Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

حق سچ جمہوریت

 Haq Sach Jamhuriyat, Democracy, Dictatorship, Deep state, Pakistan Politics, Global Politics, Asad Mahmood, Javed Ch, Hamid Mir, Asad Toor, Sohail,

جمہوریت پاکستان میں  مستحکم ہوئی جا رہی ہے ۔ جس کا ثبوت آئے روز بڑھتے ہوئے بم دھماکوں  اور آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگا ئی سے بآسانی ملتاہے۔   جمہوریت کی ان برکتوں  سے متعلق چند باتیں  میں  نے سپردِ قلم کی ہیں  ۔ لیکن ان سے مستفید ہونے کے لیے حاکم بننا اوّلین شرط ہے ،وگرنہ یہ نگارشات محض فکاہیہ تحریر ہی رہ جا ئیں  گی۔

جمہوریت پسندی:

بات پاکستان میں  بارش کے بعد ہر سمت سے امڈ آنے والے کیڑے مکوڑوں  کی طرح پائی جانے والی سیاسی جمہوری پارٹیوں  کی جمہوریت پسندی اور جمہوریت کے لیے بے اَنت محبت سے شروع ہوتی ہے۔یہ پارٹیاں  اس قدر جمہوریت پسند ہیں  کہ ملک کے ہر مربع انچ پہ جمہوریت کے پودے اُگانے کی متمنی ہیں  لیکن خود پارٹی کے اندر”چراغ تلے اندھیرا “کی روش قائم رکھے ہوئے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں  کسی بھی جمہوری پارٹی کے اندر جمہوریت نہیں  ہے تقریباََ تمام بڑی پارٹیوں  پہ بڑے بڑے خاندان اور ”بھائی لوگ“ قابض ہیں ،شاید ان لوگوں  کا اندر کھاتے یہ خیال ہے کہ محض ملک میں  ہی جمہوریت کافی ہے ،سو، اس نحوست کو پارٹی کے اندر بھی پھیلانے کی کیا ضرورت ہے۔

آپ کے ذوقِ نظر کی نذر:

میرے ندیمؔ

چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق

جلد بازی کی مخالفت:

جمہوری قاعدے کاپہلا سبق تو یہی ہے کہ کام سے دامن بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے لیکن اگر کبھی کبھار ستارے گردش میں ہوں  اور کا م کیے بنا کوئی چارہ نہ ہو تو اِس ضمن میں  بھی جمہوری قاعدے میں  مندرجہ ذیل ہدایات موجود ہیں :

چونکہ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے ،اس لیے کام آہستہ آہستہ اورخوب سوچ سمجھ کر کیا جانا جمہوریت کی شان ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ گرم کھانا کھانے سے دانت گر جاتے ہیں  لہٰذا اگر جمہوریت کے دانتوں  کو گرنے سے بچانا مقصود ہو تو کھانے کو ٹھنڈا کر کے کھانا ضروری ہے ۔اِس ضمن میں  چند ذیلی فارمولے بھی فی زمانہ حکومتوں  نے وضع کر رکھے ہیں ۔ جن میں  ”ڈنگ ٹپاؤ “ اور ”ڈنگ مارو“ سب سے اہم ہیں ۔ان فارمولہ جات کے تحت بعض اوقات ”کھانا“ٹھنڈا کرنے میں  اتنی دیر لگائی جاتی ہے کہ اس وقت تک کئی غریبوں  اور سائلوں  کے چولہے اور بدن ٹھنڈے ہوجاتے ہیں ۔

کمیٹی کی تشکیل:

جمہوریت کا حسن ایک اور انتہائی سادہ فارمولے میں  پنہاں  ہیں  اور وہ فارمولا ہے :

”مٹی پاؤ“

یقین مانیں  کہ اگر یہ فارمولہ نہ ہوتا تو شاید اب تک ہم لوگ چاند کے ویرانوں  پہ ٹھڈے کھا رہے ہوتے ۔ صرف یہ فارمولہ ہی تھا جس نے ہمیں  اوقات میں  اور ہمارے قدم زمین پر رکھے ہوئے ہیں ۔کمیٹی کی تشکیل دراصل اسی فارمولے کی عملی شکل ہے۔ جمہوریت میں  عموماََ کمیٹیاں  تھوک کے حساب سے ملتی ہیں  بالکل ویسے ہی جیسے آج کل انجمنیں  اور NGO's۔ جہاں  بھی کوئی سے دو بندے ہمنوا نکلیں  تو کوئی نہ کوئی انجمن یا NGOبن جا تی ہے(اگر دونوں  مرد ہوں  تو انجمن،دونوں  خواتین یا ایک مرد اور ایک خاتون ہو توNGO) ۔ بلکہ اب تو یہ حال ہے کہ اینٹ اُکھاڑو تو کوئی بچھو یا سانپ چاہے نکلے یا نہ نکلے ،آٹھ دس انجمنیں  اور چالیس پچاس NGO'sضرور نکل آتی ہیں ۔ اور NGO'sمیں  سے تو بعض ایسی ہیں  کہ جنہوں  نے کام کرنے اور کام نہ کرنے کے الگ الگ شعبے بنا رکھے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

ہر اہم اور جلد حل طلب مسئلے پہ حکومت ایک عدد کمیٹی یا کمیشن بنا دیتی ہے اور پھر اس کمیشن کی نگرانی کے لیے ایک اور کمیشن اور پھر چل سو چل....

 مشہور کمیشن جنہوں  نے چند دن میں  مسئلہ حل کردیا مندرجہ ذیل ہیں :

1)    حمودالرحمان کمیشن

2)    ایبٹ آباد کمیشن

3)    سلالہ چیک پوسٹ کمیشن وغیرہ وغیرہ

اپنی ”خدمت“آپ:

کئی نئے اور پرانے محاوروں  کوعوام کے وسیع مفاد میں  فارمولوں  کی شکل میں  ڈھال کران پہ عمل کرنا بھی جمہوری اقدار کا ایک اہم جزو ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت مستقبل قریب ایسی کوئی علیحدہ وزارت ہی بنا دے اور وزرات ِ اطلاعات ونشریات اس کے زیرِ نگیں  کام کرے۔فی الحال حکومتی ایوانوں  میں  استعمال ہونے والے چند چیدہ چیدہ محاورے مندرجہ ذیل ہیں  :

1)    اپنی مدد آپ

2)    لکڑ ہضم ،پتھر ہضم  (اور اسی طرز پہ ٹرین ہضم، پی آئی اے ہضم،بجلی ہضم،مِلیں  ہضم وغیرہ)

اشرافیہ کا خیا ل ہے کہ عوام کی حالت بدلنے سے پہلے خود کی حالت بدلنا ضروری ہے ۔ اسی لیے دنیا بھر کی آسائشیں  ان کے ہاں  پائی جاتی ہیں ۔حکمران طبقے کو اگر دنیا کے کسی کونے میں  ہونے والی کسی نئی ایجاد کی بھنک بھی پڑ جائے تو قومی خزانے سے کروڑوں  روپے خرچ کرکے بطور آزمائش ضرور خریدتے ہیں ۔  اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ ہر نئی چیز پہلے پہل جانوروں  پہ ہی آزمائی جاتی ہے۔

ایک نظر اِدھر بھی:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

اوّل خویش بعد درویش:

کہا جاتا ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دَور میں  اُس سے اگر کوئی عہدیدار مالی حالات کی تنگی کا رونا روتا تو مہاراجہ ”خزانوں “ کے منہ کھول دیتے بلکہ خزانوں  کی ”چابیاں “ ہی ان کے حوالے کر دیتے اور فرماتے کہ

 ”جا تِن کالیاں  راتاں  تینوں  دِتیاں “

(جاؤ!مہینے کی چاند کے بغیر تین کالی راتیں  تمہیں  دیں )

اور عہدیدار صاحب ان تین راتوں  میں  خوب لوٹ مار مچاتے اور اپنے خزانے بھر لیتے اور رنجیت سنگھ کے حصے میں  عہدیداران کی دعائیں اور عوام کی بددعاؤں  کا دلکش امتزاج آتا ....

جمہوریت کے بارے میں  محض ایک جملے میں  بات تمام کی جاسکتی ہے کہ جمہوریت بھی رنجیت سنگھ کے عین نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دونوں  ہاتھوں  سے عوام اور خواص کی ”مناجاتیں “سمیٹ رہی ہے۔

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے