ویلنٹائن ڈے، محبت کا عالمی دن، ہر سال 14 فروری کو منایا جاتا ہے۔ اس دن محبت کرنے والے ایک دوسرے کو پھول، کارڈز اور تحائف دیتے ہیں اور اپنے پیار کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دن کی تاریخ کیا ہے؟ ویلنٹائن ڈے کا کیا پس منظر ہے؟ اور اس کے پیچھے کیا کہانیاں ہیں؟ اگر اپ اب تک بے بہرہ تھے تو جان لیں کہ یہ تہوار ہے دل والوں کا۔ اس کے پس منظر میں جھانکیں تو تین کہانیاں سامنے آتی ہیں۔ آئیے باری باری ان کا مطالعہ کرتے ہیں:
ویلنٹائن ڈے کا پس منظر |
پہلی کہانی:
یہ کہانی تیسری صدی عیسوی کے روم سے تعلق رکھتی ہے۔ اس وقت کے بادشاہ کلاودیوس نے کسی جنگی مہم کا قصد کیا تو عوام نے کوئی خاص دلچسپی نہ دکھائی۔ بادشاہ غصے سے بپھر گیا۔ اس دور میں یہ مثل مشہور تھی کہ
بیٹے ماؤں کے نہیں بلکہ شاہوں کے ہوتے ہیں۔
کلاودیوس نے وزیروں مشیروں سے لوگوں کی جنگوں میں عدم دلچسپی کا پتہ لگانے کہا۔ وزیر مشیر گھوم گھام کے حاضر ہوئے اور بتایا کہ لوگ اب محبت کرنے لگے ہیں۔اب ان سے جنگ ہو گی، نہ اس کی امید رکھیں۔ بادشاہ غضب ناک ہوا اور محبت اور شادی پر پابندی لگا دی۔ اسی عہد میں ایک پادری نے انقلاب لانے کی سعی کی۔ نام اس درویش کا ویلنٹائن تھا۔ اس نے اس ظالمانہ حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پہلے اپنی شادی رچائی۔ اور پھر دیگر جوڑوں کی خفیہ شادیاں کرانا شروع کر دیں۔ جب بادشاہ کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے 'وچولے انقلابی' ویلنٹائن کو گرفتار کر لیا اور 14 فروری کو اسے پھانسی دے دی۔
دوسرا قصہ:
ویلنٹائن ڈے کا دلچسپ پس منظر |
ایک اور کہانی کے مطابق، ویلنٹائن اسی بادشاہ کے دور میں روم میں پادری تھا۔ وہ ان مسیحیوں کو رومی جیلوں سے فرار کروانے میں مدد کرنے لگا۔ جنہیں وہاں مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ویلنٹائن ان کے لیے ایک امید کی کرن بن گیا۔ اس نے ایک ایک کر کے کئی عیسائیوں کو فرار ہونے کی راہ دکھائی۔ مگر ہونی تو ہو کر رہتی ہے۔ ایک دن پکڑا گیا اور بادشاہ نے حسب بادشاہی اس کو لٹکا دیا تاکہ باقی ویلنٹائن عبرت پکڑیں۔
مزید دِل چسپ بلاگ)یہ ہم نہیں، لوگ کہتے ہیں):
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
تیسری داستان:
ویلنٹائن ڈے کا مزے دار پس منظر |
اس کہانی میں تھوڑا مزید مسالہ ڈالا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بادشاہ نے ویلنٹائن کو پابند سلاسل کر دیا۔ جہاں جیلر کی بیٹی اس پر مر مٹی۔ ویلنٹائن بھی حسب عادت اور حسب سابق اس پر مر مٹا۔ جیلر کی بیٹی اس کے لیے پھول لاتی رہی۔ اور ان دونوں کی محبت مہکتی رہی۔ ویلنٹائن کو جب پھانسی کی سزا سنائی گئی تو اس نے جیلر کی بیٹی کو مرتے دم ایک خط لکھا۔ جس کے آخر میں اس نے لکھا، "تمہارا ویلنٹائن۔"
حالانکہ یہ عام سا ہی واقعہ تھا مگر عوام میں یہ کسی خراب ٹک ٹاک کی طرح وائرل ہوا۔ اور لوگوں نے ویلنٹائن کی برسی پر اس کا 'عرس' منانے کی بجائے اپنے اپنے 'یار' منانے شروع کر دئیے۔ ویلنٹائن کو 14 فروری 270 عیسوی کو پھانسی دی گئی تھی۔ اور تبھی سے یہ محبت کا دن منایا جا رہا ہے۔
حرف آخر:
ویلنٹائن ڈے کا پس منظر خاصہ دلچسپ ہے۔ عباس تابش یاد آگئے:
یہ جو ہے پھول ہتھیلی پہ، اسے پھول نہ جان
مرا دل مرے جسم سے باہر بھی تو ہو سکتا ہے
دنیا میں چونکہ نفرت بہت زیادہ ہے تو محبت کا ایک دن منا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس واقعے کے پیچھے کی سچی جھوٹی تاریخ مزید دلچسپی کا سامان لیے ہوئے ہے۔ چاہے آپ ان کہانیوں کو سچ مانیں یا سرے سے کہانیاں ہی نہ مانیں۔ کارڈ ، خطوط اور چٹھیوں والے ان محبت نامے بھیجنے والوں کو کچھ مت کہیے گا۔ اگر اپ نے انہیں کچھ کہا بھی تو انہوں نے کون سا رک جانا ہے؟
شرطیہ کٹھے مٹھے بلاگ:
0 تبصرے