انسان
بڑی عجیب شے ہے۔دنیاکا کوئی بھی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ ”انسان“کو جان گیا
ہے۔اس انسان نامی مخلوق کی فطرت بھی عجیب تر ہے۔یہ اپنے لیے مراعات کا طالب ہے،اپنے
حقوق کے لیے لڑنے مرنے پہ تیار ہوجاتا ہے لیکن دوسروں کو مراعات دینے یا فرائض کی ادائیگی
پہ قطعی تیار نہیں اور اس سے خود کو مبّرا سمجھتا ہے۔یہ اپنے لیے گناہوں کی معافی کا
خواستگارہے لیکن دوسروں کے لیے ان کے اعمال کے عین مطابق سزا چاہتا ہے۔احمد ندیمؔ قاسمیؒ
نے بجا فرمایا تھا:
اُٹھا عجب تضاد سے انسان کا
خمیر
عادی فنا کا تھاتو پجاری بقا
کا تھا
چند
دن قبل ہماری کلاس میں باتوں ہی باتوں میں مشرق اور مغرب میں عورت کے حقوق اور ان کے
استحصال کا تذکرہ چل نکلا۔ایسے ہی کسی نے ملالہ یوسفزئی کا نام لیا ۔میرے دائیں جانب
بیٹھا ہو ا طالب علم، جو اپنے موبائل پہ کچھ لکھنے دیکھنے میں مصروف تھا،یکدم چیخ کر
بولا:
”نہیں نہیں !وہ سب جھوٹ ہے ۔ملالہ کے بارے میں سب
جھوٹ چل رہا ہے۔وہ سب جھوٹ تھا“
میں
اپنے ساتھی طالب علم کے اس رویے کو محض جذباتی پن سے زیادہ کوئی نام نہ دے سکا۔تاہم
کچھ دن اس ساری صورتحال کے بارے میں، ایک رائے قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ ہم بحثیتِ
مجموعی ایک بے حد جذباتی قوم بن چکے ہیں۔ہم ذرا ذرا سی بات پہ بھڑک اُٹھتے ہیں اور
کسی بھی عمل کے انجام سے غافل اور بے پرواہوکر وہ کر گزرتے ہیں۔ بنا دیکھے بھالے آگ
میں کود پڑتے ہیں اورپھر صورتحال کی نازکی کا احساس ہونے پر شرمندہ ہونے کے بجائے دوسروں
کو موردِ الزام ٹھہرانے لگتے ہیں۔آپ اسی واقعے سے اندازہ لگالیجیے۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
14سالہ ملالہ یوسفزئی،سوات
کے شہر مینگورہ سے تعلق رکھتی ہے۔سوات میں 2009ءکے فوجی آپریشن سے پہلے جب مولوی فضل ﷲ کے حامی جنگجوایک بڑے حصے پہ قابض تھے اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی
گئی تھی تو ملالہ نے بے مثال جرات کامظاہرہ کرتے ہوئے بی بی سی کے لیے”گل مکئی“کے فرضی
نام سے ایک ڈائری لکھی جس میں سوات اور اس کے گردو نواح میں طالبات کی تعلیم پر پابندی
کے حوالے سے روا مظالم کی تصویر کشی کی ۔اس جرات ِبے مثل کے اعتراف کے طور پہ2011ءمیں
ملالہ ”بچوں کے بین الاقوامی امن انعام“کے لیے نامزد ہوئی تو میڈیا کی نظریں اس پر
پڑیں ،میڈیا کے دو بین الاقوامی اداروں نے اس پر دستاویزی فلمیں (Documentaries)بنائیں۔حکومتِ پاکستان نے بھی اسے نقد انعام اور ”قومی امن ایوارڈ“سے
نوازا۔ملالہ قوم کی آنکھوں کا تارہ تھی پھر 09اکتوبر کی ایک قیامت خیز سہ پہر آن پہنچی
۔ 09اکتوبر2012ءکو ملالہ سکول سے واپس گھر جا رہی تھی کہ اس کی سکول بس کو روک کر طالبان
نے ملالہ کا پوچھااور اس پہ فائر کھول دیا۔ملالہ کے سر میں گولی لگی اور وہ شدید زخمی
ہو گئی۔ملالہ کے ساتھ اس کی دو ساتھی طالبات بھی اس ستم زدگی کانشانہ بنیں اور ہاتھوں
اور پاﺅں پہ گولیاں لگنے سے
زخمی ہوگئیں۔پاک آرمی کے ہیلی کاپٹر میں ملالہ کو سی۔ایم ۔ایچ پشاور لایا گیا ،چند
روز پاکستان کے متعدد ہسپتالوں میں زیرعلاج رہنے کے بعد
تادم ِ تحریر وہ برطانیہ کے کوئین الزبتھ ہسپتال میں موت و حیات سے جنگ میں مصروف ہے۔
ادبی وی لاگز
یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
پاکستان کے پڑھے لکھے طبقے
کو ”بگاڑنے“میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ”فیس بُک“کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔09اکتوبر
کی شام سے ہی ملالہ پر حملے کی مذمت شروع ہوگئی تھی،10اکتوبر کا سارابھی فیس بُک پہ
ملالہ کی حمایت اور طالبان کی مخالفت میں فیس بُک پر پیغامات کی بھرمار رہی ۔مزید ایک
دو دنوں میں ملا جلا رحجان رہا۔پہلے پہل تو یہ سوال اُٹھایا گیا کہ کیا صرف ملالہ ہی
قوم کی بیٹی تھی ؟ اس کے ساتھ زخمی ہونے والی شازیہ اور کائنات کا کیا قصور ہے کہ حکومت
انہیں کسی اچھے ہسپتال میں نہیں لائی؟پھر میڈیا کو موردِالزام ٹھہرایاگیاکہ وہ ڈرون
حملوں میں مرنے والوں کی کوریج نہیں کرتا لیکن مغربی ایما پر گستاخانہ خاکوں کا معاملہ
دبانے کے لیے ملالہ والے واقعے کو حد سے زیادہ اُچھال رہا ہے۔کچھ ”عقلِ کل“ قسم کے
لوگوں میں سے بعض نے اس واقعے کا سہا را لے کر کشمیر اور افغانستان میں جاری مزاحمت
کو بدنام کیا اور بعض نے میڈیا کو یہودونصاریٰ کا ایجنٹ قرار دیا۔فیس بُک پہ جاری اس
خانہ جنگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم کی ایک معصوم بیٹی پر حملے جیسے سفاکانہ فعل پر
بھی پڑھا لکھا طبقہ تقسیم ہوچکا ہے۔ایک ملالہ کی حمایت میں کوئی بات سننے کو تیار نہیں
ہے اور دوسرا میڈیا اور امریکہ سے حد درجہ متنفر ہے اور اس سارے واقعے کو ڈرامہ سمجھتا
ہے۔
ایک نظر اِدھر
بھی:
میں نہیں جانتا کہ سچ کیا
ہے لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اسلام تو میدانِ جنگ میں دشمن کی عورتوں پر بھی حملہ
کرنے سے روکتا ہے،ان کی تکریم کادرس دیتا ہے اور ملالہ نہ تو دشمن تھی اور نہ ہی غیر
مسلم۔ملالہ پر حملہ کرنے والے ٹارگٹ کلرز ہوں یا کسی اور انتقامی بھٹی میں تیار کیے
گئے جنگجو،وہ مسلمان نہیں ہوسکتے۔ اگر وہ مسلمان ہوتے توکیا یہ نہ جانتے ہوتے کہ
”اصل
مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں“
اگر
بالفرض دوسرے گروہ کی بات مانتے ہوئے اس سب کو امریکہ کاشمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن
کی راہ ہموار کرنے کے لیے رچایاہوا ڈرامہ سمجھ لیں
تو پھر ہمیں مزید محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔اگر واقعتا ایسا
ہے تو قوم کو اپنی ”ملالاﺅں
“ کی حفاظت کے یکجا ہونے اور اتحاد و اتفاق سے دشمن کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن
فیس بُک پہ پیغامات دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے اگر یہ واقعی امریکی سازش تھی توہم
اس سازش کا شکار ہوتے ہوئے دو حصوں میں بٹ چکے ہیں ۔
اس اَمر میں حالات کو سنگین
بنانے میں وہ لوگ بھی برابر کے شریک ہیں جو بغیر تحقیق اور تصدیق کوئی بھی پیغام دوسروں
تک جلدی پہنچانے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔میں سمجھتاہوں کہ اگر آپ کو سچ کا علم
نہیں ہے،آپ میڈیاکو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے تو پھر بہتر ہے کہ چپ بیٹھے رہیں کم از
کم اس وقت تک جب تک کہ آپ کو کسی قابلِ اعتماد ذرائع سے مستند خبر نہیں ملتی۔ خدارا
خود خبریں بنانےسے گریز کریں۔ہمیں خود ہی طرح طرح کے قیاس گھڑنے اور اپنے من چاہے فلسفوں
کی ترویج سے قبل سوچنا چاہیے کہ یہ ایک معصوم زندگی کا مسئلہ ہے۔ہمیں اپنی عقل کے گھوڑوں
کو بے لگام دوڑانے کی بجائے انہیں کسی اور وقت کے لیے
سنبھال رکھنا چاہیے۔یاد رکھیے کہ دنیا میں دس فیصد جھگڑے اختلافِ رائے کی وجہ سے ہوتے
ہیں اور باقی کے نوے فیصداس
لہجے (اور ردّ عمل )کی وجہ سے جو ہم بحث میں اختیار کرتے ہیں۔
یہ بھی
پڑھیے:
0 تبصرے