Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

کُن فیکون!

religion, biggest religion in the world, Islam, Kun FayaKun, Kun Fayakuun, Kun, kun faya kun dp, dunya newspaper, javed ch latest column, sohail warraich columns, fifth column, adventure, Sunday, Asad, Asad Mahmood, Columns, Urdu, Urdu Columns, Comics, Urdu Comics, Comedy, Urdu Comedy, urdu column kaar, urdu column today, urdu column daily, columnist, column ghar, column writing, funny columns, funny columns in urdu,funny column ideas, funny column names, funny column titles, funny column writers, funny column examples, Sir James Jeans, James Jeans, The Dying Sun

”اسد!یہ بتا کہ بِگ بینگ کو ہم کیاکہتے ہیں ؟“

مسکراتے مسکراتے ہی میں  انہوں  نے عجیب سوال کر دیا۔میں  ہکا بکا ان کی طرف دیکھنے لگا۔ سوال میرے سر پر سے گزر گیا تھا۔گزرتا بھی کیوں نا؟ نہ صرف سوال غیر روایتی تھا بلکہ طالب علم کی عمر بھی  محض 13/14 سال تھی۔ یہ ہشتم جماعت کا سائنس کا پیریڈ تھا۔ہم سب گزشتہ روزیاد کرنے کے لیے سبق کے طورپر دی جانے والی ”بِگ بینگ تھیوری“ استادِ محترم کے حکم پر انہیں لکھ کر دِکھا رہے تھے۔ اس تھیوری کے مطابق یہ کائنات حادثاتی طور پر وجود میں  آئی ہے۔ اربوں  سال پہلے ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا۔جس کے نتیجے میں  مادہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں  میں  بٹ گیااور پھر انہی ٹکڑوں  میں  سے ایک زمین پر زندگی کی ابتداءہوئی۔ کیوں ؟کب؟ کیسے؟ یہ جواب اس تھیوری میں  موجود نہیں  تھے ۔صرف فرض کیا گیا تھا،اندازہ لگایا گیاتھا،ایک قیاس تھا کہ ایسا ہوا ہوگا۔

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

 میں  اپنی جماعت کا ہیڈ مانیٹر تھااور دوسرے ذیلی مانیٹرز کے ہمراہ پہلے استادِمحترم کو خود سبق لکھ کر دکھا رہا تھا ۔ مانیٹرز ہونے کے ناطے سب سے پہلے ہمارا کام چیک ہوتا تھا ۔صحیح لکھا ہونے پر ہمیں  دیگر جماعت کا سبق چیک کرنے کی ہری جھنڈی ملتی تھی۔اس د ن بھی ”بِگ بینگ تھیوری“مجھے اچھی طرح تیار تھی لیکن استادِمحترم نے میرا سبق چیک کرتے ہوئے ایک عجیب ہی سوال کردیا تھا۔پہلے تو مجھے یہی لگا کہ  لکھنے میں کوئی غلطی ہو گئی ہے اور وہ کوئی مذاق وزاق کر رہے ہیں لیکن جب اُنہیں سنجیدگی سے گھورتے دیکھا تو میں  مخمصے میں  پڑگیا۔

”جی سر؟“میں  نے دوبارہ استفسار کیاکہ شاید کوئی سِرا ہاتھ لگ جائے۔

”بِگ بینگ کو ہم کیا کہتے ہیں ؟“بات پھر میرے پلے نہیں  پڑی ۔میں  ہونق کھڑا ان کا منہ دیکھتا رہا۔انہوں  نے کچھ دیر امید افزاءجواب کے انتظار میں  میری طرف دیکھا ۔مجھے مسلسل خاموش پاکرپھر وہ خود ہی گویا ہوئے:

”بیٹا!بِگ بینگ کو ہم مسلمان”کن فیکون“ کہتے ہیں ۔بِگ بینگ تھیوری کا موجد ہزاروں  سال پہلے جس زور دار دھماکے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ہوسکتا ہے کہ اس وقت ﷲتعالیٰ نے تخلیقِ کائنات کافیصلہ کیا ہواور ”کن“کے نتیجے میں  وہ دھماکہ ہوا ہو ،اورپھر اس تھیوری کا موجد ،جو یہ کہہ رہا ہے کہ پانچ سے سات ہزار برس تک وہ ٹکڑے ایسے ہی تیرتے رہے،کائنات کی وسعتوں  میں  آوارہ گھومتے رہے اور پھر زندگی نے جنم لیا،ہوسکتا ہے ﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہزاروں  برس سات دن کے برابرہوں “

میں  نے کچھ سمجھتے ،نہ سمجھتے ہوئے اثبات میں  سر ہلا دیا۔

ادبی وی لاگز  یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

  یہ واقعہ مجھے کچھ یوں  یاد آیا کہ چند دن پہلے سر جیمز جینز(Sir James Jeans) کا ایک آرٹیکل بعنوان”ڈوبتا ہوا سورج“(The Dying Sun)پڑھنے کا اتفاق ہوا۔یہ مضمون ہمارے ہاں  انٹر میڈیٹ کے نصاب میں  بھی شامل ہے۔اس آرٹیکل میں  کائنات پر زندگی کی ابتداءکے بارے میں  سر جیمز جینز کا کہنا ہے کہ اس کائنات میں  اَن گنت ستارے موجود ہیں ۔جو حجم میں  اتنے بڑے ہیں  کہ ہماری زمین جیسی لاکھوں  زمینیں ان میں  سما جائیں  تو پھر بھی جگہ باقی بچ رہے۔  یہ ستارے اَن گنت تعداد میں  ہونے کے باوجود بھی ایک دوسرے کے قریب بہت کم آتے ہیں اور کائنات میں  اس طرح آوارہ گردی میں  مصروف رہتے ہیں  جیسے ایک خالی سمندرپر محض ایک ہی بحری جہاز تیر رہاہولیکن تقریباََ دو ارب سال پہلے ایک ’اَن ہونی‘ ہوئی ۔  ایک بہت بڑے  حجم کا ستارہ سورج کے قریب آگیا۔اس ستارے نے اپنی کشش سے سورج کی سطح پر بالکل ویسے ہی بڑی بڑی لہریں سی پیدا کر دیں  ،جیسے اکثر چاندنی راتوں میں  نہروں  ،دریاں اور سمندروں  میں  مدوجزر پیداہوتا ہے لیکن سورج کی سطح پر پیداہونے والی وہ لہریں زمین کے مدوجزرکے مقابلے میں  بہت بڑی تھیں ،کیونکہ سورج کے قریب آنے والے ستارے کاحجم بہت بڑا تھا۔جوں جوں  وہ ستارہ سورج کے قریب سے قریب تر آتا گیا۔سورج پر اس کی کشش بڑھنے کے نتیجے میں  ،سورج کی سطح پہ پیدا ہونے والی لہریں  بہت بڑی ہوتی گئیں ،حتیٰ کہ وہ بڑے بڑے پہاڑ بن گئیں  اور پھر اس سے پہلے کہ وہ ستارہ سورج کے قریب سے ہوکر آگے گزر جاتااور سورج پر اس کی کشش کم ہوتی،وہ بڑے بڑے پہاڑ ایک دھماکے کے ساتھ پھٹ گئے اور مادے کے ذرے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں  کی صورت میں  پوری کائنات میں  بکھر گئے۔سورج سے جدا ہونے کے بعد کافی لمبے عرصے تک یہ ٹکڑے بہت زیادہ گرم رہے۔پھر آہستہ آہستہ ٹھنڈے ہوتے گئے اور پھر انہی ٹکڑوں  میں  سے ایک ،زمین، پرزندگی نے جنم لیا۔

یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

جیمز جینز کاکہناہے کہ زندگی کی ابتداءمیں  ایسے چھوٹے چھوٹے نامیاتی اجسام پیداہوئے ،جن کی استعداد صرف اتنی تھی کہ وہ خود ختم ہونے سے پہلے اپنے جیساایک اور جسم پیدا کر سکتے تھے۔ارتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد آہستہ آہستہ یہ اجسام پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے گئے اور یوں  انسان وجود میں  آگیا۔ایسا انسان جو سوچنے کی صلاحیت سے بھی مالا مال تھا ،محسوس بھی کرسکتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس انسان نے اپنی بقاء کے لیے قبائل کا تصور اپنا لیا۔ آگ دریافت کرلی۔ بستیاں ایجاد کرلیں ۔ زبانیں بولنے گا۔ جسم ڈھانپنے کے لیے  لباس ڈھونڈا۔ روح کو تسکین کے پیرائے میں  ڈھالنے کے لیے مذہب کاطلب گار ہوا۔

  ایسا کب ہوا؟ کیوں  ہوا ؟کیسے ہوا ؟ان سوالات کے جواب میں  سر جیمز جینز کی یہ تھیوری بھی خاموش ہے۔جیمزجینز اس آرٹیکل میں  متعدد بار یہ وضاحت بھی پیش کرتا ہے کہ

” ہمیں  معلوم نہیں  کہ واقعتا ایسا ہوا تھا یا نہیں ،لیکن قیاس ہے کہ ایسا ہوا ہوگا“

یہ آرٹیکل پڑھاتو مجھے اپنے استادِمحترم یاد آگئے جو،زمانے کی ایک طویل حدِفاصل کے پیچھے ،مسکراتے ہوئے میٹھے دھیمے لہجے میں  سرگوشی کر رہے تھے:

”اسد!یہ بتا،کہ بِگ بینگ کو ہم کیاکہتے ہیں ؟“

ایک عمر کی ریاضت گویااختتام کو جاپہنچی تھی۔سوالات لاحاصل نہیں  رہے تھے۔ہر ایک کا تسلی بخش اور تشفی آمیز جواب مل گیاتھا۔سو،میں  بے اختیار مسکراتے ہوئے پکار اُٹھا:

"کن فیکون!"

مقبول ترین بلاگ یہ رہے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے