا بھول گئے کہ یہ خود کو الیکٹرانک صحافی ،مطلب الیکٹرانک میڈیا کا باکمال صحافی
بھی گردانتے تھے اورکرکٹ کے بعد ”پارٹ ٹائم“ کے طور پریہی ان کامشغلہ تھا یعنی میڈیا
کے لوگوں کی طرح کسی کو چین نہ لینے دیتے تھے)
”جی
جہاں تک بات پاکستان کرکٹ ٹیم کے اگلے دورے
کی ہے توہماری کرکٹ ٹیم ابھی اسی ماہ کے آخری ہفتے کے تیسرے دن یعنی مورخہ 27جولائی
کوایشیاءکپ میں حصہ لے گی اور اس کے بعد ہمارے
شاہین انگلستان میں آسٹریلیا اور انگلستان
سے دو سیریز کھیلیں گے“
ہم نے ان کی رواں کمنٹری کواس دن کے لیے کافی سمجھتے ہوئے سلام کرکے
آگے جانا چاہالیکن وہ حضر ت میری اِس حرکت پہ چراغ پا ہو تے ہوئے ہتھے سے ہی اُکھڑ
گئے:
”اجی
جناب ِوالا!آپ کہاں چل دیئے ؟آیئے !“(وہ قریبی
کمرے کی کھڑکی کی طرف بڑھے)”ہم کرکٹ کی تاریخ کی نامور شخصیت،محترم اے۔بی لکھنوی صاحب
سے پوچھتے ہیں کہ آنے والے ٹورنامنٹ یعنی معرکہءِ
ایشیاءکپ میں ہمارے شاہینوں کی کارکردگی کیسی
ہوسکتی ہے؟“
آپ کے ذوقِ
نظر کی نذر:
چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ
جعفری
ہم
نے بھی ان کے عقب سے کھڑکی میں سے جھانکا تو
کمرے کے اندر اے۔بی لکھنوی صاحب تمام اہلِ کمرہ کی محفل جمائے نظر آئے۔(اے۔بی لکھنوی
کاکرکٹ سے دور دور تک کا بھی کوئی واسطہ نہ تھا،وہ اکثرہاسٹل کے برآمدوں کی راہداریوں میں بآوازِ بلند گانے گاتے ہوئے پائے جاتے تھے)۔ لکھنوی
صاحب سے نیم باز نگاہوں سے ہمیں گھورا اور حسب ِ عادت منہ بگاڑ کر گویا ہوئے:
”اجی
، ایشیاءکپ تو پاکستان کا اپنا کپ ہے ۔آپ کو اس بارے میں چندا ں فکر
کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اگر خدانخواستہ پاکستانی ٹیم ایشیاءکپ نہ جیت سکی تو ہم انہیں
بازار سے نیاکپ لے دیں گے ۔ بھئی ،ایک بات تو طے ہے کہ ہم قوم کو کپ ضرور
لا کر دیں گے“
یہ
سنتے ہی حسن خیالوی صاحب سب کچھ بھول بیٹھے ۔ پر جوش لہجے میں چیخے:
”جی
بہت بہت شکریہ!بے شک!کیا کہنے ،سبحان اﷲ، سبحان اﷲ“
(اب
وہ ہماری جانب متوجہ ہوئے)
”تو
جناب !یہ تھے محترم اے ۔بی لکھنوی صاحب جو ایشیاءکپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے ”نیک“
خواہشات کا اظہار کر رہے تھے۔خدا ان کی زبان 'دراز'کرے“
موصوف
یہ کہہ کر یہ جا ،وہ جا،برآمدے سے باہر نکل گئے اور ہم ہکا بکا کھڑے ان کی 'سِحر انگیز'شخصیت
اور 'اعلیٰ پایہ'گفتگوکے بارے میں سوچتے رہ گئے۔
یہ بھی
پڑھیے:
1 تبصرے
Praising past is termed as Nostalgia...
جواب دیںحذف کریںThis article reminds me of my college days...
Nostalgic, comic & sweet memories...