آخر
ہم کس راہ پہ چل نکلے ہیں ؟ہمارا کیا بنے گا؟“
یہ
آپ کا سوال ہے ۔آپ اس سوال کے جواب کی تلاش میں نکلتے ہیں ۔ راہ گیروں کو روک روک کر پوچھتے ہیں ۔ملک کی کسی بھی
یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم کسی طالب علم سے
پوچھتے ہیں ۔کھیتوں میں اپنے کام میں جُتے کسان سے پوچھتے ہیں ۔ریلوے اسٹیشن، پوسٹ
آفس یا کسی اور ادارے میں بیٹھے کسی
سرکاری ملازم سے پوچھتے ہیں ۔ساحلِ سمندر
پہ چہل قدمی کرتے کسی ملاح کو روک کر پوچھتے ہیں تو سب کی طرف سے ایک ہی جواب موصول ہوتا ہے:
”اِس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا“
آپ
حیرت زدہ ہو کر وجہ پوچھتے ہیں تو پھر ایک ہی جواب پاتے ہیں کہ
”آئے دن تو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں حکمرانوں کی کرپشن کی کہانیاں چَھپ رہی ہیں ۔ایسے میں ملک کیا خاک ترقی کرے گا؟“
آپ
ان تمام خواتین و حضرات کی حبّ الوطنی اور دُوراندیشی کے قائل ہوجاتے ہیں اور مزید کوئی سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں لیکن ایک سوال مزید اُٹھتا ہے کہ
”یا الٰہی! جب یہاں ہر بندہ ہی اس قدر ایمان دار اور فرض شناس واقع
ہوا ہے تو یہ دوغلے اور کرپٹ حکمران کہاں سے ٹپک پڑے ہیں کہ حاکم تو رعایا کا پرتَو ہوتے ہیں ؟“
لیکن
اندر کی کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔
خوش ذائقہ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
پنجاب
یوتھ فیسٹیول نے پچھلے برس بیالیس ہزار نوجوانوں کے ایک ساتھ قومی ترانہ پڑھنے کا عالمی ریکارڈ
قائم کیا تھا ۔ یہ ریکارڈ گزشتہ سال ہی بھارت نے ایک لاکھ اکیس ہزار چھ سو تریپن
افراد کی مدد سے اپنے نام کر لیا تھانیز سب سے زیادہ افراد کا قومی پرچم لہرانے کا
ریکارڈ سپین کے پاس ہے جہاں تیس ہزار
افراد نے ایک ساتھ پرچم لہرایا تھا۔پنجاب یوتھ فیسٹیول کے کرتا دھرتاؤں نے اس سال ایک لاکھ پچھتر ہزارنوجوانوں کی مدد سے یہ دونوں ریکارڈ توڑنے کا ارادہ کیا ہے ۔
اس
مقصد کے لیے پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس کے گراؤنڈ کا انتخاب کیاگیا ہے ۔چوبیس فروری
کو ہونے والے اتنے زیادہ ہجوم کی مشکلات کا اندازہ کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے
ہاسٹلز کی تزئین وآرائش آئے روز جاری ہے لیکن اَصل کہانی یہ نہیں بلکہ کچھ اورہے، اَصل کہانی دراصل یہیں سے شروع ہوتی ہے:
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
گزشتہ
کافی عرصے سے ہمارے ہاسٹل کے واش رومز (Wash Rooms) کے
ساتھ نصب واش بیسنز (Wash Basins)میں
سے تین خراب تھے ۔دو بُری طرح ٹوٹے ہوئے
تھے ۔کوئی تین دن پہلے صبح صبح میں اُٹھا
تو دیکھا کہ زوروشور سے واش رومز کے دروازوں اور واش بیسنز کی مرمت کاکام جاری ہے۔ گزشتہ دو
تین برسوں کی خامیاں حکومتی توجہ سے محض چند گھنٹوں میں درست ہو گئیں ۔لیکن اگلے دن میں صبح واش روم میں نہا رہا تھا کہ باہر ایک ”سر پھرے“طالب علم کی
آواز کانوں میں پڑی جوواش رومز کی صفائی پہ مامور ملازم سے کہہ
رہا تھا کہ
”اچھا تو یہ بے ایمانی ہوئی ہے یہاں !“
”کون
سی ؟ کیا مطلب؟“
ورکر
کی آواز میں پریشانی کے آثارواضح تھے۔
مزید دِل چسپ بلاگ:
چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ
جعفری
”اب
معلوم ہوا ہے کہ کل ٹھیکیدار بار بار کیوں کہہ رہا تھا کہ میں یہ کام تو کر رہا ہوں لیکن آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ غیرقانونی ہے“
”سرپھرے“
کی باتوں کاجواب پھر گول مول موصول ہوا:
”کون
سی بے ایمانی کی بات کر رہے آپ؟“
”اس
بے ایمانی کی“
”سرپھرے“
نے غالباََواش بیسنز کی طرف اشارہ کیا۔
”یہاں
تین واش بیسنز خراب تھے۔اطراف والے دونوں کی نسبت درمیان والا کچھ بہتر تھا لیکن اطراف
والے دونوں تو بدل دیئے گئے ہیں۔ اوردرمیان
میں نیا نہیں لگایا گیا بلکہ دائیں جانب والا اُتار کر درمیان والے کی جگہ لگادیا
گیا ہے اور درمیان والا(جو نسبتاََ بہتر حالت میں تھا) خُرد بُرد کر دیاگیا ہے“
اس
کے بعد ورکر کے منہ سے چند گھبراہٹ زدہ لایعنی آوازیں ہی نکلیں لیکن مجھے علم ہو گیا کہ اس میں ورکر کا بھی چنداں قصور نہیں ہے۔اس میں ہاسٹل کے ”بڑے“ ملوث تھے یاپھر ”بڑوں “کی
ناک کے نیچے موجود کارندوں میں سے کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو بیٹھاتھا اور ”بڑوں “ کو اس کو مطلق
خبر نہ تھی۔
یہ
ہے ہمار ا اَصل چہرہ جو ہمیں کبھی دیکھنے
کی توفیق نہیں ہوتی۔ لیکن ہمارے ہاں رَسم بن چکی ہے کہ اُستاد پڑھانے میں ڈنڈی مارتا ہے۔طالب علم پڑھائی میں غفلت برتتا ہے ۔دکاندار کم تولتا ہے ۔سرکاری
ملازمین اپنے اپنے درجے کے مطابق دن بھر کرپشن میں مصروف رہتے ہیں اور شام کوسبھی تھڑوں ،بیٹھکوں ، چوپالوں ،قہوہ خانوں اور ریسٹورنٹس میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر حکومت کوگالیاں دیتے ہیں ۔
یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:
0 تبصرے