کچھ
عرصہ قبل عصرِ حاضر کے مشہور مزاح نگار،ادیب اور شاعر گُلِ نوخیز اختر کا ایک کالم
بعنوان”سبحان ﷲ“نظروں سے گزرا۔جس میں
انہوں نے
میٹرک کے طلباءکی ”شعر فہمی“ اور ان کی طرف سے اُردو کے ایک ٹیسٹ میں اشعار
کی تشریح کا حشر نشر کیے جانے کے بارے میں
بتایا تھا۔اس کالم کو پڑھنے کے بعد
ہمیں اِدراک ہوا کہ کسی دَور میں مابدولت بھی ”اتنی اچھی“ نہ سہی لیکن کافی اچھی
تشریح کرتے رہے ہیں ۔لہٰذا کیوں نہ اس موضو ع پہ پھر کچھ لکھا جائے کہ میٹرک کے
طلباءنے اشعار کی تشریح کا ستیا ناس کرنے کا کوئی ٹھیکہ تو نہیں لے
رکھااور یہ بھی کہ
”یہی چراغ جلیں
گے تو روشنی ہوگی“
سو،
ہم نے پہلی فرصت میں مارکیٹ میں
دستیاب تمام خلاصہ جات کا جائزہ
لیا اور اِس نتیجہ پر پہنچے کہ دَورِ حاضر کے تشنگانِ علم کی پیاس کو بجھانے کے
لیے کوئی بھی قابلِ قدر کتاب موجود نہیں ہے،لیکن ، ہم نے ایسی تمام مشکلات کو حل کرنے کے
لیے ایک نیا خلاصہ ترتیب دیاہے ۔ اب پیشِ خدمت ہے ،”اعمالِ صالحہ “ اور اشعار کی
تشریح کو سدھارنے اور سِدھانے کا بیش قیمت حل،”گُلو خلاصہ“،جو شعر فہمی اور کج
فہمی ایسے دیگر تمام مسائل سے آپ کی گلو خلاصی کرا دے گا۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
”گُلو
خلاصہ “کی چیدہ چیدہ خصوصیات بھی لگے ہاتھوں
دیکھ لیں تاکہ
آپ کو اندازہ ہو کہ ہم کس قدر علم اور ادب دوست ہیں :
-1آپ
نے اکثر طالب علموں کو اِس بات کی شکایت کرتے دیکھا ہوگا کہ وہ درسی
کتب یا خلاصہ جات میں جو کچھ پڑھتے ہیں ۔ وہ انہیں یاد
نہیں رہتا ۔سو، ہم نے اِس خلاصے میں کوئی
ایسا شعر لکھا ہی نہیں ہے جس کہ صحیح صحیح تشریح کی گئی ہو یعنی اب اگر
کسی کو کچھ یاد نہیں رہتا تو بالکل بے فکر ہوجائے کیونکہ اُسے سب کچھ
بھول جانے کی صورت میں بھی کچھ نقصان نہیں ہوگا۔
-2کمزور
اور کم ذہین طلباءکے لیے ایک اور خوش خبری یہ بھی ہے کہ وہ ذہین طلباءجو خلاصہ جات
کو طوطے کی رَٹ کے نمبر لے لیتے ہیں ۔ اِس خلاصہ کے مطالعہ اور اپنی بے پناہ حسِ
رَٹابازی کے باوجود بھی وہ اُن سے زیادہ نمبر نہیں لے سکیں گے ۔لہٰذا”گُلو
خلاصہ“کا مطالعہ کرنے والے تمام طالب علم ایک ہی جیسا گریڈ اور ڈویژن حاصل کریں گے۔ اِسے
ہی کہتے ہیں :
”ایک
ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز“
ﷲتعالیٰ
ہماری قومی مساوات کی اس خدمت کو قبول فرمائے!
-3قارئین کرام! آپ نے ایک اور بات بھی
بڑی شدّت سے محسوس کی ہوگی کہ اکثر خلاصہ جات کے مصنفین اپنی اپنی کتب کو زیادہ سے
زیادہ فروخت کرنے کے لیے یہ لکھ دیتے ہیں کہ اِس کتاب کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ آپ کے لیے
فائدہ مند ہوگالیکن ہم نے یہاں بھی قومی اور انسانی خدمت کی پالیسی کو مدِّ نظر
رکھا ہے چنانچہ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ آپ ہماری کتاب ”گُلو خلاصہ“خریدیں یا نہ
خریدیں ،پڑھیں یا نہ پڑھیں
،آپ کو ایک سا نقصان ہوگا۔
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
-4"گُلو خلاصہ"کو دیدہ زیب بنانے کے لیے جابجا رنگین
تصاویر شامل کردی گئی ہیں تاکہ دورانِ
مطالعہ آپ بوریت محسوس نہ کریں۔ نیز ہرایک صفحے کی تشریح کے بعد دو صفحات پہ
تصاویر شائع کی گئی ہیں اور اگلے تین صفحات خالی چھوڑ دیئے گئے ہیں تاکہ آپ خود بھی منظر کشی، تصویرکشی،چِلّہ
کشی،غرضیکہ کسی قسم کابھی شوق پورا فرما سکیں
۔
-5ایک اور بات ،جسے ہم کافی عرصے سے
دیکھ رہے تھے کہ خلاصہ جات کی قیمت بہت کم اور سائز بہت چھوٹاہوتا ہے ۔آج کل کوئی
بھی کم قیمت چیز معیاری نہیں ہوسکتی لہٰذا ہم نے اِس کمی کو بھی پورا کرتے
ہوئے ”گُلو خلاصہ“کی قیمت بہت زیادہ رکھی ہے تاکہ ”معیاری ہونے“کی بات بھی پوری کی
جاسکے ۔دوسرے اِس کا سائز انگریزی کی ڈکشنری سے بھی بڑا رکھا گیا ہے ۔جس کی بناءپہ
ہم یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں
کہ یہ خلاصہ جس کسی کے ہاتھ میں ہوگا ۔وہ
دو میل دُور سے بھی پڑھاکوہی نظر آئے گا اور ذیلی فوائد اس کے علاوہ ہیں جیسا
کہ فارغ اوقات میں طالبعلم اِس سے ورزش کا شوق بھی پورا کر سکتا ہے
اور بوقت ِ ضرورت ایک کارآمد ہتھیار کے طور پہ بھی کام میں لا سکتا ہے۔
ایک نظر اِدھر بھی:
-6قارئین
کرام!”گُلو خلاصہ“ کامطالعہ کرنے سے عملی زندگی میں بھی
بہت سے فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔مثلاََ
اِس کاقاری عام زندگی میں ایک کامیاب ادیب، شاعر،اعلیٰ پایہ نقاد ااور
دَورِ حاضر کے مقبول ترین تجزیہ نگار اور ٹی وی میزبان بن سکتے ہیں ۔
قارئین
کرام!وقت اورجگہ کی کمی اور کالم کی زیادتی کے باعث ہم معذرت خواہ ہیں کہ آپ
کو اشعار اور اُن کی تشریح سے مستفیدنہیں کر سکے لیکن پھر بھی جاتے جاتے ہلکا سا ذائقہ
چکھتے ہی جائیں ،ملاحظہ ہو:
”شعر:
اِک اور دریا کا سامنا
تھا منیر مجھ کو
میں اِک
دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
تشریح:
سب
سے پہلے تو اِ س شعر پہ ہمیں ایک اعتراض ہے ( اعتراض تو خیر ڈھیروں ہیں لیکن
فی الحال اتنے کو ہی کافی اور تھوڑے کو بہت سمجھیں ) کہ شاعرکا پورا نام تو منیر نیازی تھاجبکہ
شعر میں انہوں نے اپنا صرف آدھا نام استعمال کیا ہے ۔یہ بات صحیح
نہیں ہے کیونکہ آج کل تو وہ دَور جارہا ہے کہ انسان
ہراچھے کام میں ،چاہے وہ کسی دوسرے کا ہی کیوں نہ
ہو،اپنا نام بھی گھسیڑتا ہے اور کجایہ شاعر حضرت کہ اپنے ہی لکھے ہوئے شعر میں اپنا
پورا نام استعمال کرنے سے گریزاں ہیں ۔ لہٰذا اِس لحاظ سے بھی یہ شعر ”حقیقت“سے کافی
دُورلگتاہے اور رہی بات اِس شعر کی تشریح کی تو شاعر کا تعلق ہمیں کسی
مچھیروں کے خاندان سے لگتا ہے کیونکہ ایسے بلند خیالات
اُنہی کے ہوسکتے ہیں۔ یا یہ بھی ہوسکتاہے
کہ موصوف نے بھنگ پی رکھی ہو اور دوسرے کنارے پہ پہنچ کے منہ دوبارہ پہلے کنارے کی
طرف کر لیا ہو۔یہاں یہ بات بھی بعیداز قیاس نہیں کہ
شاعر کوئی چیز دانستہ یا نا دانستہ پچھلے کنارے پہ ہی بھول آیا ہو او ر اب پھر سے
واپس جانا چاہتاہو۔بہرحال، ﷲ بہتر جانتاہے ۔ ہم تو صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی
اور شاعر نے اِس بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ
سانوں نہر
والے پُل تے بُلاکے
تے خورے ماہی کتھے رہ گیا''
یہ بھی
پڑھیے:
0 تبصرے