خواب
عموماََ دو طرح کے ہوتے ہیں ۔پہلی طرح کے خواب
انسان کی طرح فانی ہوتے ہیں ۔ایسے خوابوں کی
عمر بھلاکتنی ہوتی ہے،خزاں رسیدہ درخت کے گرتے
ہوئے زرد پتے کی طرح چند لمحے ۔پتہ چند لمحوں میں زمین
پہ گر کر مٹی کاحصہ بن جاتا ہے اور خواب پرانے ہوکر یادوں کی خزانے میں دفن ہوجاتے ہیں ۔چند لمحے خواب میں برگ و گل کی ہمراہی میں گزرنے کے بعد انسان کے اِرد گرد وہی صحرا کی تپش
آمیزی ہوتی ہے،وہی لُو ہر طرف ہوتی ہے،ریگستان میں چلنے والی یہ گرم ہوا خواب دیکھنے
والے کے حلق میں شدید تشنگی اورگلے میں کانٹے
سے اُگا دیتی ہے۔انسان خود کو پھر اسی جہانِ فانی کاایک کیڑا بنا ہوا محسوس کرتا ہے۔چند
لمحے پہلے دیکھا جانے والا خواب کچھ دیر کوکسی محمل نشیں کی طرح لاشعور کے پردے سرکا سرکا کر جھانکتا ہے ،شعور
کو اپنا احساس دلانے کو کوشش کرتا ہے لیکن شعور حقیقت سے نظریں چُرا کر کہیں اور دیکھ ہی نہیں پاتا۔وہ بزبانِ حال سے تشنہ کام خواب سے گویا ہوتا
ہے:
جاگے تو محض ریت ہی پائیں
گے ہر طرف
جو ہوسکے تو خواب میں ساحل نہ دیکھیئے
ملاحظہ ہوں شرطیہ مٹھے بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
ایک انگریز مصنف اپنی ابتدائی
عمر میں ایک خواب دیکھتا رہا۔اس کا خواب یہ
تھا کہ وہ ایک بائیسکل خریدے۔جی ہاں! محض ایک بائیسکل ۔ مگر غربت نے اسے اس خواب کی
تکمیل سے باز رکھالیکن یہ خوا ب اس کے ذہن سے چپک گیا ۔وہ ایک تخلیق کار بن گیا اور
یونیورسٹی کے ایک انعامی مقابلے میں ملنے والی رقم سے اس نے اپنا خواب تو پورا کر لیا
لیکن ادب کو ایک لازوال جملہ دے گیا۔Dreams always do not
come true in this life(اس زندگی میں دیکھا جانے والا ہر خواب پورانہیں ہوتا)۔
خوابوں کی ایک دوسری قسم بھی ہوتی ہے۔ ہاں !وہی خواب جو
انسان کو سونے نہیں دیتے ۔انسان کو ایسے ہی
خواب دیکھنے چاہئیں ۔یہ خواب شعور یا لاشعور کی قید میں نہیں رہتے
۔یہ شعور اور لاشعور کو اپنے قابو میں کر لیتے
ہیں۔ انسان کے اعصاب پر سوار ہوجاتے ہیں۔یہ انسان کو اپنے ڈھب پہ چلا لیتے ہیں پھر
انسان ایسے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے کسی رکاوٹ کی پرواہ نہیں کرتا۔وہ کوہ ہمالیہ سے ٹکر لے لیتا ہے، سمندروں میں کود
جاتاہے اور مقصد پاکر ہی دم لیتا ہے،ایسے خواب انسان کو فرہاد بنا دیتے ہیں ،وہ تیشہ
لیے پہاڑوں سے نہریں نکالنے چلا پڑتا ہے ،وہ امریکی سیاہ فام لیڈر آرتھر
بن جاتا ہے ،جواپنے خواب کی تعبیر پانے کو امریکہ اور دنیا بھر کے سفید فاموں کے ساتھ ٹکرا جاتا ہے ۔وہ تھامس ایڈیسن بن جاتا ہے،جو
ہزار سے زائد مرتبہ ناکامی کے باوجود دنیا کو روشن کرنے کے خیا ل سے باز نہیں آتا ۔ایسے خواب ذہن میں سماجائیں توانسان ناکامی کوناکامی نہیں سمجھتا بلکہ کامیابی کی سیڑھی گردانتا ہے، وہ ناکامی
کوکسی خاطر میں ہی نہیں لاتا۔
نئی ادبی صنف موبائل لٹریچر سیریزملاحظہ فرمائیں:
تھامس
ایڈیسن سے ایک بار کسی نے پوچھاتھا،"آپ
نے بلب ایجاد کرنے کی کوشش میں ہزار تجربے
کیے ،جوناکام ہوئے، کیا آپ مایوس نہیں ہوئے
؟، یہ جان کر کہ آپ ناکام ہوگئے ہیں ،آپ کبھی بددل نہیں ہوئے؟" ایڈیسن مسکرایا اور کہا ”پہلی بات تو
یہ کہ میں ناکام نہیں ہوابلکہ میں نے ہزار ایسے طریقے بھی دریافت کر لیے ہیں جن سے بلب نہیں بنایا جاسکتااور رہی بات کہ میں بددل کیوں نہ ہوا،یہ میرا خواب تھا جس کی تعبیر مجھے ہر صورت
پانا تھی اور میں اگر 1000تجربات کے بعد بددل
ہوجاتاتو بلب کبھی ایجاد نہ ہوتا“
وہ تیمور لنگ بھی تو آپ کو یاد ہی ہو گا۔ جو شکست پر شکست
کھاتے ہوئے بھاگ نکلا۔ ایک غار میں پناہ لی۔ پہروں بے مصرف پڑا رہا۔ پھر دیکھا کہ
ایک چیونٹی /مکڑی بار بار غار کی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہر بار ناکام ہو
جاتی ہے لیکن وہ رُکتی نہیں، تھکتی نہیں۔ گر جاتی ہے تو پھر اُٹھ کر چڑھنے لگتی
ہے۔ 99 کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں مگر وہ 100 ویں مرتبہ دیوار سر کر کے ہی دَم لیتی
ہے۔ یہ منظر تیمور میں ولولہ بھر دیتاہے۔ وہ غار سے باہر نکلتا ہے۔ اپنی بچی کچھی
فوج اکٹھی کرتا ہے اور دُنیا پر چڑھ دوڑتا ہے۔ باقی آپ نے سامنے کی بات ہے، تاریخ
ہے۔
زیادہ دور مت جائیے،آٹھ ،ساڑھے آٹھ دہائیاں قبل ایک خواب ہمارے بزرگوں نے بھی دیکھا تھا،اقبال نے منٹو پارک میں جب اپنا خواب بیان کیا تو وہ خواب وہاں موجود ہرذی ہوش کی آنکھوں میں شمع
کی مانند روشن ہوگیا۔ ان کے ذہن و دل میں سرایت
کر گیا۔قائد اعظم ؒ کی آنکھوں میں بھی یہی خواب جلتا تھااور اسی خواب کی طاقت تھی کہ
وہ قوم جسے ہندو اور انگریز ایک اقلیت کے طور پہ دبا کر رکھنا چاہتے تھے ،جسے وہ اسمبلیوں
میں ایک چوتھائی سے زیادہ نمائندگی دینے کو تیار نہ تھے،
وہ قوم ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال
کر نہ صرف کھڑی ہوگئی بلکہ دنیا جہان کی مخالفت کے باوجود پاکستان کی صورت میں اپنے خواب کی تعبیر پانے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ہمارے بزرگوں نے ہزار ہا صعوبتیں برداشت کر کے ،لاکھوں انسانوں کا لہو بہا کر جس خواب کی تعبیر پائی تھی ،ہمیں بھی ایک خواب دیکھنا چاہیے جو ان کے خواب کی تعبیرکو
بچانے کے لیے ہو،جوہمارے پاکستان کی بقا کا خوا ب ہو۔
یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:
ایک فلاسفر کا کہنا تھا کہ
”خواب وہ نہیں ہوتے جو انسان سوتے میں دیکھتا ہے بلکہ خواب تو وہ ہوتے ہیں جو انسان کو سونے نہیں دیتے“۔ایسے میں احمد فراز کی دھیمی سرگوشی بھی کسی لوری کی طرح سنائی
دیتی ہے: ”خواب مَرتے نہیں “
خواب
مَرتے نہیں
خواب
دل ہیں نہ آنکھیں نہ شامیں کہ جو
ریزہ
ریزہ ہوئے تو بکھر جائیں گے
جسم
کی موت سے بھی یہ مَر جائیں گے
خواب
مَرتے نہیں
خواب
تو روشنی ہیں ،نوا ہیں ، ہوا ہیں
جوکالے
پہاڑوں سے
ظلم
کے دوزخوں سے بھی پُھکتے نہیں
روشنی
،نوا اور ہوا کے عَلم
مقتلوں
میں پہنچ کر بھی جُھکتے نہیں
خواب
تو حرف ہیں
خواب
تو نور ہیں
خواب
سقراط ہیں
خواب
منصورہیں
مزید دِل چسپ بلاگ:
0 تبصرے