باہمی موبائل چیٹنگ میں بھی بے شمار 'ادبی شاہکار' ہوتے ہیں ۔یہ بات یوں بھی درست ہے کہ ایک تو ہم کہہ رہے ہیں اور دوسرے وہ شہ کار بھی عموماََ ہمارے ہی ہوتے
ہیں ۔ مثلاََ اب یہی دیکھ لیں کہ ہم کافی
عرصے بعد ایک دوست کو شعریہ میسج کرتے ہیں تو جواب کچھ یوں ملتاہے:
''اچھا !آپ ؟ تو کیاآپ زندہ ہیں ؟''
اس پہ ہماری رگ ِ ظرافت کہ موقع کی تلاش میں رہتی ہے
پھڑک اُٹھتی ہے۔اور ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں کہ
''زندہ نہیں ہوں پر
قبرستانوں میں بھی اچھا بھلا نیٹ ورک آتا ہے''
اس پہ وہ بظاہر ہماری ہاں میں ہاں
ملاتے مگر حقیقت میں نیچا دکھانے کی
کوشش کرتے ہیں:
''جبھی تو میں کہوں
کہ آپ کی قل خوانی میں تو بذاتِ
خود شریک ہوا تھا اور بریانی میں اَدھ گلے
چاولوں کے ساتھ چڑیا کے لیگ پیس (Leg
piece)بھی تناول کیے تھے''
شرطیہ مٹھے
بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
اب ہم اس ستم کوش کو چڑے کے لیگ پیس کی
افادیت بتانے سے گریز کرتے ہوئے ایک اور پتھر جواب میں اچھالتے ہیں :
''پیس تو پیس ہوتا ہے نا چاہے لیگ پیس ہو ٹائم پیس یا پھر کوئی ٹائم والا پیس ''
غالباََ وہ ہمارافلسفہ آمیزمکے سے
محفوظ رہتے ہیں جبھی سیدھے سیدھے کیچڑ
اُچھالتے ہیں :
''اچھا!اچھا!ویسے قبرستان میں کس حال میں ہو کہ
دُنیا میں تو کوئی کل سیدھی نہیں تھی تمہاری''
ہم طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے اب
پتھر کو دعوت کے کاغذ میں لپیٹ کر دے
مارتے ہیں :
''یہاں بھی وہی عیش ہیں کبھی قریب سے گزر ہو تو حاضری دینا''
اور اس کے راوی چپ ہی چپ لکھتا ہے ۔
شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ حاضری والی بات پہ برافروختہ ہوگئے ہوں کہ موصوف کو یونیورسٹی
کے چار سالوں میں بھی کلاس میں دو چار مرتبہ ہی حاضر دیکھا گیا تھا۔
یہ بھی
پڑھیے:
0 تبصرے