Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

نظام

nawaiwaqt columns, daily jang columns, sohail warraich urdu columns, express columns, columnist, independent urdu, asad Mahmood, dunya newspaper, javed ch latest column, sohail warraich columns, fifth column, adventure, Asad, Columns, Urdu, Urdu Columns, Comics, Urdu Comics, Comedy, Urdu Comedy, urdu column kaar, urdu column today, urdu column daily, columnist, column ghar, column writing, funny columns, funny columns in urdu,funny column ideas, funny column names, funny column titles, funny column writers, funny column examples, Nazaam, Nizaam, urdu poetry, urdu stories, urdu kahani, urdu columns, urdu columns today, urdu columns daily, urdu columns of hassan nisar, urdu columns of orya maqbool jan, urdu columnist job, urdu colors, urdu columns javed ch, urdu columns hamid mir, columns pk, dawn urdu, dawn editorial, نظام، اسد، محمود، اسد محمود، اردو، کالم، اردو کالم، مزاح، اردو مزاح، جاوید چودھری، عطاالحق قاسمی، ابنِ انشاء، پطرس بخاری، کرنل محمد خان، شفیق الرحمٰن،

بہت سال پہلے سردیوں کے آغاز کی بات ہے۔ہاسٹل میں ایک طلباءتنظیم نے ایک جہادی تنظیم کے ایک راہنما کوکچھ وقت کے لیے مدعو کیا۔میں اکثر ایسے سیمینارز اور اجتماعات میں جانے سے گھبراتا ہوں لیکن میرے چند دوست جو اس طلباءتنظیم کا حصّہ تھے،وہ مجھے کھینچ کھانچ کراپنے ساتھ لے ہی گئے۔ہمارے ہاسٹل سے ذرا دُور واقع ایک اورطلباءہاسٹل میں نماز ِ مغرب کے بعد نشست کا اہتمام تھا۔میں اپنے دوستوں کے ہمراہ جب وہا ں پہنچا تو سورج ڈھل چکا تھا۔شفق کی سُرخی ڈوب چلی تھی ،شام کا دُھندلکادھیرے دھیرے چھا رہا تھا اور فضا میں خنکی آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔ہاسٹل کے ایک کمرے میں چٹائی بچھی تھی اور مقر ر ایک دیوار کے ساتھ چٹائی پر ہی تشریف رکھتے تھے۔کوئی چالیس پچاس کے قریب طلباءمقرر صاحب کے اِرد گرد ہی براجمان تھے۔جب سب طلباءبیٹھ چکے تو مقرر نے پہلے 45منٹ میں ”جمہوریت یا شریعت “کے عنوان سے ایک پُر فہم اور حکیمانہ گفتگو کی اور اس کے بعد طلباءکی جانب سے کیے جانے والے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔

  گفتگو کا موضوع میرے لیے نیانہیں تھالیکن اِس پر اِس قدر جامع ،مدلّل اور سیر حاصل گفتگو کبھی کسی سے نہ ہو سکی تھی۔مقرر نے ہمیں آگاہ کیا کہ ”ہم بڑے شوق سے اپنے ملک کو اِسلامی کہتے ہیں لیکن یہ کیسا اِسلام ہے کہ ہماری معیشت بھی مغربی معیشت کی طرح سُودی بنیادوں پر قائم ہے۔یہ کون سا اِسلام ہے جس کے ماننے والے ایک دوسر ے کے گلے کاٹ رہے ہیں؟یہ کون سا اِسلا م ہے جس میں قانون کی گرفت صرف غریب کے گلے تک ہے؟یہ کون سا اِسلامی ملک ہے جس میں اقتدار کی کُرسی پہ بیٹھا ہر شخص اپنے لیے استثنیٰ کا طالب ہے؟یہ ہمارا اپنا اختراع کردہ کوئی اِسلام تو ہوسکتا ہے لیکن چودہ سو سال پہلے والاخالص اِسلام ہر گز نہیں۔“میں مقررکے منہ سے ”اِسلامی جمہوریہ پاکستان“کو ”غیر اِسلامی“قرار دینے پر چونکا ضرور لیکن مقرر کے دلائل میں وزن تھا۔انہوں نے مزیدکہا کہ”اِسلام میں ایسی کسی جمہوریت کی کوئی گنجائش نہیں جس میں پارلیمنٹ قانون سازی پہ معمور ہو،اِسلام اﷲکادین ہے اور اس میں اﷲکا قانون ہی نافذہو گا۔اِسلام میں اگر کسی پارلیمنٹ کا تصور ہے تووہ یہی ہے کہ پارلیمنٹ اﷲکے بنائے ہوئے قوانین کو نافذکرے۔دینِ اِسلام میں سپریم لیڈر صرف اﷲتعالیٰ کی ذات ہے ،اُس کے علاوہ کوئی دوسرا اِس اعزاز کا حقدار نہیں ہوسکتا ۔“

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

   مقرر نے سب طلباءکو حیرت زدہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا،”پارلیمنٹ اگر اﷲکے بنائے ہوئے قوانین کو نافذ کرنے کے بجائے خود قانون بنانے بیٹھ جاتی ہے تو وہ براہ ِ راست اﷲتعالیٰ سے ٹکر لینے کی مرتکب ہوتی ہے۔اِسلام میں شریعت ہی ایک مکمل اور نافذ العمل نظامِ حیات ہے،جس میں تین چیز یں بنیادی ستونوں کی طرح ہیں:

1-قرآنِ پاک 2-سُنتِ نبویﷺ 3-اجماع“

  مقرر کی گفتگو ختم ہو چکی تھی اور میری جستجو کا آغاز ہو چکا تھا۔دوستوں کے ساتھ واپس اپنے ہوسٹل آتے ہوئے مقرر کے کہے گئے الفاظ میرے ذہن و دل کے دریچے وا کر رہے تھے۔باہر اندھیرا غالب آچکا تھا اور خنکی کافی بڑھ چلی تھی اور میں اُس طلوعِ صبح کامتمنی تھا جس کی طرف مقرر نے اشارہ کیا تھا۔ میں نے مقرر کے نکات پر مزید غور کرنا چاہتاتھا۔کچھ عرصے بعد ایک دوست نے معروف اِسلامی اسکالر اور نامور کالم نگار اَوریا مقبول جان صاحب کے کچھ کالم مجھے پڑھنے کو دیئے۔میں نے اُن کے کالمز(columns)کامطالعہ کیا تو میرا کا م کافی آسان ہوتا گیا۔

  اُن آرٹیکلز کے مطالعے سے میرے سامنے تین نظامِ حکومت آئے۔

٭ایک جمہوریت،جس کا آج ہر سُو چرچا ہے اور کوئی اِس کے خلاف بات کرنا تو دَرکنار،بات سُننے پر بھی تیار نہیں ہے۔

٭دوسرا کمیونزم،جسے مزدوروں کا نظامِ حکومت بھی کہا جاتاہے،اِس نظامِ حکومت نے بھی 1980ءتک ایک دُنیا کو اپنے سِحر میں مبتلا کیے رکھا۔

٭تیسرااِسلامی نظامِ حکومت ،جو بظاہر تو 1918ءمیں جنگ ِ عظیم اوّل کے بعد ترکی کی شکست پر اختتام پذیر ہوالیکن حقیقتاََ اِسلامی دَورکا عروج چاروں خلفائے راشدین اور پھر ایک جھلک ،حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے دَور پر مشتمل تھا۔

ادبی وی لاگز  یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

٭سب سے پہلے کمیونزم کی بات ہوجائے،اِس نظام کی اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو عِلم میں آتا ہے کہ اِسے ”وجود“میں لانے کے لیے ضروری سمجھا جاتاہے کہ پہلے تو باغیوں کے نام پرکم از کم ایک چوتھائی یا ایک تہائی آبادی کو بے دَردی سے اور سرِعام قتل کرکے خون کا دریا بہادیاجائے تاکہ کمیونزم کی کشتی کو”خشکی“پر چلنے میں رکاوٹ نہ ہواور اس لیے بھی ،تاکہ اِس نظام کے مخالفین کو”مخالفت“کی سزا بھی دکھا دی جائے کہ بعد میں کوئی ”بدمزگی“نہ ہو،اور اسی پہ موقوف نہیں بلکہ جب ”مزدور حکومت“قائم ہوجائے تو اِس نظام کواِستحکام اور ”حیاتِ جاودانی“بخشنے کے لیے باقی بچ جانے والوں میں سے بھی ایک بڑی تعداد کو ”بَلّی“چڑھادیاجائے۔ویسے کمیونزم کو روشن خیال طبقہ 1980ءسے پہلے زور و شور سے سراہتاتھا،اِس نظام کی فلاسفی یہ تھی کہ ”مِل جُل کر کھا“یعنی ایسا نظام ،جس میں تمام زمین جائیداد اور کارخانے ،فیکٹریاںحکومت کی ہوں اور سب باشندے حکومت کے لیے کام کریں اور حکومت سے رہائش ،کھانااور دیگر آشائشیں ”معاوضے“میں پائیں۔

   مادہ پرست ،روشن خیالوں کو کمیونزم نامی اِس نظامِ حکومت کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہوا کہ انڈسٹریز میں جدّت کارحجان ختم ہوگیا۔انڈسٹریز میں اگر جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے پرانے ڈیزائن اور ٹیکنالوجی میں اگر نئی اصلاحات نہ کی جائیں تو نہ صرف ”پروڈکٹ“کی مارکیٹ ویلیو کم ہو جاتی ہو بلکہ آہستہ آہستہ وہ چیز اپنی مقبولیت کھونے کے باعث مارکیٹ سے ختم ہونے لگتی ہے۔کمیو نسٹ روس کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔روسی ساختہ سبز رنگ کا ایک بہت بڑا ٹریکٹرجو روس نے دو تین دہائیاں قبل بنایاتھا،وہ محض اِس نظام کمیونزم کی ”برکت “کی وجہ آج بھی اسی ٹیکنالوجی کا حامل ہے جو دو ،تین دہائیاں قبل استعمال کی جاتی تھی،نتیجتاََاس کا استعمال کم سے کم ہوتا جارہاہے کیونکہ وہ لوہے کا پہاڑ تو ہے لیکن دوسرے ملکوں کے بنائے ہوئے بہتر کاشتکاری اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حامل ٹریکٹرز کے سامنے ہیچ ہے۔

٭دوسرا نظامِ حکومت جمہوریت جس کی سادہ تعریف یہ ہے کہ ”عوام کی طرف سے عوام کے لیے عوامی حکومت“لیکن اگر اِس نظامِ حکومت کاتجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ سرمایہ داروں کا نظام ہے اور اِس کی بنیاد یںسُودی بینکنگ پر اُستوار ہیں اور حکمران نامی اشرافیہ کا ایک طبقہ ،عوام پر کثیر تعداد میں محصولات )ٹیکس(عائدکر کے اِس نظام کو چلاتے ہیں۔اِس نظام میں ہزاروں خامیوں کے ساتھ سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اِس میں اَچھے اور بُرے کی کوئی پہچان نہیں ہے۔جس کے ساتھ زیادہ ووٹ ہوں گے،وہی اس رِزم کا فاتح ہو گااور کسی بھی اَسمبلی میں صرف وہی قرارداد منظور ہوگی جس کے حق میں زیادہ اَسمبلی اَرکان کے ہاتھ کھڑے ہوں گے چاہے اِس قرارداد میں ہزاروں عیب اور لاکھوں سقم ہی کیوں یہ ہوں۔اگر اکثریت اِس کے حق میں فیصلہ دے دیتی ہے تو وہ قرار داد منظور ہوگی۔

ایک نظر اِدھر بھی:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

   اَمریکہ میں اِن دِنوں ”وال اسٹریٹ تحریک“زوروں پر ہے چند ہزار لوگ ہیں جو ہاتھوں میں بِل بورڈز اُٹھائے اِس سرمایہ دارانہ نظامِ حکومت کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کیے ہوئے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ ہم 99%ہیں لیکن ہم پر%1سرمایہ دار ہیں جو قابض ہیں ۔”پاکستانی جمہوریت “کا کیا حال ہے ،یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں،”پاکستانی جمہوریت “کو صرف ایک محاورے میں یوں سمویا جاسکتا ہے کہ ”جس کی لاٹھی ،اُس کی بھینس“۔

٭اب تیسرا نظامِ حکومت ہے جو کہ اِسلامی خلافت کا نظام ہے لیکن نجانے کیاوجہ ہے کہ محض اس کے ذکر پرہی ہمارے روشن خیال حکمران اور نام نہاد دانشور حواس باختہ اور سِیخ پاہوئے جاتے ہیں۔یہ ایسا نظام ہے جس سے بہتر نظامِ حکومت ممکن نہیں ۔نظامِ خلافت کی بنیادیں عدل اور مساوات جیسے سنہرے اُصولوں پرہیں۔اِسلامی معاشی نظام کی بنیادیں سُود پر ہیں اور نہ ہی زبردستی کے محصولات)ٹیکس(پر،بلکہ اس کی بنیادیں،صاحبِ حیثیت لوگوں سے زکوٰةلے کر مستحق افراد میں بانٹنے اور غیر مسلموںسے جزیہ لے کر اُن کی حفاظت کرنے میں ہیں۔اَمیر سے غریب تک دولت کی منقلی کا ایسا طریقہ اور کسی نظامِ حکومت میں نہیںہے اور اِسلامی نظامِ عدل کی پرچھائیاں تو آج تک یورپ و اَمریکہ میں نظر آتی ہیں ۔یہ ایسا نظامِ عدل ہے جس میں حکمران بھی قاضی کے سامنے کانپتے ہوئے کٹہرے میں کھڑاہوتاہے اور اُس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا جاتاہے ۔ایسا عدل کا نظام ہے یہ ،کہ اِس میں قاضی وقت جو آدھی دُنیا کاحکمران بھی ہے،اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے 80کوڑے مارتاہے ،اِس بات کادھیان کیے بغیر کہ وہ زندگی سے بھی بےگانہ ہوچکاہے۔

  دیگر معاشی نظاموں لوگ ٹیکس ادا کرنے سے بچنے کے لیے ہر طرح کی مکاری اور بہانے بازی کرتے ہیں کیونکہ ٹیکس ادا نہ کرنے پراُنہیں حکومت کو جوابدہ ہونا پڑتا ہے اور جہاں سے ”بَرّیت“کے کافی طریقے ہیں ،اگر آپ کے پاس دولت ہو،اور اِن نظاموں میں سرمایہ دار ساری زندگی ،سرمایہ دار اورغریب،غریب ہی رہتا ہے جبکہ اِسلامی نظامِ حکومت میں صاحبِ حکومت اپنی مرضی سے زکوٰة دیتا ہے اور ایسانہ کرنے پہ وہ اﷲتعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہوتاہے ،جو دِلوں تک کے بھَیدوں سے خوب واقف ہے اور یہ زکوٰة جیسااعلیٰ نظام ہی ہے جس کی وجہ سے کوئی سرمایہ دار زخیرہ اَندوزی کامتحمل نہیں ہوسکتا۔

  قارئین کرام!الیکشن کی آمد سے قبل ،ایک کالم نگارکی حیثیت سے میں نے یہ فرض سمجھاکہ آپ کو رائج الوقت تمام نظاموں اور اُن کے اَوصاف سے آگاہ کر دوں کیونکہ میراجہاں تک خیال ہے ہمارے حکمران بُرے نہیں ہیں بلکہ بُرا یہ نظام ہے جو ہماری تین نسلوں کو نِگل چکاہے ۔اب آئندہ نسلوں کو آپ کیسا دیکھنا چاہتے ہیں ،یہ آپ کے ہاتھ میں ہے!

یہ بھی پڑھیے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے