Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

جسے آشناؤں کا پاس تھا ( اے رُوز گار! کیوں تِری گردش نہ تھم گئی)

کالم نگاری، دسمبر شاعری، نیا سال شاعری، تیری جوانی شاعری، اردو نستعلیق، اردو فونٹ، جمیل نوری نستعلیق، نوری نستعلیق، Mujeeb, Mujeeb ur Rehman, Sir Mujeeb ur rehman, Jisay Aashnaon ka paas tha, nawaiwaqt columns, daily jang columns, sohail warraich urdu columns, express columns, columnist, independent urdu, asad Mahmood, dunya newspaper, javed ch latest column, sohail warraich columns, fifth column, adventure, Asad, Columns, Urdu, Urdu Columns, Comics, Urdu Comics, Comedy, Urdu Comedy, urdu column kaar, urdu column today, urdu column daily, columnist, column ghar, column writing, funny columns, funny columns in urdu,funny column ideas, funny column names, funny column titles, funny column writers, funny column examples, urdu poetry, urdu stories, urdu kahani, urdu columns, urdu columns today, urdu columns daily, urdu columns of hassan nisar, urdu columns of orya maqbool jan, urdu columnist job, urdu colors, urdu columns javed ch, urdu columns hamid mir, columns pk, dawn urdu, dawn editorial, اسد، محمود، اسد محمود، اردو، کالم، اردو کالم، مزاح، اردو مزاح، جاوید چودھری، عطاالحق قاسمی، ابنِ انشاء، پطرس بخاری، کرنل محمد خان، شفیق الرحمٰن، مجیب الرحمٰن، مجیب الرحمان، تعزیتی کالم، سر مجیب الرحمٰن، جسے آشناؤں کا پاس تھا، جسے آشناؤں کا پاس تھا وہ وفا شعار چلا گیا، قسط اوّل

معلوم نہیں  ایسا کیوں  ہے لیکن مجھے ہمیشہ سے یوں  لگتا ہے کہ جب بھی کوئی اَنہونی ہونے لگے، شام کے وقت آسمان پر پھیلنے والی شفق کی سُرخی بہت بڑھ جاتی ہے۔بڑے بوڑھوں  سے تو یہ بھی سُنا ہے کہ اُن کے دَور میں  جب کوئی اَنہونی ہونے لگتی تھی تو سُرخ آندھی چلا کرتی تھی۔ بزرگوں  کے بقول اب وہ آندھی ہمارے اعمال کی وجہ سے نہیں  چلتی کیونکہ شاید وہ ہمارے گناہوں  کی ”آندھی “کے سامنے ہیچ ہے لیکن مجھے تو ہر وہ چیز اَنہونی کے ہونے کا پتا دیتی ہے جو معمول سے زیادہ سُرخی مائل ہو۔آتشی رنگ مجھے تو ہمیشہ سے ڈرا دینے والے اور قہر برسانے والے ہی لگے ہیں ۔

  وہ دن بھی ایسا ہی تھا۔گو کہ میں  دیکھ نہیں  سکا لیکن مجھے یقین ہے کہ اُس دن بھی شفق کی سُرخی معمول سے کئی گُنا زیادہ پھیلی ہوگی اور اسی پہ کیا منحصر، ہوسکتاہے کہ اُس دن سارا آسمان ہی سُرخ سُرخ ہو گیا ہو، کیونکہ وہ اَنہونی بھی تو کوئی عام نہیں  تھی۔ شام کے ساڑھے چار یا شایدساڑھے پانچ بجے کا وقت تھا کہ ایک عزیز دوست نے موبائل فون پر پیغام بھیجاکہ

”ہمارے اور آپ کے سر مجیب الرّحمٰن خالقِ حقیقی سے جا مِلے، اِنَّاﷲ ِوَ اِنَّااِلَیہ ِرَاجِعُون!“

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

کتنے ہی لمحے یوں  ہی ساکت گزر گئے۔سر مجیب نہیں  رہے،چلے گئے لیکن یہ بھَلا کیسے ہو سکتا ہے؟یہ پیغام غلط فہمی پر مبنی بھی تو ہو سکتا ہے لیکن مِرے خیالات کی رَو فون کال سے ٹوٹ گئی۔دوسری طرف ایک اور دوست تھا۔ اُس نے بھی یہی بتایا۔ ساتھ ہی اگلے دن اُن کے جنازے کے وقت سے بھی آگاہ کیا لیکن میں  اتنا قریب نہ تھا کہ پہنچ پاتا۔ مِرے دل و دماغ میں  بس ایک ہی گردان جاری تھی۔ سر مجیب چلے گئے لیکن کیسے؟فرشتہ صفت انسان یا انسانی شکل میں  فرشتہ۔خدمت ِخلق میں  اَوجِ کمال پر فائز سر مجیب یوں  سینکڑو ں  ہزاروں  لوگوں  کو سوگوار چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں ؟ وہ شخص جو کسی بچے کی ایک مسکراہٹ کے لیے کیا کیا جتن نہیں  کرتا تھا۔ یہ دیکھے بنا کہ وہ بچہ کسی اَمیر کا ہے یا غریب کا۔  جس کے لیے ہر بچہ اَپنا بچہ تھا۔ وہ بھَلا کیسے چلاگیا؟وہ کیسے جا سکتا ہے؟اُس دن حقیقتاََ مجھے اِس شعر کے مفہوم کا صحیح اندازہ ہوا:

کیا لوگ تھے کہ جو غمِ جاناں  میں  مَر مِٹّے

اے رُوزگار!کیوں  تِری گردش نہ تھم گئی

ادبی وی لاگز  یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

  سر مجیب سے میرا ”یارانہ“ قریباََ دَس برس پراناتھا۔یہ وسط 2000ءکی بات ہو گی جب مجھے اپنا گاں  والے ”مکتب نما“سکول سے ملہال مغلاں  پرائمری سکول میں  داخل کرایا گیا۔میں  گاں  کے سکول میں  جماعت دوم میں  تھااور خوش قسمتی سے مجھے گورنمنٹ ہائی سکول ملہال مغلاں  میں  بھی دوم جماعت میں  ہی بٹھایا گیا۔گرمیوں  کی چُھٹیاں  انہی دنوں  میں  ختم ہوئی تھیں ۔ نئے سکول میں  مجھے قدم جمانے میں  ایک دو ماہ لگے، پھر ہمارے کلاس ٹیچر (محترم واجد حسین ؒمرحوم صاحب)مابدولت کو امتیازی طالبعلموں  میں  شمار کرنے لگے ۔

   انہی دنوں سر مجیب کو میں  نے پہلی مرتبہ دیکھا۔ چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی اورایک میٹھی مُسکان لیے۔باقی تمام کلاس کی طرح وہ مجھے بھی بے حد اَچھے لگے۔وہ ہمیں  جماعت دوم میں  انگریزی پڑھانے پر معمور کیے گئے۔اُن کا انگریزی پڑھانے کا انداز انتہائی دلچسپ تھا۔وہ قاعدے سے ہمیں  روزمرہ کا سبق پڑھاتے اور پھر اُسی سبق کے حوالے سے کتاب پر بنی ہوئی تصاویر تختہ ءِسیاہ پر بناکرہمیں  بھی اپنی اپنی سلیٹوں  پر وہ تصاویر بنانے کو کہتے۔ ہم سب کو وہ خوب بھَانے لگے ۔اگر کچھ لڑکوں  کو گزشتہ روزکا سبق نہ یاد ہوتاتووہ انہیں  مرغا بناکر دلچسپ دلچسپ سزائیں  دیتے۔ ان سزاں  سے نہ صرف ہم باقی طلباءہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے بلکہ سزا پانے والوں  کے قہقہے بھی نہ تھمتے۔

   نجانے یہ میری بد قسمتی تھی یا کچھ اَور کہ جماعت دوم میں  گو کہ مجھے سر مجیب کے مضمون کا سبق یاد ہوتا تھا لیکن میں  دیگر اساتذہ کی طرح اُن کے سامنے کچھ نمایاں  نہ ہو سکا اور کچھ امتیاز حاصل نہ کر سکا۔ مجھے بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ سر مجیب سے ”یارانے“ کا یہ ابتدائی حصہ محض میرے ہی حافظے میں  محفوظ تھااور سر مجیب کو اِس بات کی چنداں  خبر نہ تھی کہ ہائی سکول میں  اُن کا ایک ہونہارشاگرد کچھ برس قبل پرائمری سکول میں  بھی اُن سے پڑھ چکا تھا۔

یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

  جماعت دوم میں  مجھے وہ دن بھی اَچھی طرح یاد ہے کہ نجانے کیسے میں  ایک دن انگریزی کا قاعدہ گھر ہی بھُول گیا۔سر مجیب اُس دن کچھ ”موڈ“میں  نہیں  تھے۔جب وہ سبق پڑھا چکے اور ہمیں  اُس کی گردان کا کہہ کر خود کلاس میں  اِدھر اُدھر چکر لگانے لگے تو اچانک اُن کی نظر مجھ پر پڑی:

”تمہارا قاعدہ کہاں  ہے؟“

 میں  اُن کے لہجے سے سہما تو ضرور مگر یہ معلوم تھاکہ وہ نہایت شفیق اُستاد ہیں ،میں  نے اُن کی طرف دیکھا:

”سر !گھر رَہ گیا ہے“

اُنہوں  نے میری بات سنی اور چٹاخ سے ایک زور دار تَھپڑ میرے چہرے پر دے مارااور یہ جا وہ جا ،کلاس سے ہی نکل گئے۔میں  چھوٹے سے بینچ پر چکرا کر گرالیکن پھر فوراََ ہی اُٹھ کر بیٹھ گیا۔مجھے سر مجیب سے اِس سخت رویے ّ کی توقع تو نہ تھی مگر اِس واقعے کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ اِس کے بعد شایدہی میں  کوئی قاعدہ گھر بھُولا۔ دو تین ماہ تک ہمیں  پڑھانے کے بعد سر مجیب ہائی سکول چلے گئے اور اُن سے ”یارانے“کا ایک دَور میرے دل میں  دفن ہوگیا۔

   پرائمری سکول پاس کرنے کے بعد جب میرا داخلہ ہائی سکول میں  ہوا ،جو ہمارے پرائمری سکول کے بالکل سامنے ہی،سڑک پار واقع تھاتو قریباََ ایک سال تک سر مجیب کو ہماری کوئی کلاس نہ دی گئی البتہ ساتویں جماعت میں  جب اُنہوں  نے پہلے دن ہمیں  سائنس پڑھانے کے لیے ہمارے کمرہ ءِجما عت میں  قدم رکھا تو میں  بے ساختہ کِھل ہی تو اُٹھا تھا۔سر مجیب نے پہلے لیکچر میں  ہمیں  ”جانوروں  کی حرکت اور پودوں  کے جمود“سے متعلق وہ دلچسپ مثالیں  دیں  کہ ساری کلاس بے ساختہ کھلکھلاکھلکھلا کر ہنستی رہی۔اُس دن مجھے احساس ہوا کہ سر مجیب ہر عمر کے بچوں  کے مزاج کے مطابق پڑھانے کا نہ صرف سلیقہ رکھتے ہیں  بلکہ ہر عمر کے بچوں  کے مزاج کے بہت سارے لطیفے ہر وقت اُ ن کے پاس موجود رہتے ہیں  ،جس کی وجہ سے وہ کبھی کسی بچے کو بوریت کا شکار نہیں  ہونے دیتے۔

بقیہ دو اِقساط ملاحظہ فرمائیں:

جسے آشناؤں کا پاس تھا (قسط دوم)

جسے آشناؤں کا پاس تھا (قسط سوم)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے