کچھ
عرصہ پہلے ایک لطیفہ نما SMSبہت
مقبول ہوا تھا۔ جسے یار دوستوں نے
بلاواسطہ اور بلواسطہ بے حد پھیلایا۔ لطیفہ کچھ یوں تھا کہ
'امریکی
صدر نے مسلمان ممالک کے نمائندگان کے سامنے اس اَمر کا اظہار کیا کہ تیسری جنگ ِ
عظیم میں ایک ارب مسلمانوں اور قطرینہ کیف کو قتل کر دیا جائے گا'
اورجب تمام مسلم نمائندوں نے بیک زبان پوچھا کہ
'قطرینہ کیف کو کیوں ؟؟؟'
تو
امریکی صدر نے فلسفہ بگھارا کہ
'دیکھا !دیکھا!مجھے پتہ تھا کہ ایک ارب مسلمانوں
کے قتل کا کوئی نہیں پوچھے گا بلکہ ہر کسی کو قطرینہ کیف کی فکر ہوگی'
جب
بھی اور جہاں بھی کہیں یہ لطیفہ سنایا گیا ۔سامعین شرمندہ ہوجاتے ۔اور
پھر ڈیڑھ دو گھنٹے مسلم قوم کی بے حسی پر نوحہ خوانی کی جاتی۔ قوم کے معاملے میں شرمندہ شرمندہ رہنا کوئی نئی بات نہیں ۔ کیونکہ ہمارے ڈگری ہولڈراَن پڑھ لیکن عوامی
نمائندے آئے دن ایک دوسرے کوسیاسی ،اخلاقی اور مذہبی،ہر معاملے میں شرم کرنے کا درس دیتے ہیں اور ان کے فرامین پر
ان کے علاوہ ساری قوم شرمندہ ہوئی پھرتی ہے۔سو ' ہم اس
SMSپر بھی خوب شرمندہ ہو ئے اور دوسروں کو بھی کیا۔لیکن یار دوست اس گہرے طنز میں ملفوف
SMSکی جانچ پرکھ بھول گئے ۔
آپ کے ذوقِ
نظر کی نذر:
چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ
جعفری
یہ
سوال ہی ایسا تھا کہ کسی کے بھی سامنے کیا جاتا تو اس اَمر کا اظہار یقینی تھا کہ
اس کا جواب وہی ہوتا جو SMSمیں
'مسلم نمائندگان'کے منہ سے ادا کرایا گیا۔یہ سوال ہی نہایت چالاکی سے بنایا گیاتھا۔
یہ کچھ ایسا ہی ہے کہ اگر کسی سے پوچھا جائے کہ
'اتوار کے دِن نمازِجمعہ پڑھ لینے سے زیادہ ثواب
ملتا ہے یا کم ؟ '
اور
وہ جب یہ کہے کہ
'
اتوار کوتونمازِ جمعہ نہیں پڑھی جاسکتی'
تو
سوال کرنے والے چلا اُٹھے کہ
'دیکھا !دیکھا!میں کچھ اور پوچھ رہاہوں اور تم کچھ اور ہی جواب دے رہے ہو'
یا
پھر ایسے کہ کوئی پوچھ اُٹھے کہ
'
بتاؤ فحاشی زیادہ قابل اعتراض ہے یا خودکش حملے ؟'
اور
آپ کا 'غلط'جواب ہو کہ
'دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پر قابل گرفت جرائم ہیں '
ایسے
سوالات اپنی مرضی کا جواب لینے کے لیے گھڑے جاتے ہیں ۔جرائم چھوٹے بڑے ہوتے ہیں ۔ان کی سزا مختلف ہو
سکتی ہے لیکن اس بنا پر ایک کی حمایت نہیں کی جاسکتی کہ وہ دوسرے سے چھوٹا ہے۔
ایک نظر اِدھر بھی:
اس
بحث بحثی سے مجھے ایک دلچسپ بات یادآگئی ۔پاکستان کرکٹ کا حال تو روزِ اول سے آپ
کے سامنے ہے ۔ان کی جیت کا موقع عید ین کی طرح سال میں کبھی کبھی ہی آتاہے ۔لیکن میں بچپن میں اپنی دل پشوری کے لیے اپنے چھوٹے بھائی سے (جس
نے اس وقت نیا نیا بولنا شروع کیا تھا)پوچھتا کہ
'بتاؤ !آج کے میچ میں انڈیا جیتے گا یا پاکستان؟'
وہ ہمیشہ بعد والی ٹیم کا نام لیتا ۔ اور میں بار بار پاکستان کو'جتوانے' کے لیے نہ صرف
پاکستان کا نام بعد میں لیتا بلکہ مناسب
حد تک کھینچ بھی دیتا تاکہ وہ پہلی ٹیم کا نام ہی بھول جائے ۔ انہی دِنوں میں الیکشن بھی ہو رہے تھے ۔ سو' میں بار بار چھوٹو سے ایسے سوال پوچھتا جن میں اپنی پسندیدہ پارٹی کا نام بعد میں ہوتا اور پھر اس سے جیت کی 'پیشین گوئیاں 'سن سن
کر خوش ہوتارہتا ۔
ایسے
ہی ایک آدھ صنف شاید اُردو ادب میں بھی ہے
کہ جہاں محبوباؤں کی طرح 'نہ کہہ کر کہنا
'مراد لیا جاتا ہے ۔یعنی
نہیں مطلب نہیں اُس کی نہیں کا
یہ دِل سمجھا نہیں پاگل کہیں کا
سو یہ سوالات کچھ ایسے ہی تھے ۔ اور ایسے سوال
سازصرف مغرب میں ہی نہیں پائے جاتے بلکہ خود ہمارے ہاں بھی بے شمار دانا لوگ پیدا ہوئے ۔ایک تو 1988ء
سے اُدھر کے ایک صاحب تھے جنہوں نے پوری
قوم سے یہ سوال پوچھ ڈالا کہ
'کیا آپ ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں ؟'
ادبی ویڈیوز اور وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
اور پھر عوام کے 'ہاں 'کو اپنے اقتدار کی طوالت
سے محمول کیا۔2008ء سے اُدھر بھی ایک صاحب تھے ۔ جو ڈرتے ورتے کسی سے نہیں تھے پر لڑتے وڑتے بھی کسی سے نہیں تھے(جملہ بہ کریڈٹ : گل نوخیز اختر) ۔ انہوں نے نسبتاََ ایک دلیرانہ سوال قوم سے پوچھا تھا
کہ
'کیا
آپ مجھے اگلے دس سال تک منتخب کرتے ہیں ؟'
اور ایک پولنگ ایجنٹ کے مطابق کہ جب شام کو
بیلٹ باکس میں سے محض تین 'ہاں 'نکلے تو
تمام عملے کو حکم دیا گیا کہ تین کو تین ہزار میں بدلیں اور پھر چشم ِ قدرت نے تو 99فی صد رزلٹ تو دیکھا
ہی تھا۔
آپ
یقیناسوچ رہے ہوں گے کہ ان تمام سوالات
اور بے معنی کی بحث سے میں کیا ثابت کرنا
چاہ رہاہوں ۔آپ میرے مافی الضمیر تک رسائی کے لیے ایک شعر دیکھیں :
لوگوں نے احتجاج کی خاطر اُٹھائے ہاتھ
اس نے کہا کہ فیصلہ منظور
ہو گیا
جمیل
عالی نے جانے اِن دو ادوار میں سے کس میں یہ شعر کہا تھا لیکن میری دانست میں تو ایسے شعروں کا تعلق کسی دَور سے نہیں ہوتا، یہ دائمی ہوتے ہیں ۔ آپ کوکیا لگتا ہے کہ بھلا کبھی عالم گیر سچائیوں (Universal
Truth)پر بھی سوال اُٹھایا جاسکتا ہے؟
مزید دِل
چسپ بلاگ:
0 تبصرے