]وہ تہی دست بھی کیا خوب کہانی گر تھا/ باتوں باتوں میں مجھے چاند بھی لا دیتا
تھا [
اس
کے بارے میں بہت عجیب عجیب باتیں زبانِ زدِ عام تھیں ۔کوئی اسے دائیں بازو کاحمایتی سمجھتا تھا تو کوئی بائیں بازو کامعاون گردانتا تھا۔ لوگوں کے اندازوں اورخیالوں کی دنیا میں وہ طلسماتی کہانیوں کے کرداروں کی طرح طلسم کے ہزار پردوں میں قید
تھا۔ لیکن وہ کیا تھا ؟ حقیقت میں یہ بات خدا
اور خود اس کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔لوگ
اخباروں رسالوں میں اس کی تحریریں پڑھتے تھے اور ہمہ وقت اندازے لگانے میں مصروف رہتے تھے....
وہ
ایک ادیب تھا،محض ایک ادیب ،جسے اپنے دائیں بائیں کی
بھی فکر نہیں تھی ۔وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے
،محض چند روپوں کے عوض تحریریں لکھتا تھا۔لوگ بھی کیاکیا اندازے لگاتے ہیں ؟،کیسی
کیسی قیاس آرائیاں کرتے ہیں ؟وہ بعض اوقات
ایسی سوچوں اور اندازوں پہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاتا اور بعض اوقات اس کا
جی رونے اوراپنا سر پیٹنے کو چاہتا تھا۔اس کا نظریہ ،اس کا ماٹو بس ایک ہی تھا،اس کا
نظریہ بھوک تھا،اس کافلسفہ غربت تھا۔ پہلی نظر دیکھنے پہ ،پہلی مرتبہ سننے پہ اس کا
نظریہ شاید کسی کو مرغوب نہ گزرتا، اس کی تحاریر کے قارئین شاید اسے ملک دشمن، غدار
،جھوٹا،فریبی ،ضمیر فروش اورنہ جانے کیاکیا کچھ کہتے ۔دائیں ،بائیں بازو
کی وہ پارٹیاں ،جن کے ساتھ لوگ اس کا تعلق
گردانتے تھے،وہ تو شاید اسے دیوار میں ہی چنوا
دیتیں کیونکہ پیٹ بھرنے اور جیبیں بھرنے میں
کافی فرق ہوتا ہے اور کم از کم پیٹ بھرنا کسی
پارٹی کامنشور نہیں ہوتا اور ایسے ”بے ایمان
اوراخلاق شکن“ لکھاری کو بھلا کون برداشت کرتا ہے....؟
مزید دِل
چسپ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
غربت
اور بھوک کو اگر اس کے نظریے یا فلسفے کے بجائے اس کی مجبوری کہا جائے تو کچھ بے جا
نہ تھا اوراگر اس کے لحاظ سے دیکھا جاتا تو اس کانظریہ کسی بھی طرح سے غلط نہیں تھا لیکن اس کے باوجود بھی اس نے اپنے ذہن و فکر
کے گوشوں میں بسے سوچوں کے اس دھارے کو بدلنا چاہا تھا لیکن چار سُو پھیلی
غربت نے اس کے ہاتھ (اور ”دایاں اور بایاں
“بازو بھی)باندھ رکھے تھے۔وہ بھوک مٹانے کے
علاوہ کچھ سوچ ہی نہ پاتاتھا! وہ اپنا نظریہ لوگوں کو بتا دینا چاہتا تھا،وہ چاہتا تھا کہ دنیا اس کے
ویسے ہی،خواہ مخواہ کی غلط فہمیوں کا شکار
مت رہے لیکن جب وہ اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کاسوچتا تھا،اسے خیال آتاتھا کہ اگر
اس نے ایسا کر دیا تو پھر وہ ان چند روپوں سے بھی جائے گا،جو اسے بھوکا مرنے سے بچائے ہوئے
تھے کیونکہ وہ ایک ادیب تھا،معاشرے کا مشاہدہ کرنا اور اسے بیان کرنا اس کاپیشہ تھا،وہ
جانتا تھا کہ یہاں کے لوگ سامنے پڑی چیزوں
کی نسبت چھپی ہوئی،پوشیدہ چیزوں کی جستجواورکھوج میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ،اس کے علم میں تھا کہ یہ دنیا چھپی ہوئی چیزوں کوبھی فقط اس وقت تک عزیز رکھتی ہے جب تک وہ چھپی
ہوئی ،فکر ونظر سے اوجھل رہتی ہیں ۔”بند مٹھی لاکھ کی، جو کھل گئی تو خاک کی“اسی دنیا
کامحاورہ تھا ،اسے معلوم تھاکیونکہ وہ اسی دنیا کا باشندہ تھا ،وہ اس محاورے کی اہمیت
اور نزاکت کو اچھی طرح سمجھتا تھا....!
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس
کے ہر کالم ،ہر مضمون اورہر تحریر کے بعد لوگوں میں اس کے
بارے تجسس میں اضافہ ہوجاتا تھااور ہر تحریر
،ہر مضمون اورہر کالم لکھنے سے پہلے اسے ایک احساسِ جرم دامن گیر ہوتا تھا،اسے لگتا
تھا کہ جیسے وہ کسی بہت بڑے جرم کا مرتکب ہورہا ہو،لوگوں کو اپنی اصلیت نہ بتا کر کسی گناہِ عظیم کاارتکاب
کر رہا ہو لیکن جونہی وہ اپنے بارے کچھ لکھنے کی کوشش کرتا تھا،اسے اپنا اور اپنے سے
وابستہ لوگوں کے پیٹ کادوزخ یاد پڑتا تھا۔اُسے
اپنے اِردگرد ،سردیوں کی کہر آلود شاموں میں پھیلی
گہری دُھند اور مہینے کی بے چاند راتوں کے
بے اَنت اندھیرے کی طرح پھیلی ،غربت نظر پڑتی تھی ۔اپنے گردوپیش میں کسی چڑھے ہوئے دریا کی لہروں کی سی صورت ٹھاٹھیں مارتی بھوک کی طرف نظر جاتی تھی، اُس کی اِس ایک
نظرکے ساتھ ہی اس کی ضمیر پہ اُبھرتا احساسِ جرم دب سا جاتا تھا،جرمِ عظیم بے زبان
سا ہوجاتا تھا۔غربت کا شعلہ ،ضمیر اور دل ودماغ کے گوشوں سے اُٹھنے والی کسی بھی ایمان داری کی چنگاری سے
بلاشبہ بہت بڑا ہوتا ہے ۔
ایک نظر اِدھر بھی:
غربت
ضمیرکی آواز پہ بھلاکسے کان دھرنے دیتی ہے ،بھوک سے آگے انسان کو کچھ دکھائی ہی نہیں
دیتا،یہ کسی بھی انسان کو اندھا اوربہر ہ بنادیتی
ہے۔یہ عجب چیز ہے ،یہ ایمانداروں کو بے ایمان،پرہیز
گاروں کورہزن اور پردہ نشینوں کورونقِ بازار
بنا دیا کرتی ہے۔
وہ
ادیب تھا،ایک لکھاری،جذبوں کو لفظوں میں ڈھالنا
اس کا کام تھا،وہ یہ کام بحسن و خوبی کیا کرتا تھا،وہ اَن کہے جذبوں اور محسوسات کو زبان دیتا تھا۔”اَن کہی“ کو” کہی
“اور”اَن ہونی“ کو ”ہونی“بناکر پیش کردیتا تھااور دنیا اس کے لفظوں کے آئینے میں ہوبہووہی صورتیں دیکھتی تھی ،جیسی وہ دکھانا چا ہتا تھا لیکن اُسے
ہمیشہ افسوس سا رہا تھا،ہمیشہ خود سے ایک گلہ سا رہتا تھاکہ وہ اَن کہے جذبات کو ذہن
سے قرطاس پہ منتقل کر لیتا ہے،ہواکی سسکیوں کو، پتوں کی سرسراہٹوں اورمٹی کے ذروں کی آہٹوں کو وہ لفظوں میں ڈھال
لیتا ہے لیکن وہ اپنے سَچے اور سُچے جذبات،خیالات کو کبھی کہہ نہیں پایا،وہ ہمیشہ انہیں کہہ ڈالنے کا ارادہ کرتا تھالیکن ہر بار ایسا کرنے
سے رُک جاتا تھاکیونکہ وہ اس دنیا میں بسنے
والے لوگوں ، اپنے ہم نفسوں اور آدم زادوں
کو خوب جانتا تھا۔لوگو ں سے اپنے دل کا حال چھپانا ایک حقیقت تھی لیکن غربت
اور بھوک دو، سب سے بڑی حقیقتیں تھیں اور یہ دونوں ہمیشہ اژدھے کی طرح دیگر تمام حقائق کو نگل لیتی
ہیں ،اسے خوب معلوم تھا کیونکہ وہ ایک ادیب
تھا....
یہ بھی
پڑھیے:
0 تبصرے