Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

مجھے اِن کوؤں سے بچاؤ!

Crow, thirsty crow, white crow, naughty crow, America, urdu poetry, urdu stories, urdu kahani, urdu columns, urdu columns today, urdu columns daily, urdu columns of hassan nisar, urdu columns of orya maqbool jan, urdu columnist job, urdu colors, urdu columns javed ch, urdu columns hamid mir, columns pk, dawn urdu, dawn leaks, dawn editorial, poetry urdu, poetry pics, poetry foundation, poetry love, poetry sms, poetry quotes, poetry out loud, poetry sad, shayari in urdu, shayari love, shayari in urdu sad, shayari love urdu, shayari pic, urdu poetry, urdu sad poetry, urdu love poetry, urdu poetry sms, urdu poems, poetry images, poetry about love, shayari hindi, biography, ghazal, kavita, kavi summelan, mushaira, Urdu Fun Stories, Hindi Fun Stories, Roman Fun Stories, nawaiwaqt columns, daily jang columns, sohail warraich urdu columns, express columns, columnist, independent urdu, asad Mahmood, dunya newspaper, javed ch latest column, sohail warraich columns, fifth column, adventure, Humor & Jokes, Movie Reviews, Previews  & Listings, Sports Fan Sites & Blogs, Poetry, Political News & Media, Meme, Memes, Funny Memes, Asad, Columns, Urdu, Urdu Columns, Comics, Urdu Comics, Comedy, Urdu Comedy, urdu column kaar, urdu column today, urdu column daily, columnist, column ghar, column writing, funny columns, funny columns in urdu,funny column ideas, funny column names, funny column titles, funny column writers, funny column examples, urdu poetry, urdu stories, urdu kahani, urdu columns, urdu columns today, urdu columns daily, urdu columns of hassan nisar, urdu columns of orya maqbool jan, urdu columnist job, urdu colors, urdu columns javed ch, urdu columns hamid mir, columns pk, dawn urdu, dawn editorial, اسد، محمود، اسد محمود، اردو، کالم، اردو کالم، مزاح، اردو مزاح، جاوید چودھری، عطاالحق قاسمی، ابنِ انشاء، پطرس بخاری، کرنل محمد خان، شفیق الرحمٰن، کوے، شرارتی کوے، مجھے اِن کوؤں سے بچاؤ، اُف یہ کوے، کوے کی سی خصلت،

اگست ،ستمبر کے دنوں  میں   اپنے گاں  سے جب کبھی کسی کام کے سلسلے میں   نزدیکی شہر جانا ہو،مجھے ہمیشہ ایک مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔گاں  سے شہرجانے کے دو راستے ہیں  ۔ایک پکی سڑک جو مزید تین چار گاں  اور دیہاتوں  میں   سے گزرتی ہوئی شہر پہنچتی ہے۔اس کی لمبائی کوئی 06سے 08کلومیٹر کے لگ بھگ ہے لیکن خستہ حال ایسے ہوچکی ہے کہ آدمی کسی بھی گاڑی پہ جارہا ہو،یہی معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کسی گدھاگاڑی پر سوار ہو۔

   شہر جانے کا ایک دوسرا راستہ بھی ہے۔گاں  اور شہر کے قریباََوسط میں   ایک برساتی نالہ پڑتاہے۔اس نالے تک ایک کچی سڑک بنی ہوئی ہے۔اس سڑک پر ہر پانچ سال بعد الیکشن سے قبل ایک بلڈوزر پھیردیا جاتاہے اور عوام کو نوید سُنائی جاتی ہے کہ

”آپ بس ہمیں   منتخب کریں   ۔جس دن ہم الیکشن جیتے ،اُسی دن یہ سڑک پکی ہونا شروع ہو جائے گی “

اور ہمارے سیاسی راہنماں کی مستقل مزاجی دیکھیں  کہ پچھلے تقریباََ10سے12سال سے اسی وعدے پر کامیاب ہوئے جارہے ہیں  اور عوام کی دور اندیشی ملاحظہ ہو کہ 10سے12سالہ تجربے کے باوجود بھی وہ انہی ”سچے “راہنماں  کو منتخب کیے جارہے ہیں۔  میں  اور دوسرے پیدل چلنے والے حضرات گاں سے شہر جانے کے لیے یہی راستہ اختیار کرتے ہیں   کیونکہ اس کی طوالت اڑھائی سے تین کلومیٹر ہے۔

ایک نظر اِدھر بھی:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

اس راستے پر جاتے ہوئے برساتی نالہ پار کرہیں   تو ایک چھوٹی سی پہاڑی سر اُٹھائے آپ کو کوہ پیمائی پرآمادہ کرتی ہے اورجب آپ پُھولے ہوئے سانس کے ساتھ اسےسَر کرچکیں   توآگے اُونچی ،نیچی ڈھلوانوں  اور چھوٹے چھوٹے سرسبز کھیتوں  اور کھیلانوں  کا ایک دلچسپ امتزاج ملتاہے ۔کھیتوں  ،کھلیانوں  کے بندوں  پر بیری کے بہت سے درخت جابجا اور بکثرت پائے جاتے ہیں  ۔

اب سال کے باقی 10ماہ اِس راستے سے گزرنا کوئی مشکل بات نہیں   لیکن ا گست اور ستمبر کے مہینے میں  مجھے اِس راستے سے گزرتے ہوئے کئی دُشوار کُن مراحل عبور کرنا پڑتے ہیں  ۔وجہ یہ ہے کہ ان بیری کے درختوں  پر جابجاکوے”پناہ گزین “ہیں  اور یہ درختوں  کے رہائشی ایسے ہی ہیں   جیسے ہمارے افغان مہاجر بھائی ،جو تین دہائیاں  قبل پاکستان آکر واپسی کا راستہ بھول گئے تھے۔یہ کوے ایک عجیب سی خصلت رکھتے ہیں   ۔اگست ،ستمبرکے مہینوں  میں   مادہ کوے انڈے دینے اور پھر اُن انڈوں  سے بچے نکلنے کا مرحلہ مکمل کرتے ہیں  لیکن اُدھر ان کوں  کے بچے نکلتے ہیں   اور اِدھر یہ ہر انسان کو اپنا جانی دشمن سمجھ لیتے ہیں  اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں   کہ کوئی بھی انسان ”زندہ سلامت“ان درختوں  کی طرف نہ بڑھ سکے،جن کے اُوپر گھونسلوں  میں   ان کے بچے محو ِاِستراحت ہوتے ہیں  ۔

یہ خوبی تو ہر جاندار میں   ہے کہ وہ اپنے بچوں  کو دشمنوں  سے بچاتاہے لیکن ایسا عموماََ تب ہوتا ہے جب کوئی دشمن ان پر حملہ آور ہوتا ہے لیکن کوے کا اپناآئین ہے نہ کوئی دستور ۔کوئی بھی شخص ،جو چاہے راستہ بھول کر ہی سہی،اُن درختوں  کے نیچے سے گزرنے کی کوشش کرے تو یہ کوانامی مخلوق نہ صرف چیخ چیخ اور کائیں   کائیں   کر کے سر پہ اُٹھالیتے ہیں  بلکہ یہ کسی ای میل،موبائل فون کی سہولت کے بغیر ہی محض کائیں   کائیں   کرنے کی صلاحیت کی بدولت ہی اُس علاقے میں   موجود تمام کوں  کواپنی مددکے لیے اکٹھاکر لیتے ہیں  اور پھر یہ کوں  کی فوجمحض اِسی پر اِکتفا نہیں   کرتی بلکہ ”دشمن “پر باقاعدہ ”ہوائی حملے“شروع کر دیتی ہے اور سر پر ٹھونگیں  مارمار کر انہیں   واقعتادُم دبا کربھاگنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

کوں  کی خصوصی شفقت کی بدولت وہ مجھے اِس ”اعزاز“کا کچھ زیادہ ہی حقدار سمجھتے ہیں   لہٰذاماہِ اگست یاستمبر میں   ،میں   جب بھی اس راستے پہ انہیں   نظر آجاں  ،وہ غول کے غول میرے استقبالکو اُمڈ آتے ہیں   ۔ پھر اکثر یہی ہوتا ہے کہ میں   زمین پہ اپنا راستہ دیکھنا کے بجائے آسمان پر اُڑتے اور درختوں  پہ مورچہ زن کوں  کو دیکھتا رہتا ہوں  تاکہ اُن کی اس ”عزت افزائی“سے بچ سکوں ۔

ان کوں  کے حملہ کرنے کے اندازدیکھ بھی یہی لگتا ہے کہ یہ کسی ہوائی تربیت کی اکیڈمیسے باقاعدہ تربیت یافتہ ہیں   کیونکہ وہ دشمن کی حکمت عملی دیکھ کر مختلف حربے آزماتے ہیں   ۔ ایک دفعہ تو یوں  ہوا کہ میرے سر کے بال کافی بڑھے ہوئے تھے اور سیدھا سر پہ ٹھونگ مارنے سے شاید کوے کو یہ خطرہ تھاکہ کہیں   وہ ”دشمن“کے ہاتھ ہی نہ آجائے،تو کوے نے وہ حربہ اختیار کیا جو اُمید ہے کہ کوں  کی حربی تاریخ میں   سنہری لفظوں  سے لکھا جائے گا۔کوے نے کِیایہ کہ آہستگی سے اُڑتا ہوا مجھ پہ یوں  حملہ آور ہوا جیسے سر پہ ٹھونگ مارنے آیا ہو۔میں   نے اپنا سر بچایا تو وہ میرے کا ن کے عین سامنے اپنے پھیپھڑوں  کے سارے زور سے”کائیں     ں  ں  ں “کرتاہواگزر گیا۔  حواس بحال ہونے پر میں   نے خدا کا شکر ادا کیا کہ کان کاپردہ سلامت رہ گیا۔

کوے چاہے کچھ بھی کرہیں   لیکن انسان بھی آخر اشرف المخلوقات ہے۔سو،میں   نے بھی ایک کم خرچ،بالانشیں  قِسم کا نسخہ ڈھونڈ لیاہے۔ اب چاہے کسی بھی مہینے میں  مجھے کوے کی ایک کائیں  بھی سُنائی دے جائے یاکہیں   دُور دراز کسی درخت پر یا کسی مکان کی منڈیر پرکوئی کوا جھانکتا نظر آجائے۔میں گرددوپیش سے بے خبرہوکر سر پہ ہاتھ سے پنکھاجھلنے لگتاہوں  اور تب تک یہ عمل جاری رکھتاہوں  جب تک کہ کوا مجھ پہ حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر کے نظروں  سے اوجھل نہ ہوجائے۔

آپ کی ذوقِ نظر کی نذر:

میرے ندیمؔ

چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق

صاحبو!منشاءہماری اتنا لمبا کالم لکھ کر آپ کو بور کرنے کی نہ تھی بلکہ مقصد محض یہ تھا کہ امریکہ بہادر اور ہمارے کوں  کی بعض خصلتوں  میں   حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے ۔ہماری معلومات اور مشاہدے کے مطابق کوا،اگست ستمبر میں   انسان دشمن  اور Anti-Humanبن جاتا ہے۔ جب کہ امریکہ سال کے 12ماہ مسلم دُشمنی پر آمادہ رہتاہے۔جیسےکوا کسی انسان کو محض راستے سے گزرتا دیکھ کر کائیں کائیں کرکے دوسرے کوں  کو اپنی مددکے لیے اکٹھاکرلیتا ہے ۔ ایسے ہی امریکہ کوبھی کسی مُسلم ملک کی صنعتی و معاشی میدان میں   ترقی ہضم نہ ہو تو وہ کوے کی مانند میڈیا اور پراپیگنڈے کا استعمال کرکے تمام کان کے کچوں کو اپناحلیف بنالیتاہے۔کوا،سر پہ ٹھونگیں   مارمارکے انسان کی حالت بگاڑ دیتاہے اورامریکہ ڈیزی کٹر،ایٹم بم اور کروز میزائلوں  کی برسات سے لاکھوں  مردوں،عورتوں اور بچوں  کو جان سے مار ڈالتاہے ۔کروڑوں کو زندہ دَر گور کر دیتاہے ۔

   امریکہ میں   ہولوکاسٹ جیسے مفروضے پر تو آزادیءِاِظہارِرائےکااِطلاق نہیں   ہوتا لیکن جونہی بات مسلمانوں  کے خلاف اور آنحضرت نبیءِ کریمﷺکے خلاف گستاخانہ خاکوں  اورحالیہ فلم جیسی جسارتوں  کی ہوتو تمام اہلِ مغرب کے پیٹ میں  آزادیءِاظہارِرائےکے مروڑ اُٹھنے لگتے ہیں  ۔

  تاریخ دیکھئے توامریکہ ہر اُس شخص سے ڈرتاہے جو اُسی کی زبان میں   بات کرتاہو۔ پھر چاہے وہ ایران ، شمالی کوریا ہو یا پھر اُسامہ بن لادن  اور ڈاکٹر ایمن الظواہری۔ گو تشدد کبھی بھی تشدد کا جواز نہیں ہو سکتا۔ لیکن ہمارے دانشور بھلے ہی ہزارحجتیں   بیان کریں   لیکن انہیں   بھی بالآخر یہ حقیقت تسلیم کرنا ہی پڑے گی کہ اگر امریکہ کی دشمنی بُری ہے تو اس کی دوستی اس سے بھی بُری ہے۔

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے