Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

جسے آشناؤں کا پاس تھا ( اِنَّاﷲ ِوَ اِنَّااِلَیہ ِرَاجِعُون!)

 

کالم نگاری، دسمبر شاعری، نیا سال شاعری، تیری جوانی شاعری، اردو نستعلیق، اردو فونٹ، جمیل نوری نستعلیق، نوری نستعلیق، Mujeeb, Mujeeb ur Rehman, Sir Mujeeb ur rehman, Jisay Aashnaon ka paas tha, episode 3, nawaiwaqt columns, daily jang columns, sohail warraich urdu columns, express columns, columnist, independent urdu, asad Mahmood, dunya newspaper, javed ch latest column, sohail warraich columns, fifth column, adventure, Asad, Columns, Urdu, Urdu Columns, Comics, Urdu Comics, Comedy, Urdu Comedy, urdu column kaar, urdu column today, urdu column daily, columnist, column ghar, column writing, funny columns, funny columns in urdu,funny column ideas, funny column names, funny column titles, funny column writers, funny column examples, urdu poetry, urdu stories, urdu kahani, urdu columns, urdu columns today, urdu columns daily, urdu columns of hassan nisar, urdu columns of orya maqbool jan, urdu columnist job, urdu colors, urdu columns javed ch, urdu columns hamid mir, columns pk, dawn urdu, dawn editorial, اسد، محمود، اسد محمود، اردو، کالم، اردو کالم، مزاح، اردو مزاح، جاوید چودھری، عطاالحق قاسمی، ابنِ انشاء، پطرس بخاری، کرنل محمد خان، شفیق الرحمٰن، مجیب الرحمٰن، مجیب الرحمان، تعزیتی کالم، سر مجیب الرحمٰن، جسے آشناؤں کا پاس تھا، جسے آشناؤں کا پاس تھا وہ وفا شعار چلا گیا، قسط سوم

اِس سلسلے کی پہلی دونوں اِقساط یہ رہیں:

جسے آشناؤں کا پاس تھا (قسط اوّل)

جسے آشناؤں کا پاس تھا (قسط دوم)

  ہشتم میں  ہمارے ریاضی کے لیکچرر کی ایک ہفتے کی چھٹی کے دوران سر مجیب نے ہمیں  ”ہشتم -اے“کے ساتھ ریاضی بھی پڑھائی۔ جیومیٹری کی مشکل اشکال اُنہوں  نے اَحسن اَنداز میں  ہمیں  سمجھا دیں ۔ہشتم میں  ہمارا امتحان بورڈ کا تھا۔سر مجیب نے ہشتم کے تینوں  سیکشنز میں  جاکر اعلان کیا کہ اِس بار جو طالبعلم تینوں  سیکشنز میں  مجموعی طور پر پہلی تین پوزیشن حاصل کریں  گے،وہ اُنہیں  خصوصی انعام دیں  گے۔امتحانات ہوئے۔نتیجہ نکلا تو میں  پہلی پوزیشن کاحقدار قرار دیا گیا۔ہماری نہم کی کلاسزشروع ہوئیں  ،ختم ہوگئیں  مگر میں  اُس انعام کا منتظر رہاجس کا اعلان سر مجیب نے کیا تھالیکن وہ نہ ملا۔بہت عرصہ بعد جب میں  نے اُس خصوصی انعام کے بارے میں  سوچا تو مجھے اِدراک ہوا کہ وہ خصوصی انعام تو اُ ن کی محبت تھی جو مجھے دیکھ اُن کی آنکھوں  سے جَھلکتی تھی ،جو اُنہیں  سامنے مُسکراتاپا کر میری رُوح تک کو سر شار کر دیتی تھی۔ ہاں !بھَلا محبت سے بڑااورخصوصی انعام ایک ادنیٰ شاگرد کے لیے ،ایک اعلیٰ اُستاد کی طرف سے اَور کیا ہوگا؟ا

  اﷲتعالیٰ نے میٹرک میں  بھی مجھ بے خانماں  پر اپنا کرم کیا اور میں  امتیازی نمبر لے کر پاس ہوا۔اساتذہ سے مشورے کے بعد میں  نے کلر کہار کے ایک پرائیویٹ کالج میں  داخلہ لے لیا۔ کالج اور ہاسٹل کی فیس میرے لیے بہت زیادہ تھی۔ میرے امتیازی نمبروں  کو دیکھتے ہوئے کالج انتظامیہ نے کچھ رعایت کی اور ٹیویشن فیس معاف کردی لیکن ہاسٹل کے لیے بھی تین ہزار روپے ماہانہ اَدا کرنابھی میرے لیے اِتنا آسان نہ تھا۔ ایسے میں  سر مجیب آگے بڑھے اور اُنہوں  نے مجھے ایک ہزار روپے ماہانہ دینے شروع کردیئے اور تب تک دیتے رہے جب تک کہ سالِ دوم کے دوران میرے سالِ اوّل کے سالانہ امتحانات کانتیجہ نہیں  آگیاجس میں  اعلیٰ کارکردگی پر کالج انتظامیہ نے میری ہاسٹل فیس بھی معاف کر دی لیکن کیا کہنے سر مجیب کے خلوص کے،کہ اِ ن ڈیڑھ دو برس میں .مجھے قطعی یہ احساس نہیں  ہونے دیا کہ یہ روپے مجھے وہ دے رہے ہیں۔ وہ ایک اور اُستاد کے توسط سے یہ سب مجھ تک پہنچاتے رہے اور صرف مجھی پرکیا منحصر، ہمارے علاقے میں  ہزاروں  نہیں  تو سینکڑوں  ایسے طالبعلم موجودہیں ،جن کی بلواسطہ یا بلا واسطہ مالی مدد سر مجیب کر رہے تھے۔بعض اوقات تومجھے یوں  لگتا ہے کہ اگر خدمت ِخلق ہی ولایت کاواحد پیمانہ ہے تو پھر اُن سے بڑا ”وَلی“میں  نے آج تک نہیں  دیکھا۔

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

   FScکے بعد میں  نے انجینئرنگ یونیورسٹی میں  داخلہ لینے کے لیے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کا سوچا۔اساتذہ سے مشورہ کیا۔قرعہ فال KIPSراولپنڈی کے نام نکلا۔میرے والد میرے ساتھ پیسے لے کر ہائی سکول پہنچے جہاں  میرے چند اساتذہ موجود تھے۔سر مجیب نے مجھے راولپنڈی اکیڈمی اور ہاسٹل چھوڑنے جاناتھا۔ہم سب سکول کے گرانڈمیں  جمع تھے کہ باہر روڈ سے کسی بارات کے گزرنے کی آوازیں  لگیں۔ سر مجیب نے مُسکراتے ہوئے میری جانب دیکھا:

”بیٹا!پہلے پڑھائی،اعلیٰ مقام اور پھر یہ.....“

اُن کا اشارہ سمجھ کر میں  کسمسا کر رہ گیاجبکہ باقی لوگوں  نے ایک قہقہہ بلند کیا۔اِسی طرح ہنستے مسکراتے انہوں  نے راولپنڈی KIPSمیں  میرا داخلہ کرایاپھر ہاسٹل دلوایا۔اکیڈمی اگلے روز کے لیے بند تھی۔ سو، میں  اُن کے ساتھ واپس گھر آگیا۔اگلے دن صبح جب میں  گاڑی میں  بیٹھا توسر مجیب بھی وہاں  آ پہنچے۔ انہو ں  نے بقایا رقم میرے حوالے کی :

”بیٹا!کل آپ کے ابو نے جو پیسے دیئے تھے، اُن میں  سے یہ بچ گئے تھے“

میں  بے ساختہ اُن کے گلے لگ گیا،انہوں  نے شفیق بزرگوں  کی طرح دُعادی اور گاڑی راولپنڈی کی طرف چل دی۔

ادب سے متعلقہ دل چسپ ویڈیوز اور وی لاگز  یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

  راولپنڈی ہاسٹل میں  پانی کمیاب تھا۔شدید گرمی بھی تھی۔ چند ہفتوں  بعد میں  شدید بیمار ہو کر گھر آگیا۔سر مجیب کو خبر ہوئی تو اُنہوں  نے رات کے وقت ہی مجھے فون کیا ۔خیریت دریافت کی۔ میں  نے بتایاکہ اب بہتر ہوں ۔ اُنہوں  نے مجھے اپنے راولپنڈی والے گھر رہائش کی پیشکش بھی کی۔ میں  نے شکریئے کے ساتھ معذرت کر لی لیکن اُن کا یہ بے پناہ خلوص ہمیشہ میرے ہم قدم رہا۔ میں  اِس بات کا اعتراف کرنے میں  کوئی عار محسوس نہیں  کرتا کہ مجھ ناچیز نے جو بھی چند کامیابیاں  حاصل کیں۔ اُن میں  سر مجیب کے پیار ،محبت اور خلوص کابرابر کا حصّہ ہے۔اُن سے وابستہ یادیں میرے دل کے دریچوں  میں ہمیشہ جگنو بن کراس کو جگمگاتی رہیں  گیااور میری زندگی میں  بھی تاابد اُجالا سااُجالا بکھیرتی رہیں  گی۔

  کالج کے دَور میں  یا اِس کے بعدبھی جب کبھی میں  اُن کوسکول میں  ملنے گیا،اُن کی اپنائیت اور محبت میں  پُور پُور ڈوباواپس آیا۔بوقت ِرُخصت، نئے کپڑے تو کبھی نئے سویٹر میرے ساتھ ہوتے۔نجانے یہ اَجل ہمیشہ سے اُن اِنسانوں  کے تعاقب میں  کیوں  رہی ہے جو انسان کی حقیقی تصویر اور انسانیت پر مان کی وجہ ہوتے ہیں ۔شاید بڑے بوڑھے درست ہی کہتے ہیں  کہ اَچھے اور نیک اِنسان کی ”وہاں “ بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

اِس سال (2012ء)میں  میٹرک کے امتحانات میں  ان کی پریکٹیکل لینے کی ڈیوٹی چکوال کی تحصیل چوآسیدن شاہ میں  لگائی گئی۔ایک سہ پہر کو وہ اپنے ڈرائیور اور ایک دوسرے دوست اُستاد کے ساتھ وہا ں  سے واپس آرہے تھے کہ کوئی موڑ مڑتے ہوئے ایک ٹرک اچانک سے گاڑی کے سامنے آگیا۔ڈرائیور نے بہت کوشش کی لیکن گاڑی کو نہ بچاپایا۔ سر مجیب ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ڈرائیور اور دوسرے اُستاد کا بال تک بیکا نہ ہوالیکن سر مجیب اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اِنَّاﷲ ِوَ اِنَّااِلَیہ ِرَاجِعُون!

  اُن کی رِحلت کے کچھ عرصہ بعد فاتحہ خوانی کے لیے اُن کے گھرجاناہواتو اُن کے ضعیف والد سے ملاقات ہوئی جوفالج کے مریض ہیں ۔ اُن کی آنکھوں  کے گوشے بار بار بھیگے جارہے تھے۔ اُنہوں  نے بتایاکہ وہ اعلیٰ اَوصاف شخص، جو اَب ہم میں  نہیں  رہا، اَبھی تک راہِ علم میں  گامزن تھا۔ ایم-اے مطالعہ پاکستان کر چکنے کے بعد اب شاید وہ ایم -اے اُردو یا اِسلامیات کی تیاری کر رہے تھے۔

”گود سے گور تک علم حاصل کرو“

کا سب سے اعلیٰ مظہر بھی بھَلا سر مجیب کے علاوہ اَور کون ہو سکتا تھا؟ اُن کے بڑے بھائی سے بھی ملاقات ہوئی۔ انہوں  نے سر مجیب کے بارے میں  جو جملہ کہا، وہ میر ے دل پر نقش ہو کر رہ گیاہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ:

”وہ مجھ سے چھوٹا تھا لیکن اَب معلوم ہوا ہے کہ وہ تو بہت بڑا تھا، ہم سب سے بڑا، چھوٹے تو ہم ہیں “

اِس سلسلے کی بقیہ دونوں اِقساط ملاحظہ فرمائیں:

جسے آشناؤں کا پاس تھا (قسط اوّل)

جسے آشناؤں کا پاس تھا (قسط دوم)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے