بے
مائیگی کااحساس مجھے کھجور کے اُس درخت کو دیکھ کر ہوا،جو نجانے کتنی صدیوں سے وہیں راستے میں ایستادہ تھا۔کسی مفلوک الحال شخص کے کپڑوں میں لگے
پیوند اور ماتھے پہ آٹھہرے غربت کے اَن مٹ نشان کی طرح!
یاخدایا!اِس
بے زباں جاندار کو کس بات کی سزا ملی ہے کہ
اِس نے نجانے کتنی نسلوں کو اپنے سامنے پیدا
ہوتے ،پلتےاور بڑھتے دیکھالیکن خود اُس کی مانگ ہمیشہ اُجڑی ہی رہی ۔ اُسے بھی تو یہ
حسرت ہوگی کہ وہ بھی قد آور ہوتا۔اُس پہ بھی بہار میں نِت نئے شگوفے کِھلتے،وہ بھی کبھی تو ثمر آور ہوتا۔اُس
کی اوپرکے جانب کئی زرد کونپلیں بھی اِس بات
گواہ تھیں کہ اُسے پھرکسی نے جلایا یا جُھلسایا
تھالیکن اُس کے کمزور تنے کے اِرد گرد ایک بار پھر سے نئی کونپلیں جنم لے رہی تھیں ۔یہ نئی کونپلیں چیخ چیخ کر زمانے کیساتھ اعلانِ جنگ کر رہی تھیں
لیکن زمانہ ایک معمولی ،زرد رُو تنے پرمشتمل کھجورکے اُس اڑھائی،تین فُٹ کے پودے کو
کوئی اہمیت نہیں دے رہا تھا!
میں نے جب سکول جانا شروع کیا تو راستے میں ایک چھوٹی سی پہاڑی چڑھائی کے بعد ایک کافی طویل
میدان کے پہلے سرے پر ایک چھوٹی سی چٹان کے بیچوں بیچ ایک نو آموز کھجور کاپودا تھا۔نیم پہاڑی علاقے
میں ایک پہاڑ میں قدرت کا یہ کرشمہ کہ صحراﺅں
میں جنم لینے والا درخت ،ایک چٹان کے درمیان سے پُھوٹ
رہاتھا۔روز سکول سے آتے جاتے وہ میرے سامنے ہی رہتا ،لیکن ایک عجیب بات یہ تھی کہ وہ
کبھی تین یا چار فُٹ سے بڑھ نہیں پایا۔بڑے
بوڑھوں سے اس کا تذکرہ کیا تو معلوم ہوا کہ
وہ تو صدیوں سے ایساہی تھا،وہ کبھی تین یا
چار فُٹ سے نہیں بڑھا تھا۔وہ جب بھی تین فُٹ
سے ذرااُوپر ہوا ، اُس کی اَجل آن پہنچی اور کسی نہ کسی شریرانسان نے یاتو اس پودے
کو جلادیا، یاکاٹ ڈالااور اگر وہ انسان کی ستم ظریفیوں سے بچ نکلا تو کسی بے زبان جاندار بھیڑ ،بکری نے
اُسے نوچ ڈالا۔غرض یہ کہ وہ کبھی ثمرآور نہ ہوسکا۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
آج دس سال بعد اسی راستے سے
دوبارہ گزر ہواتو میں نے دیکھا کہ وہ تین فُٹ
سے کچھ اُوپر چکاتھا۔برسوں پرانی یادیں اور اس ننھے پودے سے متعلق تمام باتیں میرے ذہن میں آنے لگیں لیکن آج ان تمام یادوں ،ان تمام باتوں کے سِوا بھی اِس ننھے ،زمانے کی صدیوں کی ردّ وبدل کے اَمین پودے کے لیے کوئی احساس میرے
رگ و پے میں انگڑائی لے کر بیدار ہواتھا۔ذرا
دیر جو میں نے اپنے اندر جھانکا ،کھوجاتو علم
ہوا کہ یہ احساسِ تفاخر تھا۔اس ننھے ،معصوم،زمانے کی صدیوں کی ”نحوست“کے شکار پودے کے لیے میرے ذہن و دل میں
فخر کا احساس ،لیکن بَھلے کیوں ؟ایساکیا تھا
اس کھجور کے بے خانماں پودے میں ؟
میں
پھر کچھ لمحے کے لیے اپنے اندر اُترا ۔چند
ثانیے بعد ہی میں وجوہ تلاش لایا۔میرے ذہن
ودل اس پودے پہ فخر کر رہے تھے۔میرے رگ وپے اس احساسِ تفاخر پہ نازاں تھے کہ وہ ننھا ،کمزور سا پودا صدیوں سے زمانے کے گردوپیش کے سامنے ڈٹا ہوا تھا۔زمانے
کی گرم سرد ہوائیں اُسے بڑھنے سے روکتی تھیں لیکن وہ زمانے بھرکا باغی تھا۔وہ تمام زمانے سے بغاوت
مول لے کر پھر اُگ آتا ،پھر پُھوٹ پڑتا تھا۔زمانہ بار بار اُس کے ہاتھ قلم کر دیتا،پاﺅں
کاٹ ڈالتا لیکن وہ بھی اپنے نام کاایک تھا،وہ
وہ پھر سے،نئے سِرے سے پُھوٹنا شروع کر دیتا۔
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
مجھے لگاکہ وہ ننھا،معصوم
پودا ہمارے عہد کامنصور تھا،جوکہ انا الحق ،انالحق کا نعرہ بُلند کیے ہی جارہا تھا۔دُنیاکی
کوئی آندھی ،کوئی طوفان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا
تھاکہ وہ اسے مکمل طور پر شکست دے سکتا ہے۔ دنیا باربار اُسے کاٹ ڈالتی ۔اُسے جلا کر
بار بار یہ باور کراتی کہ پتھریلی زمینوں میں
کھجورکے پودے کا کیا کام؟تم غلط جگہ اُگے ہو
،یہاں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے لیکن وہ
پھر مُسکراتا،کاٹ ڈالے جانے کے بعد بھی ،جلادیئے جانے کے باوجود بھی اُس کے ہونٹوں
کی مُسکراہٹ تھی کہ برقرار تھی۔اُس کا اناالحق
کا نعرہ تھا کہ گونجتا ہی چلاجارہا تھااور اِس نعرے کے پیچھے اُس کے ننھے،معصوم وجود
میں ایک ہیجان خیز جنون تھاجوکہ اِس بات کا
ثبوت تھاکہ کبھی نہ کبھی تو وہ زمانے کو شکست دے کر ہی دَم لے گا۔
میں نے ایک نظر پھر اُس پہ ڈالی۔اُس کے اُوپر کی کئی
کونپلیں زرد رنگ اوڑھ چکی تھیں ،جو کہ اِس
بات کی گواہ تھیں کہ اُسے پھر کسی نے جلایا
تھا لیکن زمانے کے ،اِس ظالمانہ وار کے بعد بے اِختیار عود کر آنے والے قہقہے کے پیچھے،اُس
پودے کی ایک میٹھی اور نرم مُسکان بھی تھی جو کہ بڑھتی ہی چلی جارہی تھی۔اُس ”حقیر
“پودے کوگزشتہ زندگی میں اپنے کبھی ثمرآور نہ ہونے کا افسوس تھا نہ مَلال،بلکہ اُس
کے کمزور سے تنے کے گرد پُھوٹ پڑنے والی نئی نویلی کونپلیں اِس بات کا چیخ چیخ کراعلان
کر رہی تھیں کہ وہ کبھی نہ کبھی تو زمانے کی
گردش کو شکست سے دوچار کر ہی دے گا۔وہ کبھی نہ کبھی تو ثمرآور ہوہی جائے گا۔ وہ پتھریلی
زمینوں میں کھجورکے پودوں کے نہ اُگنے کی روایت کو بدل ہی ڈالے گا۔وہ زمانے
کو بالآخر شکست دے ہی دے گااور یہ صرف میرے ذہن کی اِختراع نہ تھی ۔اُس کے کمزور تنے
کے نچلی جانب جنم لینے والی اُن نئی نویلی ،جُھومتی کونپلوں کو دیکھ کرہی اِس بات کااَندازہ
کیا جاسکتا تھا کیوں کہ اُن کے اندر جنون تھا،اناالحق
کے نعرے کی گونج تھی اور ایک پختہ یقین تھا!
یہ بھی
پڑھیے:
0 تبصرے