Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہُو ہی سہی

 Nahi Jo Bada o Saghar To, Faiz, Faiz Ahmed Faiz, Conspiracy, Pakistan, Politics, Global Politics, Review, Dr Tariq Aziz, Nayi Adbi Jehtain, Asad, Hope

شمالی وزیر ستان میں  ڈرون حملہ ، دہشت گردوں  کا سرغنہ ہلاک ، کئی افراد زخمی....

فوجی گشتی پارٹی پہ حملہ ، آفیسر سمیت کئی سپاہی شہید، بہت سے زخمی....

راولپنڈی، اسلام آباد میں  مارکیٹ پہ خود کش بم حملہ، درجنوں  افراد شہید، سینکڑوں  زخمی....

کوئٹہ ، پشاورمیں  بازار میں  دھماکہ ، بے شمار افراد لقمہءِاجل بن گئے....

کراچی میں موت کا کھیل جاری، ٹارگٹ کلنگ میں  کئی شہری جان کی بازی ہار گئے....

یہ خبروں  کے وہ نمونے ہیں  جو ذراسی ترامیم کے ساتھ ملک ِپاکستان کے قریباََ ہر اخبار میں  دیکھے جاسکتے ہیں ۔صرف شہروں  کے نام بدلتے ہیں  یا پھر ہلاک شدگان کی تعداد۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی خبریں  ، اب خبریں بھی نہیں  رہیں ۔یہ ہمارے روزمرہ معمول کا حصہ بن چکی ہیں ۔یہ خبریں  وہ بدقسمت حادثے بن چکے ہیں  کہ جن کو دیکھ کر لوگ منہ موڑ لیتے ہیں  لیکن اپنا رستہ نہیں  بدلتے ۔

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا

لوگ ٹھہرے نہیں  حادثہ دیکھ کر

ملاحظہ ہوں شرطیہ مٹھے بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، خود کش حملے، ڈرون حملے یہ تمام بیماریاں ہمارے معاشرے کو اب اس بُری طرح سے لاحق ہو چکی ہیں  کہ ان حالات میں  ایک عجیب ہی طرح کی بے یقینی کی فضا چار سُو پھیل گئی ہے ۔ جہاں  کسی دور میں  بلبل چہچہاتے تھے۔ کوئلیں  کوکتی تھیں  ۔جھرنے بہتے تھے اور اُن کے سریلے نغمے سننے والوں  کے رگ وپے میں نشاط و سرمستی سی بھر بھر دیتے تھے۔ آج وہاں  بارود کی بُو، گولیوں  کی آوازیں  دیگر تمام آوازوں  پہ غالب ہیں ۔ بے حسی اور موت کی سرگوشیاں  ہر سو سرسراتی معلوم پڑتی ہیں ۔ فضا میں  بلبل اور کوئلوں  کی جگہ گدھوں  نے لے لی ہے۔قیامت کی نشانیوں  کا تو سنا کرتے تھے لیکن ایسی ہر روز کی قیامتوں  کے بارے میں  بھلا کب کسی نے کبھی سوچا تھا؟

دہشت گردی کی بیماری مہلک سے مہلک تر ہوتی جارہی ہے۔ حکومت اور موت کے سوداگروں  کے مابین مذاکرات یا جنگ کی خبریں  آئے روز ملتی رہتی ہیں ۔دنیاوی بیماری اگر طول اختیار کر جائے تو سب سے پہلے دوا میں  اُس کا علاج ڈھونڈا جاتا ہے۔اگر پھر بھی مراد بر نہ آئے تو ٹونے ٹوٹکے آزمائے جاتے ہیں ۔اس کے باوجود بھی اگر بات نہ بنے تو پھر راضی بہ رضا ہی علاج سمجھا جاتا ہے۔

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

حکومت کو زمانے میں  مروج علاجوں  میں  سے کسی ایک کی تلاش میں  ہے لیکن میں  ذرا سا ہٹ کے سوچتا ہوں  ۔ میرے خیال میں  عقل سے مارواءحل بھی موجود ہوتے ہیں مثلاََ میرا ایک دوست تصوف کے بارے میں  کافی کچھ جانتا ہے ۔ اس نے ایک مرتبہ مجھے رَت جگے کی فضیلت کے بارے میں  بتایا تھاکہ قوم ِ لوط سے ایک رات کے لیے محض اس وجہ سے عذاب ٹل گیا تھا کہ وہ لوگ تمام رات جاگتے رہے تھے۔ میں  نے اس وقعے سے رَت جگے کو مصیبت کے ٹلنے کا علاج جاناتھا۔

 مجھے اب دہشت گردی کے لیے ایسے ہی، مروج علاج سے ہٹ کر، کسی نسخے کی تلاش تھی۔چند دن قبل لائبریری کھنگالتے ہوئے اتفاق سے میرے ہاتھ ڈاکٹر طارق عزیز کی کتاب”نئی ادبی جہتیں “ لگی اور اس میں  مجھے ایک علاج نظر آیا ۔پہلی نظر میں  شاید آپ اسے درخورِ اعتناءنہ جانیں  لیکن آزما لینے میں  حرج ہی کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے لکھا تھا کہ

" گریہ زاری محض افراد کی زندگی میں  ہی نہیں  بلکہ تہذیبوں  کی تہذیب میں  بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جب کوئی قوم تہذیبی سطح پر لاوارث ہوجائے تو اس کے افراد نفسیاتی طور پر عدم تحفظ، بے یقینی اور بے معنویت کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ایسی صورت ِحال کا علاج میاں  محمد بخشؒ نے اپنے ایک شعر میں  بتایا تھاکہ

لسے دا کیہ زور محمد

نس جانا یا رونا

] یعنی محمدبخش کمزور کا زور یہی ہے کہ بھاگ جائے یا رو لے ["

ملاحظہ ہوں شرطیہ مٹھے بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

ڈاکٹر طارق عزیز کے مطابق :

"اگر کوئی قوم مندرجہ بالا بیماریوں  کا شکار ہوجائے تو یا تو گریہ و زاری کا عمل شروع ہوجاتا ہے یا پھر ہجرت کا۔ لیکن یہ دونوں  عمل شکست کا اعلان نہیں  ہوتے بلکہ یہ صورت ِ حال کے خلاف ردِ عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں  ۔ آنکھوں  سے رواں  آنسو یا پھر ہجرت کرتے وقت قدموں کے نشانوں  سے اُٹھتی گردِراہ اس بات کا اعلان ہوتے ہیں  کہ ہم نے سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ ہم ایک نہ ایک دن اپنا حساب ضرور طلب کریں  گے۔"

آپ اس بات کو سرسری مت لیں ، مذاق میں  ہی نہ ٹالیں ۔ جب مریض پہ زمانے کی دوائیں  اور دعائیں  اثر کرنا چھوڑ دیں  تو پھرٹونے ٹوٹکے ہی آزمائے جاتے ہیں ۔ میرے خیال میں  یہ ٹونہ کوئی اتنا مشکل بھی نہیں  ہے ۔ کیوں نہ اس پہ عمل کر دیکھا جائے کہ شاید ہرسُو چھائی ظلم و بربریت کی دھند میں ذرا افاقہ ہو،شاید جاں  بلب انسانیت کو کچھ چین آجائے۔دہشت ،دھاندلی اوردھونس کے زمانے میں  شایدہمارے آنسو ہی کارگر ہو جائیں  ۔ فتح کی اُمید میں  کب تک ہم لاشے وصول کرتے رہیں  گے ؟ آئیے ! مل کر روتے ہیں اور عباسؔ تابش کو یاد کرتے ہیں ۔

اب اور کتنا جیوں  فتح کی اُمید کے ساتھ

تھک گیا ہوں میں  لاشے وصول کرتے ہوئے

یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے