گو ہم نے بزرگوں کی باتوں کا کبھی اعتبار نہیں کیا لیکن وہ
درست کہتے تھے۔ وقت کتنی جلدی بدل رہا ہے ۔اس کا اب احساس ہوا ہے۔ وہ بھی یوں کہ
محض ایک دِہائی قبل عیدکارڈز کی جو رَسم عید کے چاند جتنی ہی ضروری سمجھی جاتی تھی
،عنقا ہو گئی ہے۔ بہرحال، عید آ گئی ہے
اور میاں محمد بخش صاحب کی یاد بھی :
لے
او یار! حوالے رب دے، میلے چار دِنا ں دے
اُس
دِن عید مبارک ہوسی، جس دِن فیر مِلاں گے
عید الفطر کے حوالے سے کچھ اشعار ڈھونڈ ڈھانڈ کر نکالے ہیں۔
عید کارڈ نہیں تو کیا ہوا؟ عید کے اشعار ہی سہی ۔ پڑھیں اور ایک معدوم حسین روایت
کی یادوں میں کھو جائیں۔اپنے تئیں ہم نے پوری کوشش کی کہ اساتذہ کے بروزن اشعار کا
اِنتخاب کیا جائے لیکن اوّل تو وہ زیادہ ملے نہیں اور دوم، اُن پر زیادہ ریٹنگ
ویٹنگ بھی نہیں ملتی نا۔ تو جو بھی دال دلیا مل گیا ہے ، اسی سے کام چلائیے۔ہاں،
آپ کے لیے رعایت یہ ہے کہ پہلے مستند اشعار پیش کیے دیتے ہیں۔ باقی اخیر میں چل
چلا دیں گے۔ آپ کھسک لیجیے گا۔ تو سب سے پہلے دِلاور علی آزرؔ ہیں۔ اپنے محبوب کو
ہماری زبانی کہلوانا چاہتے ہیں کہ
اُس
سے ملنا تو اُسے عید مبارک کہنا
یہ
بھی کہنا کہ مری عید مبارک کر دے
کچھ شاعروں نے ہمیں آزرؔ صاحب کے لیے قاصد بنتا دیکھا ہے تو
سب اپنے اپنے محبوباؤں کی یادوں والی گٹھڑیاں اُٹھا لائے ہیں اور اپنے اپنےدل کے پھپھولے جلا کر بیٹھ گئے ہیں۔ لیجئے
آپ بھی ہاتھ سینکئے۔ اِتباف ابرک ہیں ۔ اُداس معلوم پڑتے ہیں:
آنکھ
تم کو ہی جب نہ پائے گی
عید
کیسے منائی جائے گی
مصحفیؔ غلام ہمدانی کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے ۔ وہ ہمیشہ
کی طرح ہی جی جلا رہے ہیں:
عید
تو آ کے مرے جی کو جلاوے افسوس!
جس
کے آنے کی خوشی ہو وہ نہ آوے افسوس!
مزید دِل
چسپ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
اب جہاں اِتنے شعراء نالہ فرسا ہو تو وہاں ظفر ؔاقبال کہاں
پیچھے رہنے والے ہیں۔ وہ غالبؔ بننے کا کوئی موقع بھلا ہاتھ سے کب جانے دیتے ہیں۔
سو، دُور کی کوڑی لائے ہیں:
تجھ
کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی
عید
اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی
کسی نامعلوم شاعر کا ایک بیت بھی دستیاب ہوا ہے۔ لیکن محبوب
اِنہیں بھی میسر نہیں ہے:
دیکھا
ہلالِ عید تو آیا تیرا خیال
وہ
آسماں کا چاند ہے تُو میرا چاند ہے
لیجئے اساتذہ کا کوٹہ تمام ہوا ۔ اب ریٹنگ والی شاعری کی باری
ہے۔ یہ سب ہم نے دائیں بائیں سے اِکٹھی کی ہے۔ اِس میں کچھ جگہوں پر شایدآپ کو مکمل مصرعے اور بروزن شعربھی مل جائیں۔ لیکن یقین جانئے کہ شاعر اور راوی
دونوں اِس ضمن میں بے قصور ہیں۔
کچھ قطعہ نما اشعار
سب سے پہلے دستیاب ہوئے ہیں۔ بس بغیر کسی جگت پانی کے ملاحظہ ہوں:
ملے
تجھ کو نہ دُکھ زندگی میں
پھول
کی طرح مہکے خدا کرے
زندہ
رہے نام اَبد تک تیرا
عید
کی خوشیاں تجھے مبارک خدا کرے
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
ایک اور قطعہ پیشِ خدمت ہے۔ شاعری کی بندشوں پہ نہ جائیے۔
بین السطور پیغام سمجھئےاور بس !جہاں کہیں بھی ہیں، لوٹ آئیے:
کتنی
عیدیں گزر گئیں تم بِن
اب
خدا کے لیے نہ تڑپانا
دیکھو!پھر
عیدآنے والی ہے
عید
کے ساتھ تم بھی آ جانا
درج بالا خواہشیں تو بہت جلد پوری ہو گئی ہیں۔ لگتا ہے کہ شاعر
کی سنی گئی ہے۔ ہمیں علم نہ تھا کہ وہ کسی شاعر کو ہی بلا نا چاہتے تھے۔ بہرحال،
مدعا جو بھی تھا۔ قاصد جواب یہ لایا ہے کہ :
خوشیوں
کی شام اور یادوں کا یہ سماں
اپنی
پلکوں پہ ہر گز ستارے نہ لائیں گے
رکھنا
سنبھال کر چند خوشیاں میرے لیے
میں
لَوٹ آؤں گا تو عید منائیں گے
ایک اور شعر بھی ملا ہے مگر اِس میں بھی کہہ مکرنی کا تذکرہ
ہے۔ ہر کوئی بے وفا ہوا پھر تاہے ،کیا کِیا جائے۔
عید
ملنے ضرور آؤں گا
وعدہ
کر کےمکر گیا کوئی
عید کو بہانہ بنا کر کسی نے ساغر صدیقی سے کوئی پرانا بدلہ
چکانے کی کوشش بھی کر رکھی ہے۔ بہرحال ، ہمیں کیا ، نہ تو ساغر ؔصدیقی ہمارے چچا
کے بیٹے ہیں اور نہ ہی یہ شعر کہنے والے۔ "مثبت" آزادی ءِ اظہارِ رائے
کی تو ہر کسی کو اِجازت ہے۔ سو،وہ کہہ رہے
ہیں کہ :
چانددیکھا
ہے تو یاد آئی ہے تیری صورت
ہاتھ
اُٹھتے ہیں مگر حرف ِ دُعا یاد نہیں
"روشن خیال" قسم کے ایک شاعر بھی ملے ہیں۔ یہ
محبوب کو ٹوکیں ماررہے ہیں اور رقیب کو مبارکیں دئیے جا رہے ہیں:
اپنوں
میں جو ہے شاد اُسے عید مبارک
اور
ہم ہیں جسے یاد اُسے عید مبارک
اپنا
تو کسی طور سے کٹ جائے گا یہ دِن
تم
جس سے ملو آج اُسے عید مبارک
ایک نظر اِدھر
بھی:
کسی نے "پردیسیوں کی عید" عنوان کے تحت چند
لائینیں گھسیٹ رکھی ہیں۔ ملاحظہ ہوں:
کاش
آج میں اپنے دیس میں ہوتا
جب
بھی پردیس میں عید آتی ہے
یاد
اپنے دیس کی بہت آتی ہے
جب
عید پڑھ کے لوٹتا ہوں
میں
اپنے سنسان کمرے میں
یاد
اپنے گھر کی دہلیز آتی ہے
جہاں
جب میں عید پڑھ کے آتا تھا
کوئی دُعائیہ اشعار کے ساتھ بھی آ موجود ہوئے ہیں۔
"آمین" کے ساتھ استقبال کیجئے:
یہ
عید تیرے واسطے خوشیوں کا نگر ہو
کیا
خوب ہو ہر روز تیری عید اگر ہو
ہر
رات حسرت کے نئے گیت سنائیں
لمحات
کے پیروں پہ بھی شبنم کا ثمر ہو
یہ لیں، وہی ہوا جس کاڈر تھا۔ ہر کوئی پُونڈی میں مصروف تھا اور شاعر محبوب ہی
ڈھونڈتا رہا۔ کاش کہ ہلال کمیٹی والے اپنی دُوربینوں سے کوئی اچھا کام بھی لیتے
اور شاعر موصوف کو اُن کا بچھڑا معشوق ڈھونڈ دیتے:
ہر
شخص اپنے چاند سے تھا محوِ گفتگو
میں
چاند ڈھونڈتا رہا اور عید ہو گئی
اوور سیز کوٹے میں چند مزید اشعار بھی شامل کرتے ہیں:
مناؤ
عید ، بہارِ چمن کو یاد کرو
پیامِ
عشق کے اِک سخن کو یاد کرو
ہجومِ
شوق سے فرصت ملے تو اہلِ وطن
وطن
سے دُور کسی بے وطن کو یاد کرو
اِ ک اور شاعر ہمیں قاصد جان کر عید کارڈ لیےآن ٹپکا ہے۔
عبارت کی جگہ یہ درج کر رکھا ہے کہ :
لوگ
کہتے ہیں عید کارڈ اِسے
یہ
روایت ہے اِس زمانے کی
اِک
دستک ہے اُن ذہنوں پر
جن
کو عادت ہے بھول جانے کی
یہ بھی
پڑھیے:
شعروں شعروں میں کچھ اشارے بازی بھی چل رہی ہے:
اب
نہیں ہجر گوارہ کہ قریب آ جاؤ
عید
کا بھی ہے اِشارہ کہ قریب آ جاؤ
ایک عدد مزید شاعر محبوب کو طنز میں لپیٹ کر شعر مارتے ہوئے
ملے ہیں:
معصوم
سے اَرمانوں کی معصوم سی دُنیا
جو
کر گئے برباد ، اُنہیں عید مبارک
لیں جی! کورونا نے ہمیں ہنسنا ہی بھلا دیا ہے۔ غالباََ شاعر
بھی کچھ ایسا ہی کہنا چاہ رہے ہیں:
مصروف
ہے خلق عید کی تیاریوں میں اورمیں
محوِ
فکر ہوں کہ سب سے ہنس کر ملنا ہو گا
ایک غریب شاعر کچھ بھی پوچھنے سے منع کر رہے ہیں۔ چلیں ! ہم
کچھ نہیں پوچھتے بھئی!
احساس
ِ آرزوئے بہاراں نہ پوچھئے
دِل
میں نہاں ہے آتشِ سوزاں ، نہ پوچھئے
عید
آئی اور عیدکا ساماں نہ پوچھئے
مفلس
کی داستاں کا عنواں نہ پوچھئے
مجنوں کا والہ نامہ بھی ملا ہے ۔ یقیناََ اُسے بھی ہمارے
قاصد بننے کی خبر پہنچ گئی ہے:
رقص
کرتا تھا کانٹوں سے گلے مل مل کر
عید
صحرا میں منائی تیرے دِیوانے نے
ایک مزید شاعر بھی رقیبوں کے نصیب پہ حسد کی بجائے رشک کر
رہے ہیں:
نصیب
جن کو تیرے رُخ کی دِید ہوتی ہے
وہ
خوش نصیب ہیں ، خوب اُن کی عید ہوتی ہے
یہ کوئی فلمی گیت کار ہیں جو اپنے محبوب سے کچھ یوں مخاطب
ہوتے ہیں:
میں
نے چاہا تجھے عید پہ کچھ پیش کروں
جس
میں احساس کے سب رنگ ہوں روشن روشن
جس
میں آنکھوں سے تراشے ہوئے موتی لاکھوں
جس
میں شامل ہو میرے قلب کی دھڑکن دھڑکن
اَخیر میں نامعلوم شاعر کا شعر ۔جس میں وہ اپنے بچے کے
ہنسنے کو عید پر احسان قرار دے رہا ہے:
غربت
کے سائے میں پڑا اِک ننھا سا بچہ
جھوٹی
ہنسی سے عید پہ احسان کر گیا
آپ کی ذوقِ
نظر کی نذر:
0 تبصرے