اگست
،ستمبر کے دنوں میں اپنے گاﺅں
سے جب کبھی کسی کام کے سلسلے میں نزدیکی شہر
جانا ہو،مجھے ہمیشہ ایک مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔گاﺅں
سے شہرجانے کے دو راستے ہیں ۔ایک
پکی سڑک جو مزید تین چار گاﺅں
اور دیہاتوں میں سے گزرتی ہوئی شہر پہنچتی ہے۔اس کی لمبائی کوئی 06سے
08کلومیٹر کے لگ بھگ ہے لیکن خستہ حال ایسے ہوچکی ہے کہ آدمی کسی بھی گاڑی پہ جارہا
ہو،یہی معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کسی گدھاگاڑی پر سوار ہو۔
شہر جانے کا ایک دوسرا راستہ
بھی ہے۔گاﺅں اور شہر کے قریباََوسط میں ایک برساتی
نالہ پڑتاہے۔اس نالے تک ایک کچی سڑک بنی ہوئی ہے۔اس سڑک پر ہر پانچ سال بعد الیکشن
سے قبل ایک بلڈوزر پھیردیا جاتاہے اور عوام کو نوید سُنائی جاتی ہے کہ
”آپ
بس ہمیں منتخب کریں ۔جس دن ہم
الیکشن جیتے ،اُسی دن یہ سڑک پکی ہونا شروع ہو جائے گی “
اور
ہمارے سیاسی راہنماﺅں
کی مستقل مزاجی دیکھیں کہ پچھلے تقریباََ10سے12سال
سے اسی وعدے پر کامیاب ہوئے جارہے ہیں اور
عوام کی دور اندیشی ملاحظہ ہو کہ 10سے12سالہ تجربے کے باوجود بھی وہ انہی ”سچے “راہنماﺅں
کو منتخب کیے جارہے ہیں۔ میں اور
دوسرے پیدل چلنے والے حضرات گاﺅں
سے شہر جانے کے لیے یہی راستہ اختیار کرتے ہیں کیونکہ اس
کی طوالت اڑھائی سے تین کلومیٹر ہے۔
ایک نظر اِدھر بھی:
اس راستے پر جاتے ہوئے برساتی
نالہ پار کرہیں تو ایک چھوٹی سی پہاڑی سر اُٹھائے آپ کو کوہ پیمائی
پرآمادہ کرتی ہے اورجب آپ پُھولے ہوئے سانس کے ساتھ اسےسَر کرچکیں توآگے اُونچی
،نیچی ڈھلوانوں اور چھوٹے چھوٹے سرسبز کھیتوں
اور کھیلانوں کا ایک دلچسپ امتزاج ملتاہے ۔کھیتوں ،کھلیانوں کے بندوں پر بیری کے بہت سے درخت جابجا اور بکثرت پائے جاتے
ہیں ۔
اب سال کے باقی 10ماہ اِس
راستے سے گزرنا کوئی مشکل بات نہیں لیکن ا گست اور ستمبر کے مہینے میں مجھے اِس راستے سے گزرتے ہوئے کئی دُشوار کُن مراحل
عبور کرنا پڑتے ہیں ۔وجہ یہ ہے کہ ان بیری
کے درختوں پر جابجاکوے”پناہ گزین “ہیں اور یہ درختوں کے رہائشی ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے
افغان مہاجر بھائی ،جو تین دہائیاں قبل پاکستان
آکر واپسی کا راستہ بھول گئے تھے۔یہ کوے ایک عجیب سی خصلت رکھتے ہیں ۔اگست ،ستمبرکے
مہینوں میں مادہ کوے
انڈے دینے اور پھر اُن انڈوں سے بچے نکلنے
کا مرحلہ مکمل کرتے ہیں لیکن اُدھر ان کوﺅں
کے بچے نکلتے ہیں اور اِدھر
یہ ہر انسان کو اپنا جانی دشمن سمجھ لیتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ کوئی
بھی انسان ”زندہ سلامت“ان درختوں کی طرف نہ
بڑھ سکے،جن کے اُوپر گھونسلوں میں ان کے بچے
محو ِاِستراحت ہوتے ہیں ۔
یہ
خوبی تو ہر جاندار میں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دشمنوں سے بچاتاہے لیکن ایسا عموماََ تب ہوتا ہے جب کوئی
دشمن ان پر حملہ آور ہوتا ہے لیکن کوے کا اپناآئین ہے نہ کوئی دستور ۔کوئی بھی شخص
،جو چاہے راستہ بھول کر ہی سہی،اُن درختوں کے نیچے سے گزرنے کی کوشش کرے تو یہ کوانامی مخلوق
نہ صرف چیخ چیخ اور کائیں کائیں کر کے سر پہ اُٹھالیتے ہیں بلکہ یہ کسی ای میل،موبائل فون کی سہولت کے بغیر
ہی محض کائیں کائیں کرنے کی صلاحیت کی بدولت ہی اُس علاقے میں موجود تمام
کوﺅں کواپنی مددکے لیے اکٹھاکر لیتے ہیں اور پھر یہ کوﺅں
کی فوجمحض اِسی پر اِکتفا نہیں کرتی بلکہ
”دشمن “پر باقاعدہ ”ہوائی حملے“شروع کر دیتی ہے اور سر پر ٹھونگیں مارمار کر انہیں واقعتادُم
دبا کربھاگنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔
یہ بھی
پڑھیے:
کوﺅں کی خصوصی شفقت کی بدولت وہ مجھے اِس ”اعزاز“کا کچھ زیادہ ہی حقدار سمجھتے ہیں لہٰذاماہِ اگست یاستمبر میں ،میں جب بھی اس راستے پہ انہیں نظر آجاﺅں ،وہ غول کے غول میرے استقبالکو اُمڈ آتے ہیں ۔ پھر اکثر یہی ہوتا ہے کہ میں زمین پہ اپنا راستہ دیکھنا کے بجائے آسمان پر اُڑتے اور درختوں پہ مورچہ زن کوﺅں کو دیکھتا رہتا ہوں تاکہ اُن کی اس ”عزت افزائی“سے بچ سکوں ۔
ان کوﺅں
کے حملہ کرنے کے اندازدیکھ بھی یہی لگتا ہے
کہ یہ کسی ہوائی تربیت کی اکیڈمیسے باقاعدہ تربیت یافتہ ہیں کیونکہ وہ
دشمن کی حکمت عملی دیکھ کر مختلف حربے آزماتے ہیں ۔ ایک دفعہ
تو یوں ہوا کہ میرے سر کے بال کافی بڑھے ہوئے
تھے اور سیدھا سر پہ ٹھونگ مارنے سے شاید کوے کو یہ خطرہ تھاکہ کہیں وہ ”دشمن“کے
ہاتھ ہی نہ آجائے،تو کوے نے وہ حربہ اختیار کیا جو اُمید ہے کہ کوﺅں
کی حربی تاریخ میں سنہری لفظوں
سے لکھا جائے گا۔کوے نے کِیایہ کہ آہستگی سے
اُڑتا ہوا مجھ پہ یوں حملہ آور ہوا جیسے سر
پہ ٹھونگ مارنے آیا ہو۔میں نے اپنا سر بچایا تو وہ میرے کا ن کے عین سامنے اپنے
پھیپھڑوں کے سارے زور سے”کائیں ں ں ں “کرتاہواگزر گیا۔ حواس بحال ہونے پر میں نے خدا کا
شکر ادا کیا کہ کان کاپردہ سلامت رہ گیا۔
کوے چاہے کچھ بھی کرہیں لیکن انسان
بھی آخر اشرف المخلوقات ہے۔سو،میں نے بھی ایک کم خرچ،بالانشیں قِسم کا نسخہ ڈھونڈ لیاہے۔ اب چاہے کسی بھی مہینے
میں مجھے کوے کی ایک کائیں بھی سُنائی دے جائے یاکہیں دُور دراز
کسی درخت پر یا کسی مکان کی منڈیر پرکوئی کوا جھانکتا نظر آجائے۔میں گرددوپیش سے بے
خبرہوکر سر پہ ہاتھ سے پنکھاجھلنے لگتاہوں اور تب تک یہ عمل جاری رکھتاہوں جب تک کہ کوا مجھ پہ حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر کے
نظروں سے اوجھل نہ ہوجائے۔
آپ کی ذوقِ
نظر کی نذر:
چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ
جعفری
صاحبو!منشاءہماری اتنا لمبا
کالم لکھ کر آپ کو بور کرنے کی نہ تھی بلکہ مقصد محض یہ تھا کہ امریکہ بہادر اور ہمارے
کوﺅں کی بعض خصلتوں میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے ۔ہماری معلومات اور
مشاہدے کے مطابق کوا،اگست ستمبر میں انسان دشمن اور Anti-Humanبن
جاتا ہے۔ جب کہ امریکہ سال کے 12ماہ مسلم دُشمنی پر آمادہ رہتاہے۔جیسےکوا کسی انسان
کو محض راستے سے گزرتا دیکھ کر کائیں کائیں کرکے دوسرے کوﺅں
کو اپنی مددکے لیے اکٹھاکرلیتا ہے ۔ ایسے
ہی امریکہ کوبھی کسی مُسلم ملک کی صنعتی و معاشی میدان میں ترقی ہضم
نہ ہو تو وہ کوے کی مانند میڈیا اور پراپیگنڈے کا استعمال کرکے تمام کان کے کچوں
کو اپناحلیف بنالیتاہے۔کوا،سر پہ ٹھونگیں مارمارکے انسان کی حالت بگاڑ دیتاہے اورامریکہ ڈیزی
کٹر،ایٹم بم اور کروز میزائلوں کی برسات سے
لاکھوں مردوں،عورتوں اور بچوں کو جان سے مار ڈالتاہے ۔کروڑوں کو زندہ دَر گور کر
دیتاہے ۔
امریکہ میں ہولوکاسٹ
جیسے مفروضے پر تو آزادیءِاِظہارِرائےکااِطلاق نہیں ہوتا لیکن
جونہی بات مسلمانوں کے خلاف اور آنحضرت نبیءِ
کریمﷺکے خلاف گستاخانہ خاکوں اورحالیہ فلم
جیسی جسارتوں کی ہوتو تمام اہلِ مغرب کے پیٹ
میں آزادیءِاظہارِرائےکے مروڑ اُٹھنے
لگتے ہیں ۔
تاریخ دیکھئے توامریکہ ہر
اُس شخص سے ڈرتاہے جو اُسی کی زبان میں بات کرتاہو۔ پھر چاہے وہ ایران ، شمالی کوریا ہو
یا پھر اُسامہ بن لادن اور ڈاکٹر ایمن الظواہری۔
گو تشدد کبھی بھی تشدد کا جواز نہیں ہو سکتا۔ لیکن ہمارے دانشور بھلے ہی ہزارحجتیں
بیان
کریں لیکن انہیں بھی بالآخر
یہ حقیقت تسلیم کرنا ہی پڑے گی کہ اگر امریکہ کی دشمنی بُری ہے تو اس کی دوستی اس سے
بھی بُری ہے۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
0 تبصرے