Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

جسے آشناؤں کا پاس تھا (بِلّا بازی لَے گیا)

کالم نگاری، دسمبر شاعری، نیا سال شاعری، تیری جوانی شاعری، اردو نستعلیق، اردو فونٹ، جمیل نوری نستعلیق، نوری نستعلیق، Mujeeb, Mujeeb ur Rehman, Sir Mujeeb ur rehman, Jisay Aashnaon ka paas tha, episode 2, nawaiwaqt columns, daily jang columns, sohail warraich urdu columns, express columns, columnist, independent urdu, asad Mahmood, dunya newspaper, javed ch latest column, sohail warraich columns, fifth column, adventure, Asad, Columns, Urdu, Urdu Columns, Comics, Urdu Comics, Comedy, Urdu Comedy, urdu column kaar, urdu column today, urdu column daily, columnist, column ghar, column writing, funny columns, funny columns in urdu,funny column ideas, funny column names, funny column titles, funny column writers, funny column examples, urdu poetry, urdu stories, urdu kahani, urdu columns, urdu columns today, urdu columns daily, urdu columns of hassan nisar, urdu columns of orya maqbool jan, urdu columnist job, urdu colors, urdu columns javed ch, urdu columns hamid mir, columns pk, dawn urdu, dawn editorial, اسد، محمود، اسد محمود، اردو، کالم، اردو کالم، مزاح، اردو مزاح، جاوید چودھری، عطاالحق قاسمی، ابنِ انشاء، پطرس بخاری، کرنل محمد خان، شفیق الرحمٰن، مجیب الرحمٰن، مجیب الرحمان، تعزیتی کالم، سر مجیب الرحمٰن، جسے آشناؤں کا پاس تھا، جسے آشناؤں کا پاس تھا وہ وفا شعار چلا گیا، قسط دوم

جماعت ہفتم میں  تو اُنہوں  نے واقعی سائنس پڑھانے کاحق اَدا کر دیا۔ دل کی ساخت جیسامشکل موضوع انتہائی زیرک پن اور باریکی سے قریباََ کوئی ڈیڑھ ماہ تک ہمیں  سمجھاتے رہے۔تختہ ءِسیاہ پر تصاویر بنائیں، ہسپتالوں  سے دل کے ماڈل لا لا کر دکھائے اور ایسا پڑھایاکہ بس جیسے حفظ ہی کرا ڈالا۔

سر مجیب بنیادی طور پر ریاضی کے لیکچرر مشہور تھے۔ وہ آمدِسرما کے دن تھے۔سارا آسمان بادلوں  سے ڈھکا ہوا تھا۔فرش تا عرش بوندا باندی نے ایک سفید ململ کی چادر سی تان رکھی تھی۔میں  ہفتم جماعت کا مانیٹر تھا۔کسی کام سے سٹاف روم کی طرف جاناہواتو کیا دیکھتا ہوں  کہ سر مجیب اور سر فاروق (جو عربی کے لیکچرر تھے)بڑی شدّومد سے کسی بحث میں  مصروف ہیں۔مجھے معلوم نہیں  پڑ رہا تھاکہ موضوعِ گفتگو کیا ہے۔ اتنے میں  سر مجیب نے ایک دُور کھڑے اُستاد کو پُکار کر کہا

”جناب!فاروق صاحب کہہ رہے ہیں  کہ آخرت میں  عربی ہوگی جبکہ میں  کہتا ہوں  کہ حساب ہو گا۔ اب آپ ہی بتائیں  کہ روزِمحشر عربی ہوگی یا حساب؟“

میں  اُن کی اِس بات پر بے ساختہ مسکرا اُٹھا اور دل ہی دل میں  سوچا کہ

 ”آخرت میں  ہو گا تو حساب لیکن عربی میں  “۔

   میرے سر مجیب سے ”یارانے “ کا یہ دوسرا دَور تھا۔ہفتم کے سالانہ امتحانا ت قریب تھے ۔ اُس وقت تک میں  سر مجیب کی نظروں  میں  ایک امتیازی طالبعلم کی حیثیت حاصل کر چکا تھا۔سر مجیب نے ہمیں  کافی دن پہلے ہی سلیبس مکمل کرا دیا تھااور اب وہ ہمیں  روزانہ کچھ نہ کچھ موضوعات یاد کرنے کے لیے ہوم ورک کے طور پر دیتے تھے۔ ایک دو انشائیہ سوالات کے ساتھ ساتھ ہر باب کے آخر میں  دیے گئے دس پندرہ معروضی سوالات بھی روزانہ تیار کرنے کو دیئے جاتے ۔وہ معروضی سوالات میں  کسی غلطی کے رَوادار نہ تھے لیکن گزشتہ دن کا سبق اُنہوں  نے کبھی نہیں  سُنا۔

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

کتاب مکمل ہونے سے ایک دو دن پہلے ایسا ہوا کہ میں  بھونچکا رہ گیا۔اُس دن ایسا ہوا کہ اُنہوں  نے انشائیہ سوالات چیک کرنے کے بعدمعروضی سوالات سُننے شروع کر دیئے۔ وہ ہر طالب علم سے دو دو معروضی سوالات سُنتے، درست ہونے پر شاباش اور غلط ہونے پر سزا دیتے ،میرے پاس آپہنچے۔ اِتفاق سے میں  آخر میں  کھڑا تھا۔ اُنہوں  نے ایک سوال پوچھا۔ میں  نے جواب دیا۔ دوسرا، پھر تیسرا، وہ ایک ایک کر کے سوالات پوچھتے رہے،میں  جواب دیتا رہا۔ انہوں  نے خلاف ِمعمول کئی گزشتہ ابواب کھنگال ڈالے۔ میں  کئی ایک سوالات پر لڑکھڑایا،گھبرایالیکن اُن کے ہاتھ میں  لہراتی لاٹھی دیکھ کر فَر فَر جواب دیتا رہا۔ بالآخرانہوں  نے کئی ابواب کی ”دُہرائی“ کرانے کے بعد ایک ”اُچٹتی“ نگاہ مجھ پر ڈالی۔ اَگلے دن کے لیے سبق دیا اور یہ جا وہ جا،کلاس سے نکل گئے۔ میں  کافی دیر تک پسینے میں  شرابور وہیں  کھڑا سر کے اِس عجیبرویے ّ پر غور کرتارہا۔ کافی عرصہ تک جب بھی یہ واقعہ میرے ذہن میں  اُبھرتا،میں  ایک عجیب شش وپنج میں  مبتلا ہو جاتاکہ سر نے میرے ساتھ ایسا کیوں  کیا؟ وہ تو بعد میں  کہیں  جاکر سمجھ   میں  آیاکہ :

مکتبِ عشق کا دَستور نرالا دیکھا

اُس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا

 ادبی ویڈیوز اور وی لاگز  یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

”ہاں  بیٹا! بتا،تم لوگوں  نے سائنس کا کتنا سلیبس پڑھ لیاہے؟“

میں  نے اُنہیں  اِس بات سے آگاہ کیاکہ ہم نے تو اَبھی کچھ بھی نہیں  پڑھاکیونکہ ہمارے سر بیمار ہو کر چھٹی پر چلے گئے ہیں  اور پھر میں  نے وہ سُنا کہ جس کی مجھے ہر گز اُمید نہ تھی کیونکہ ہمارے سرکاری سکول میں  تو مختلف سیکشنز کے وہ اساتذہ جو ایک ہی مضمون پڑھاتے تھے، اُن میں  ایک سخت رقابت کا عنصر پایا جاتاتھالیکن یہ بھی سر مجیب کا ہی خاصہ تھا کہ اُ نہوں  نے مجھے حُکم دیا کہ کل سے سائنس کی کلاس میں  پورا 'سی سیکشن' ہشتم-بی کی کلاس میں  آکر سائنس پڑھے گا۔ ہمارے سر کی واپسی تک اُنہوں  نے ہمیں  چار یا پانچ ابواب پڑھائے۔ کلاس ٹیسٹوں  میں  بھی ہمارے سیکشن کو اپنی کلاس کے ساتھ ساتھ رکھااور کسی قسم کا کوئی امتیاز رَوا نہ رکھا۔

  میری سبز آنکھیں  دیکھی تو سبھی نے تھیں  لیکن جیسی” داد“ سر مجیب نے دی، ویسی کسی نے نہ دی ۔ہشتم کے شروع میں  اُنہوں  نے سبز آنکھوں  کی وجہ سے مجھے ”بِلّا“کا لقب دے ڈالا۔ ہشتم کا پورا سال اور نہم کے آدھے سال تک میں  اُن کے لیے ”بِلّا“ہی رہا۔

یہ بھی پڑھیے:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

جماعت ہشتم میں  گرمیوں  کی چھٹیوں  میں  اُنہوں  نے ایک مقابلہ منعقد کرایاکہ چھٹیوں  تک ہم نے سائنس کا جو سبق بھی پڑھاہے وہ ایک نئی نوٹ بُک پہ لکھ کر لانا ہے اور ساتھ میں  تمام ڈایا گرامز بھی لیبل کر کے لانی ہیں ۔ چھٹیاں  ختم ہوئیں  تو اُن کے ”بی-سیکشن“میں  سے کوئی آٹھ یا دس طلباءنے اپنی کاپیاں  اِس مقابلے کے لیے پیش کر دیں ۔سر مجیب خود چل کر میری کلاس میں  میرے پاس آئے اور مجھ سے میری کاپی مانگی۔ میں  نے کاپی اُنہیں دے دی۔ ہمارے ٹیچر واپس آچکے تھے لیکن اُنہوں  نے یہی فیصلہ کیا کہ ہماری کلاس چھٹیوں  سے پہلے والی روٹین پر ہی چلتی رہے اور آخری چند ابواب وہ دونوں  سیکشنز کو اسی طرح پڑھا دیں  گے جیسے سر مجیب ابتدائی ابواب پڑھا رہے تھے۔ بہر حال، اگلے دن دونوں  ٹیچر ”ہشتم-بی“میں  اکٹھے تھے۔ ہم سب بھی وہیں  تھے۔سر مجیب نے سر ظفر کو کوئی سر گوشی کی اور اُنہوں  نے بلند آواز میں  سر مجیب کی طرف سے منعقدہ مقابلے کے نتائج کا اعلان کیاجس میں  مجھے پہلی پوزیشن کا حق دار قرار دیا گیا۔میری کاپی میں  سر مجیب کی طرف سے دیئے گئے تیس روپے تھے اورکاپی کے سَر ورق پر اُنہی کے ہاتھوں  سے لکھا گیا ایک جملہ جگمگا رہا تھا:

”بِلّا بازی لَے گیا“

اِس سلسلے کی بقیہ دونوں اِقساط ملاحظہ فرمائیں:

جسے آشناؤں کا پاس تھا (قسط اوّل)

جسے آشناؤں کا پاس تھا (قسط سوم)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے