اکیسویں
صدی کا تیرھواں سال شروع ہوئے دس دن ہو چکے تھے ۔یورپ کے فلاسفروں
اور دانشوروں نے 22دسمبر 2012ءکو قیامت آنے کی جو پیش گوئی(نعوذ
باﷲ) کی تھی ،وہ پوری نہیں ہوئی تھی۔مجھے یہ
تو علم نہیں ہے کہ دنیا کے باقی ممالک میں
قیامت ٹلنے پہ کیا ردّ ِعمل ہے ؟کسی کو پہلے کوئی خوف تھا
یا اس موضوع کو لے کر اب کو ئی خوش ہے ؟لیکن ہاں !ایک ملک ہے جہاں قیامت ٹوٹنا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔یہ مملکتِ خدادادِ پاکستان ہے ۔یہاں روز قیامتیں ٹوٹتی ہیں ۔بلاﺅں
نے یہاں کا رستہ ہی دیکھ لیا ہے۔ یہاں 22دسمبر سے پہلے بھی
قیامتیں اُترتی تھیں اور اب بھی کچھ نیا نہیں ہے ۔قیامتیں ہیں کہ روز
ٹوٹتی ہیں ۔بلائیں ہیں کہ جانے
کانام ہی نہیں لے رہیں ۔
ادب سے
متعلق وی لاگز یہاں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی دس جنوری کی۔یہ
ہفتے کا چوتھادن تھا،جمعرات کا دن۔ملکِ پاکستان میں اس دن بھی قیامتیں ٹوٹنے کاسلسلہ جاری رہا تھا اور صرف جاری ہی نہیں
رہا تھا بلکہ اپنی پوری شدّ و مد سے جاری و ساری رہاتھا۔یہ سلسلہ اپنے پورے جوبن پہ
تھا۔ دس جنوری کوجملہ قیامتوں کا آغاز روشنیوں
کے شہرکراچی میں 14شہریوں کی زندگی کے چراغ گل کرنے سے ہوا تھا۔نیوز چینلز
ابھی دس پندرہ دفعہ ہی اس بریکنگ نیوز کی گردان کر پائے تھے کہ یہ سلسلہ کوئٹہ پہنچا۔جنت
کے کچھ داعیوں نے بلوچستان کے کئی علاقوں کو جہنم بنا ڈالا اور 100سے زائد انسانوں کی لاشوں کی بارات کے جلو میں ”عازمِ سفرِ جنت“ ہوئے۔ستم
گزیدہ علاقوں میں چیختے ٹی۔وی نمائندوں کی آوازوں نے ابھی دَم نہ لیا تھا،کیمروں کے فلیش کی روشنیاں ابھی وہاں مدھم نہ پڑی تھیں کہ سوات کے ایک تبلیغی مرکز میں دَرس سنتے لوگوں کو بھی جنت میں پہنچانے کا کہیں فیصلہ ہوا۔فضا میں ایک دھماکے کی آواز گونجی اور زندہ انسان زندہ نہ
رہے،زندہ درگور ہوگئے،جل مرنے والے چندچیتھڑے ، مرمٹنے والے چند نقوش رہ گئے۔
یہ بھی
پڑھیے:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
ٹی۔وی اینکرز ابھی یہی بتا رہے
تھے کہ ان حملوں کی ذمہ داری کالعدم یونائیٹڈ
بلوچ آرمی اور لشکرِ جھنگوی نے قبول کرلی ہے ،کہ قیامت در قیامت کا یہ سلسلہ مشرقی
محاذ پہ جاپہنچا۔سرزمینِ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے کنٹرول لائن پہ اپنی اشتعال
انگیزیوں کا پرانا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پاکستانی
چیک پوسٹوں پہ بمباری کی جس کے نتیجے میں پاک فوج کا ایک جوان وطن پر قربان ہو گیا۔اس سپاہی
کا وطن کی حفاظت کے لیے بہنے والا لہوابھی خاک میں جذب بھی نہیں ہوا تھا کہ دورِ حاضر کے فرعونوں نے شمالی وزیرستان پر نئے سال کا چھٹا ڈرون حملہ
کیا ۔حسو خیل کے علاقے میں ایک کمپاﺅنڈ
پرجمہوریت اور عالمی انسانی حقوق کے چیمپئن کی طرف سے چار میزائل داغے گئے ۔عالمی میڈیا
نے خبر نشر کی کہ چھ دہشت گرد ہلاک ہو گئے ہیں ۔ نجانے دورِ جدید کے نمردوں کے پاس ایسے کون سے آلات ہیں کہ جوشدت پسندوں کے ماتھے پر دہشت گردی کا لیبل دیکھ کر تاک کر انہیں
نشانہ بناتے ہیں ۔اب شام ہو چلی تھی اورقیامتیں
انسانی جانوں سے منہ موڑکر اب ان کا مال ہتھیانے کے دَرپے تھیں
۔
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
10جنوری 2013ءکے شام کے نیوز
بُلٹن میں ،درجن بھر کے قریب نیوز چینلز کے پاس کئی ”ہاٹ ایشوز “تھے ۔لانگ مارچ کی
تیاریاں ، اس کے ممکنہ ردّ ِعمل اور آمدہ الیکشنوں کے لیے سیاسی جوڑتوڑ کی خبروں کے بیچ بتائی جانے والی یہ ”قیامتیں “ لوگوں کو کچھ خاص متاثر نہیں کر پائی تھیں ،وہ ان کے معمول کی خبریں تھیں یا
معمول کی خبروں میں دفن ہو چکی تھیں ۔کتنی عجیب بات تھی کہ 150کے قریب
لوگ مارے گئے تھے۔ان کے گھروں میں صفِ ماتم بچھی تھی لیکن زندہ بچ جانے والے اپنے انجام
سے بے خبر قہقہے لگانے میں مصروف تھے۔کسی شاعر
نے کبھی کہاتھا:
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
11جنوری کی صبح کے اخبارات
میں سیاہ شہ سرخیوں میں بھی گزشتہ دن بیت جانے
والی ان قیامتوں کے تذکرے نمایاں تھے لیکن حکمرانوں کے پاس اور بھی بہت سے اہم کام تھے ۔جن میں مصروف ہونے کی وجہ سے اشرافیہ میں سے کوئی نہیں تھاجو ان قیامتوں میں گزر
جانے والوں کے جنازے کو کندھا دینے یا ان کے
پیچھے بچ رہنے والے اہل و عیال کے سہارے کے لیے وہاں موجودہوتا۔کوئی ان دھماکوں میں زخمی
ہونے والوں کی مزاج پرسی کو نہیں پہنچا تھا۔بس ٹی۔وی اور اخبارات میں سب کی طرف سے مذمت کے اعلامیے جاری ہوئے تھے۔دہشت
گردی کے خلاف جنگ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کی باتیں تھیں لیکن
ان بم دھماکوں ،ان گزرتی قیامتوں کا توڑ کرنے کے لیے کوئی تیارنہیں تھاکیونکہ ان سب کے پاس دیگر ”اہم ایشوز “ بھی تھے۔
وہ الیکشن کی تیاریوں میں مگن تھے ۔ سیاسی
حریفوں کی ہر حرکت پران کی نگاہ تھی ۔وہ سب
یہ جانتے تھے کہ لانگ مارچ کو تین دن رہتے ہیں اور اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے میں 63دن باقی ہیں۔وہ یہ سب جانتے تھے لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ قیامتوں میں لوگ
مر ے جارہے ہیں ۔انسان ختم ہورہے ہیں اور اگر
انسان ہی ختم ہوجائیں تو جمہوریت اور آمریت
،کوئی لانگ مارچ یا شارٹ مارچ ،قومی صوبائی اسمبلیاں یا سینٹ ،یہ سب نام بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں کیونکہ
جنگلوں اور ویرانوں میں کوئی
طرزِ حکومت،کوئی طرزِ تحریر اور کوئی متفقہ آئین نہیں چلتا۔وہاں صرف ویرانی ،وحشت اور موت کا رقص ہوتاہے!
آپ کے ذوقِ
نظر کی نذر:
0 تبصرے