خوشبو
دار گلستاں میں سدا بہار مہک والے پودوں کے درمیان میں سے گزرتے ہوئے جیسے دامن کانٹوں سے جا اُلجھے ۔
بالکل ویسے ہی زندگی کہیں اَٹک گئی معلوم
ہوتی ہے۔ہر چیز رُک سی گئی لگتی ہے ۔ یہ کیسے روز وشب ہیں جو بنا سور ج اور چاند کے طلوع و غروب ہوئے
جارہے ہیں ۔یہ کیسے جذبات ہیں جو دِل میں مچلنے سے پہلے دماغ سے اجازت طلب ہیں ۔یہ کیسے
لوگ ہیں جو میرے اِرد گرد منڈلا رہے ہیں ۔
میری ہنسی تو سن رہے ہیں لیکن اُس کے
پیچھے دَرد تک نہیں پہنچتے ۔ یہ کیسے چارہ
گر ہیں جو میری باتوں پہ میرے ہی ساتھ کھلکھلا رہے ہیں لیکن 'بین السطور'پنہاں کرب کا اندازہ نہیں کر پارہے ۔ یہ کس طرح کے غم خوار ہیں جو دو حرف تسلی کے نہیں کہتے بلکہ یہ جتا نے کی کوشش میں ہیں کہ
جو چند اچھے پل تھے وہ بھی انہی کے طفیل
تھے ۔یہ کیسے لوگ ہیں جو میری اہمیت میرے وجود سے ہی انکاری ہیں ۔ حالانکہ میرا
ہونا کبھی ان کے ہونے کی ضمانت تھا۔ کچھ عرصہ پہلے تو وہ میرے ہی نام کے حوالے سے
جانے جاتے تھے ۔ اور اب ہیں کہ یوں نصیحت کر رہے ہیں کہ جیسے عابدؔ جعفری میرے لیے ہی کہ گئے ہوں ۔کہ
بات ایسی بھی کوئی تم میں
جو ہوتی عابدؔ
باتوں باتوں میں تمہارے بھی حوالے ہوتے
مزید دِل
چسپ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
پر
میں چپ چاپ کھڑاہوں ۔سب کچھ جانتے ہوئے
بھی کچھ بول نہیں پا رہا۔خود دھوپ میں جل کر دوسروں پہ سایہ کرنے والے درختوں کی بے زبانی اب سمجھ میں آرہی ہے کہ جب کوئی چھاؤں لینے والا ہی آرے لے کر کاٹنے لگے تو مروت میں مارے جانا کس قدر دُکھ دیتاہے۔احمد فراز کی
پریشانی یاد آتی ہے جو اُن پہ کسی فصلِ گل
کی آمد پہ طاری تھی۔
کوئی زنجیر کوئی حرفِ خرد لے آیا
فصلِ گل آئی کہ دیوانے کا
موسم آیا
یہ
کس طرح کے راستے ہیں جن پہ اِک عمر چلتے
رہو تو گر دتواُٹھتی ہے پر منزل کا پتہ نہیں ملتا ۔میری منزل کہاں کھو گئی ہے ۔ میں اِک عمر پہلے جب دشت میں نکلا تھا تو بھلا کس جنوں میں نکلاتھا ۔ نجانے میں نے ایک طویل زمانہ کس دھن میں گزارا ہے ۔ نجانے میری یاداشت کو کیا ہو گیا
ہے جو خالی سلیٹ کی مانند چند لمحے پہلی لکھی گئی بات کا بھی پتہ نہیں دیتی ۔جانے یہ گزرتے پل ہی اتنے وسیع ہیں یا پھر میں ہی کسی جذب کی کیفیت میں ہوں ۔
بات ابھی کی ابھی نہیں ہے یاد
ایک لمحے میں کتنی وسعت ہے
ادبی (اور
بے ادبی )وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
ہر
سوچ کا خاتمہ اس سوال پر ہوتاہے کہ جانے کب تک یونہی بے مقصدصحرا نوردی میرے مقدر
میں لکھ دی گئی ہے۔نجانے گیلی لکڑی کی
مانند سلگ سلگ کر کب تلک جلنا ہے ۔جانے کتنی عمر کی ریاضت اور درکار ہے کہ جس کے
بعداس چلہ کشی کا کوئی اَنت ظاہر ہو۔ نجانے اِس کڑواہٹ زدہ رات کا اختتام بھی کہیں
لکھا ہے کہ نہیں ؟۔کوئی ایسی صبح کہیں کسی لوح میں موجود بھی ہے کہ نہیں ؟۔ جس کے بعد کوئی شب ِ وصل بھی انتظار میں ہو۔اور
جہاں محبوب سے اپنی' ہجر بیتی 'کی داستانوں
پہ عباس تابش کی طرح داد طلب ہوں ۔
ہمارے چہرے دم ِ صبح
دیکھتے آکر
کہ ہم نے رات نہیں زندگی گزاری تھی
کبھی جب رنگوں کی بجائے کینوس بدلوں توایسا لگتا ہے کہ یہ دشت نوردی ہر کسی کے لیے
ہے ۔یہ وحشت پتھروں کو موم کرنے کے لیے
لازم ہے ۔اورہر کسی کو یہاں آبلہ پائی کی
غرض سے آنا ضرور ہے۔گو یہ توجیہہ دِل نہیں
مانتا لیکن شاہین عباس کچھ سوا یقین کے ساتھ بضد ہیں :
سرسری گزرے تھے جو ہجر کی
وحشت سے وہ لوگ
حاضر اِس باب میں ممکن ہے دوبارہ کیے جائیں
ایک نظر اِدھر بھی:
کبھی
کبھی جب یہ بات ذرا زیادہ دماغ کو چڑھ جائے ذہن پہ چلنے والی ہوا کی سمت بدلتی ہے
اوریوں لگتا ہے کہ اتنی مشقت ، شاید کوئی
مشق ہو ۔اوراِن آبلوں کا پھوٹنا ضروری ہو ۔
ان زخموں کا رِسنا لازم ہو ۔شاید کوئی
مسند حوالے کرنے سے قبل ضروری ٹریننگ کرائی جارہی ہو۔شاید خلعتیں یونہی ملتی ہوں ۔شاید اُجالا ایسے ہی آتا ہو۔
عباس تابش بھی توہم نوائی کررہے ہیں :
آتشِ شوق نے اتنا جو
اُجالا ہے مجھے
اس کا مطلب ہے کوئی
دیکھنے والا ہے مجھے
پر
یہ سب تو امید وبیم اِدھر اور اُدھر کے
بین بین والی صورت ِ حال ہے۔ اَنت کیا ہے۔ حاصل کیا ہے ۔ذہن سو یا ہوا نہیں بلکہ مرا ہوا کیوں لگ رہا ہے ؟۔
لیکن
نہیں !ذرا رُکیے!ذہن ابھی بھی سانس لے رہا
لگتا ہے ۔ اِس کے بعد بھی کچھ سوچیں اُبھر
رہی ہیں ۔ ٹھہریئے!یہ اُمید سے سوا گہری ہیں ۔ ذراسنیے تو!کہیں کوئی گمان کسی یقین میں ڈھل رہا ہے ۔وہ جو'ناز خیالوی' کے لیے اِک گورکھ
دھندہ سا گورکھ دھندہ ہے ۔ وہ جونہ ہو کر بھی ہر جگہ موجود ہے ۔ وہ جو اور کہیں نہ ملے
توٹوٹے ہوئے دِلوں میں ہوتاہے ۔ہوسکتا
ہے کہ اب میرے ہی دِل میں تماشائی بنا
بیٹھاہو۔ وہ جسے ہر چیز کو جاننے کا دعویٰ ہے ۔یہ اُس سے کوئی مناجات، کوئی التجا
سی لگتی ہے۔یا شاید عابد جعفری کی کوئی آس ہے کہ جو منڈھے چڑھنے کی منتظر ہے۔
بہت سخی ہے سنا ہے تو
دیکھئے عابدؔ
وہ حبسِ جاں سے ہمیں کب رہائی دیتا ہے
یہ بھی
پڑھیے:
0 تبصرے