اچھا
ہونا یا بُرا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ،صرف
بڑا ہوناہی معنی رکھتا ہے۔
یہ
فلسفہ شاید آپ لوگوں کو بہت بُرا لگے ،آپ لمحے
کے ہزارویں حصے میں مجھے بے ایمان ،بے شرم ،قنوطی سے لے کر شاید کافر
تک کہہ دیں لیکن بخدا میں غلط نہیں کہہ رہا۔کم از کم اس ملک میں ، جہاں کے ہم سب باسی ہیں ،یہاں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔اچھائی یا بُرائی کچھ وقعت نہیں
رکھتی ،بس آپ کا خبروں میں موجود
ہونا اور موجود رہنا ہی دراصل سب کچھ ہوتا ہے۔
آپ
بھی شاید اپنے اپنے دلائل، اپنی اپنی سوچوں ،اپنی ذاتوں اور اپنے خیالوں کی حد تک درست ہوں لیکن میں اس وقت جہاں بیٹھا ہوں ،وہاں بیٹھ کر یہ سوچنا ،ایسی سوچ پالنا کوئی اچنبھے کی
بات نہیں ہے۔میرے چہار سُوایک گہری خاموشی
طاری ہے۔صرف چھت پہ پنکھے سے پیدا ہونے والی آواز ہی اس گھمبیرتا کو توڑ رہی ہے۔بظاہرمیرے
اعصاب پر بھی ایک ایسی ہی گھمبیر خاموشی طاری ہے لیکن دل اور دماغ میں بے چینی اور
ارتعاش برپا ہے ۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
میں
اس وقت پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری کی اسٹڈی
روم (Study Room) میں بیٹھا ہوں ۔ میں جس میز پہ بیٹھ کر یہ کالم تحریر کر رہا ہوں ۔وہ اسٹڈی روم کے ایسے کونے میں واقع ہے جہاں میز کے اردگرد،تین اطراف میں بڑے بڑے ریکس(Racks) پڑے ہیں ۔ان ریکس پر بیسیوں پرانے اخبارات دو دو ماہ کی مجلّد کاپیوں
کی صورت میں رکھے گئے ہیں ۔ یہاں پر جو مجھے سب سے قدیم کاپیاں نظر آرہی ہیں ۔وہ 1957ءتک کی ہیں ۔ اخبارات کے اس سیکشن کے بارے
میں شنید ہے کہ یہاں پر 1957ءسے لے کر اب تک کے بہت سے قومی اخبارات کا
مکمل ریکارڈ محفوظ ہے ۔قومی اخبارات ملکی تاریخ کے ایک ایک دن کا مکمل احاطہ کیے ہوئے
ہوتے ہیں اور اخبارات کو یوں جمع کر لینا ملکی
تاریخ کو جمع کرنے کے مترادف ہے۔ اگرچہ یہ کام حوصلہ شکن حد تک مشکل بھی ہے۔
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
بہرحال،
چند دن پہلے میں ایک دوست کے ساتھ یہاں آیا تھا ،یہ جگہ مجھے کافی اچھی اورمعلوماتی معلوم
ہوئی۔ چنانچہ آج پھر میں نے یہاں کا رُخ کیا لیکن آ کر پچھتائے جارہاہوں ۔میرے سامنے ایک قومی اخبار کی ستمبر ،اکتوبر
2006ءکی ایک مجلّد کاپی پڑی ہے۔ میں اُس دَور
میں بھی کسی طرح کے کرشماتی انسانوں یا کارناموں کی موجودگی کی توقع نہیں کر رہا تھا لیکن یہ تجسس بہر حال تھا کہ وہ دَور
کیسا تھا؟سُنا ہے پرانے زمانے بہت اچھے ہواکرتے تھے۔ بس انہی غلط فہمیوں کے جھانسے میں آکر وہ 7برس پرانی مجلّد کاپی کھول بیٹھا۔ لیکن آپ
یقین مانیں کہ اُس دَور میں اور اِس وقت میں
کچھ بھی فرق نہیں ،ذرا برابر بھی نہیں ۔وہی
دہشت گردی اور دھماکوں کی خبریں ہیں ۔ وہی دہشت گردی سے آہنی ہاتھوں سے نپٹنے کی باتیں ہیں ۔ وعدے ہیں ، دعوے ہیں اور اعدادوشمار کی لمبی
قطاریں ہیں۔سابق آرمی چیف اور اس وقت کے صدر
اور چیف ایگزیکٹو کے بیانات صفحہ ءِاوّل
پہ شہ سرخیوں میں درج ہیں ۔
ایک نظر اِدھر بھی:
جب
سے یہ خبریں میں نے دیکھی ہیں ،میری اُلجھن میں اضافہ ہی ہوا جارہا ہے ۔آج کے اخبارات میں بھی بالکل ایسی ہی خبریں ہیں۔ مرنے مارنے کی باتیں ہیں ۔ امن وامان بہتر بنانے کے دعوے ہیں ۔ دہشت گردی کی
کمر توڑنے کے بیانات ہیں اور لگ بھگ ویسے ہی طویل اعدادو شمار بھی منہ چڑا رہے ہیں
۔کئی بیانات ،قیاس اور دعوے بالکل ویسے ہی
ہیں ۔صرف یہ بیان، یہ قیاس اوریہ دعوے کرنے والے چہرے بدلے ہوئے ہیں اور حد درجہ حیرت
کی بات تو یہ ہے کہ بعض چہر ے بھی وہی ہیں ۔ وہ آ ج بھی خبروں میں موجود
ہیں ۔وہی سابق جنرل،صدر اور چیف ایگزیکٹو کی خبریں اور بیانا ت،گو یہ بیانات ستمبر ،اکتوبر2006ءکی طرح
نمایاں نہیں ہیں، لیکن آج کے اخبارات میں بھی موجود ہیں ۔یہ تمام ،ایک جیسی خبریں اور حالات دیکھ کر ،ارد گرد کسی الف لیلوی کہانی
کے گردوپیش کا ساگماں گزرتا ہے،ہمارا زمانہ
ایک ہی جگہ رُکا معلوم ہوتا ہے۔
یاباری
تعالیٰ ! یہ کیسا دَور ہے ،جو گزرتا ہی نہیں ؟
آج
ہی کے اخبار میں ایک دانشور نے اپنے کالم میں
تذکرہ کیا ہے کہ
”ہمارے
ہاں کچھ لوگ 1947ءسے نہیں نکل پائے۔ تاریخ کی اسیری مرض ہے جوا کثر قوموں کو لاحق ہوجاتا ہے۔ اس سے شفالازم ہے کہ یہ ارتقاءکو
روک دیتی ہے“
لیکن
مجھے نہیں لگتا کہ صرف تاریخ کی اسیری ہی ارتقاءکو
روک دیتی ہے۔ کئی اخلاقی عوارض بھی ہیں ،جونہ صرف حاکموں کو لاحق ہیں بلکہ عوام میں بھی سرایت کر گئے ہیں ۔ حاکموں کا ظلم اور محکوموں کی بے زبانی میرے نزدیک تاریخ کی اسیری سے بڑے امراض
ہیں جنہوں نے ہمیں ارتقاءسے روک رکھا ہے،سعداﷲشاہ کا ایک بہت خوب کہا
ہے:
ظلم ہے اور بے زبانی ہے
یہ مرے عہد کی کہانی ہے
یہ بھی
پڑھیے:
0 تبصرے