Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

نا شُکرا کہیں کا!

 Na Shukra Kahin Ka, Urdu, Columns, Asad, Asad Mahmood, Javed Ch, Hamid Mir, Asad Toor, 1st May, Labor Day, Afsana, writeup,

دن کے آٹھوں  پہر اُس پہ تین طرح کی کیفیات ہی غالب رہتی تھیں ۔اوّل، وہ خود کو بَڑ کے درخت کا ایک سر سبز پتا سمجھتا ،جوایک نئی نویلی شاخ کے دامن میں  جلوہ گر ہو،روز و شب کے میلے میں  بیتنے والے آلام و مصائب سے بے پروا، محض ”تصوّرِ جاناں “ کیے ہوئےایسا اُسے بچپن اورلڑکپن میں  اکثر محسوس ہوتا تھا۔

ایسا اُسے اب بھی محسوس ہوتا تھا جب دن بھر ،12گھنٹے مزدوری کے بعد اُجرت ملا کرتی تھی۔ دوم،وہ خود کو ،بڑ کے درخت سمیت خزاں  کی زد میں  پاتا ۔اس کے اردگرد،اس کے ہمنوا پتے اِک ایک کرکے شاخوں  سے جھڑتے جارہے ہوتے اوراُس کی نظریں  اپنی مسلسل زرد ہوتی حالت پہ جمی ہوتیں ،خود پہ اپنی نظریں  محسوس کرتے ہی اس کی حالت مزید ”حِنا رنگ“ ہونے لگتی اور وہ گھبرا کر حقیقت سے نظریں  چرانے لگتا۔

محض اپنی توجہ بٹانے کو،وہ اپنے گرتے ہوئے ہمنواں  کاغم منانے یاماتم کرنے کے بجائے،ان پتوں  کی خزاں  گزیدگی کو اپنی تفریحِ طبع کا ذریعہ سمجھ لیتا۔ایسی کیفیات اُس پہ اکثر اس وقت طاری ہوتی تھیں جب وہ دسمبر کی یخ بستہ سردی یا جون جولائی کی تپتی ہوئی دوپہروں  میں  مزدوری میں  مصروف ہوتا۔

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

ایک تیسری کیفیت بھی تھی جس میں  وہ خود کو خزاں  گزیدہ پتا سمجھتا جو خزاں  کی ستم ظریفی کے باعث بڑسے جدا ہوگیا ہواور اب ہواکے دوش پہ اِدھر اُدھر ،بے وجہ ،بن چاہے اُڑتا چلاجارہا ہو،جیسے اس کا رنگ دھیرے دھیرے مٹی جیسا ہورہا ہواور کچھ ہی دیر میں  وہ خود بھی مٹی میں  مل کر مٹی ہونے والا ہو۔یہ آخر الذکر کیفیت اُس پہ تب طاری ہوتی جب وہ اپنے حالات پہ نظر دوڑاتا ،تلخی ءِ حیات کی گرد اُس کی آنکھوں  کے پیوٹوں  میں  چبھنے لگتی اور وہ بے اختیار اپنی آنکھیں  بند کر لیتا۔

وہ پیشے کے لحاظ سے ایک ڈرائیور تھا،عبدالرشید عرف استاد شیدا ، وقت کا گرداب آہستہ آہستہ اُسے سمندر برد (یا شاید خرد برد)کیے جارہا تھا، اُس کے اُس کے سیاہ بالوں  میں اب چاند ی سی اُترنے لگی تھی اور چہرہ اب تاثرات سے عاری ہو چکا تھا۔وہ صبح سویرے مالک کے گھر پہنچتا ،وہاں  سے گاڑی لیتا اور ملک کے ایک حصے سے مسافروں  کو لے کے تین چار سو کلومیٹر دور ایک شہر میں  پہنچاتا اور پھر دن ڈھلے وہاں  کی سواریوں  کو لے کر واپس چل پڑتا۔رات گئے گھر پہنچتا ،کھاناکھا کے سو پڑتااور اگلے دن پھر وہی روٹین ،پھر وہی معمول!

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

اُسے یاد تھا کہ شروع شروع میں  اُسے بھی دیگر مسافروں  کی طرح سفر تکلیف دہ لگتا تھالیکن وہ اِردگردکے نظارو ں  میں  مگن وقت گزار ہی لیتا تھا۔وقت کے ساتھ یہ ہوا کہ سفر کی تکلیف توختم ہوگئی ،سفر اُس کی عادت کا حصہ توبن گیالیکن اِردگردپھیلے خوش کن مناظر اُس کے لیے بے رنگ ہوگئے۔وہ وقت کی بھٹی میں  جل جل کر ایک اینٹ کی مثل سخت ہو گیا تھا ،بالکل اُسی طرح احساسات و جذبات سے عاری!

عبدالرشید”چٹا اَن پڑھ“ تھالیکن اُس کا استاد وقت تھا۔زمانے کے رسوم وقیود سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔دنیا داری نبھانا بھی اُسے خوب آتا تھاالبتہ اُسے ایک میٹرک پاس ڈرائیور کی باتیں  ،جو اُسے روز لاری اڈے پہ ملتا تھا،عام لوگوں  سے ہٹ کر لگتی تھیں ۔ باقی ڈرائیوروں  کے ساتھ وہ بھی بڑے غور سے اُس کی باتیں  سنتا تھا،کڑوی ،کسیلی ،سچی اور کھری باتیں !لیکن کبھی کبھی تو وہ اُسے بالکل پاگل لگتا تھا جیسا کہ ابھی چند دن پہلے ہی وہ انہیں  اخبار کی ایک خبر سنا رہاتھاکہ حکومت نے ”یومِ مزدور“ پہ مزدوروں  کی اُجرت بڑھانے اور انہیں  خراجِ تحسین پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

 اس بات پہ تمام ڈرائیوروں کے چہرے پہ خوشی رقص کرنے لگی تھی لیکن آج دن کو لاری اڈے پہ جب ایک ڈرائیور نے اُس سے حکومت کے مزدوروں  کی اُجرت میں  اضافے کے متوقع فیصلے کے بارے میں  پوچھا تھاتو وہ بولا کہ

”حکومتوں  کو مزدوروں  کے حالات سے کیا دلچسپی ؟ وہ تو بس ڈرامے کرتی ہیں  ڈرامے“

سب ڈرائیوروں  نے اُس 'پڑھے لکھے' ڈرائیور کو غصے سے دیکھا تھا جو ”ہاتھ آتی “ روزی پہ لات مار رہا تھا ۔

”تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو؟“

تین چار آوازیں  اُبھری تھیں ۔

”تم سب نہیں  سمجھو گے،کہنے والے کہتے ہیں  کہ قوموں  کو متحد رکھنے کے لیے ایک مشترک دشمن کی ضرورت ہوتی ہے لیکن میں  کہتا ہوں  کہ ہماری حکومتوں  عوام کی توجہ بٹانے اور انہیں  منتشر رکھنے کو ڈراموں  کی ضرورت ہوتی ہے،اور یہ اعلان بھی انہی ڈراموں  میں  سے ایک ہے“۔

”پڑھا لکھا“ ڈرائیور کچھ اور بھی کہہ رہا تھا لیکن وہ دوسرے ڈرائیوروں  کے ساتھ اُس سے منہ موڑ کر چل دیاتھا کہ ایسا بھی کوئی کہتا ہے،بھلا ہاتھ آتی روزی کو کوئی یو ں  بھی دھتکارتاہے؟اُسے لگا تھا کہ اس کی کنپٹیوں  کے اندر دوڑتے خون کی جلن میں  اضافہ سا ہو گیا تھا۔ اُسے یہ بھی محسوس ہوا تھا کہ اُس کے ذہن پہ شب و روز مسلط کیفیتوں  میں  ایک اور کیفیت کا اضافہ ہو گیا تھا۔اُس پڑھے لکھے جاہل ڈرائیورکی عقل پہ ماتم کرنے کی کیفیت ،جو ”بے حسی“ کی اُس انتہا پہ تھا کہ ہاتھ آتی روزی ،جس کا حکومت نے خاص طور پراعلان کیا تھا،اُس کوبھی جھٹلارہا تھا،ناشکرا کہیں  کا!

آپ کے ذوقِ نظر کی نذر:

میرے ندیمؔ

چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. The Greatest Online Casinos and Games for USA Players
    Here is a 메리트 카지노 쿠폰 list 인카지노 of the best gambling sites to play USA online today. The 1xbet top casino games you can play for real money are NetEnt, Microgaming

    جواب دیںحذف کریں