Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

غیر ملکی سیاحوں کا سفرنامہ ٔ پاکستان

Asad Mahmood, Urdu Comics, Urdu Columns, Ghair Mulki Seyahon Ka Safar Nama-e-Pakistan, Ata ul Haq Qasmi, Safar Nama e Lahore, Comedy, Fun, Javed Chdry

تمہیدی وضاحت:

عنوان اگر آپ کو آشنا سا محسوس ہو تو چونکنے کی ضرورت نہیں  ہے ۔ محترم عطاالحق قاسمی 'ایک غیر ملکی سیاح کاسفرنامہ ٔ لاہور 'کے نام سے بے شمار 'بلاک بسٹر' کالم لکھ چکے ہیں  جو اسی نام سے کتابی صورت میں  بھی موجود ہیں  ۔انہوں  نے کالموں  کی یہ سیریز1980ء کے عشرے میں  لکھی تھی ۔ہم اپنے ملتے جلتے نام کے کالم کے لیے وہی دلیل دیں  گے جو شفیق الرحمن کے ایک کردار نے 'تزک ِنادری'میں  ہندوستان پر حملے کے لیے نادرشاہ کو دی تھی کہ

'بہت دنوں  سے ہندوستان پر حملہ نہیں  ہوا اِس لیے ہمیں  حملہ کردیناچاہیے'

یہ نہیں  کہ ہمارے پاس صرف یہی ایک دلیل ہے ۔دلائل کے سلسلے میں آپ نے وہ لطیفہ تو سنا ہوگا کہ ایک بیوی نے لڑتے لڑتے خاوندپر دس پندرہ گھناؤنے الزامات لگائے توشوہر نے دہائی دی کہ

'یہ سب جھوٹ ہیں '

تو بیوی تنک کر بولی:

 'اچھا !اب میں  دو چار جھوٹ بھی نہیں  بول سکتی؟'

یہ بھی پڑھیے:

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق

جائیے! منہ دھو رکھئے

ہم خواہ مخواہ معذرت خواہ ہیں

تو کالم کے مرکزی خیال کا کریڈٹ عطاالحق قاسمی صاحب کو دیتے ہوئے ہم چند دلائل مزید آپ کی عدالت میں  پیش کرتے ہیں ۔

٭ چونکہ قاسمی صاحب نے اپنے کسی کالم پر یہ نہیں  لکھا کہ

'ملتے جلتے ناموں  سے دھوکہ نہ کھائیں '

سو،  ہم چاہتے ہیں  کہ لوگ دھوکہ کھائیں  اور اس کالم کو بھی وہی مرتبہ نصیب ہو  جو قاسمی صاحب کی تخلیقات کے حصے میں  آیاتھا۔

٭قاسمی صاحب کے سفرنامے 1971ء کے جانکاہ حادثے کے بعد لکھے گئے تھے ۔سانحات کے بعد چونکہ ہماری قومی یکجہتی کافی زوروں  پر ہوتی ہے ۔ غالباََ اسی لیے وہ سفرنامے لاہور کے گرد گھوماکرتے تھے ۔یا شاید اس لیے بھی کہ قاسمی صاحب دریاکو کوزے میں  بند کرنا جانتے تھے۔اب جہاں  تک ملکی حالات کی بات ہے کہ تو کافی عرصے سے کوئی بڑاحادثہ ہوا نہیں  ہے۔ اس لیے صوبائی ریشہ دورانیاں  عروج پر ہیں  ۔ اور ہم قومی خدمت کے جذبے سے سرشار اس 'کالمی سفرنامے 'کادائرہ ِ کار پورے پاکستان تک پھیلارہے ہیں ۔

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

اختراعات:

اب بالکل ایسا بھی نہیں  کہ ہم قاسمی صاحب کے آئیڈیا کو جوں  کا توں قبول کرلیں  ۔اور نقاد ہماری کاوش کو 'علمی سرقہ' قراردے دیں۔ہم چند نئی چیزیں  کالم میں  شامل کررہے ہیں  تاکہ آپ کی دلچسپی قائم رہے اور ناقدین اِسے 'توارد'سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکیں۔

اس سفر نامے کی بنیادی کہانی دوبرطانوی سیاحوں سفید فام جان کیمبل اور سیاہ فام لورا کے گرد گھومے گی ۔ باقی آپ جان کیمبل کی زبانی ہی سنیے:

لوراسے ملاقات:

غالباََ ایک عرب کہاوت میں  سفر کو Sufferکہا گیا ہے لیکن عرب کہاوتیں  برطانیہ کے حوالے سے زیادہ درست ثابت نہیں  ہوتیں کیونکہ اگر ایساہوتا تو لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر پاکستان روانگی سے محض چند لمحے قبل میری ملاقات لورا سے نہ ہوتی ۔وہ بھی پاکستان ہی جارہی تھی ۔24سالہ سیاہ فام لورا کنگسٹن یونیورسٹی میں  میڈیاسائنسز کی طالبہ ہے ۔

جب ہم دونوں  کی علم ہوا کہ ہماری منزل ایک ہے تو ہم نے لندن سے لندن تک کا سفر ایک ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا۔پاکستان میں  ہم لوگ Living relationshipیا جسے لوراPortable relationshipکہتی ہے  میں  رہے ۔اور لندن واپسی پر اپنی اپنی راہ چل دیئے۔اس میں  کوئی شک نہیں  کہ ہم برطانوی زبردست 'جگاڑو'ہیں ۔یہ پنجابی لفظ میں  نے لاہور میں  سیکھا تھا اور اُردو میں  اس کے قریب قریب لفظ منصوبہ ساز ہے۔

آپ کی عمرکیا ہے؟:

جیساکہ میں  نے آپ کو لورا کے بارے میں  بتایا ۔وہ مجھ سے کچھ چھوٹی تھی ۔لیکن پاکستانی لوگ غیرملکیوں  کی عمر کے حوالے سے کافی دلچسپی لیتے ہیں  ۔جبھی ہم لوگ جس سے بھی ملے ۔اس نے یہ سوالات ضرور پوچھے اور ان کے مخصوص جوابات پائے۔

مجھ سے پوچھا جاتا:

''آپ کی عمر کیا ہے ؟''

میرا جواب ہوتا :

''میں  لورا سے چند ماہ بڑاہوں ''

اگلا سوال لورا سے ہوتا:

''اور آپ کی عمرکتنی ہے ؟''

''میں  جان سے چند ماہ چھوٹی ہوں ''

 لورا جواب دیتی ۔

یہ سلسلہ ایک دو Exceptionsکے ساتھ ہر جگہ ایسے ہی چلا۔

یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

نام اور رشتے کے معاملات:

ہمارے نام اور باہمی رشتے کے حوالے سے بھی پاکستانی لوگ کافی Consciousتھے ۔میرا First Nameجان اور Sur Nameکیمبل ہے ۔جسے میں  بعض اوقات جے کیمبل بھی لکھتاہوں ۔لیکن اکثر پاکستانی اس ترتیب کو اُلٹ دیتے اور جے (J)کو بھی (G)میں  بدل دیتے ۔قریباََ نوے فیصد لوگ مجھے 'کیمبل جی 'کہہ کر پکارتے رہے اور میں  دل ہی دل میں  پیچ وتاب کھاتارہا۔ ایک دو نے تو کیمل جی(Camel G)بھی کہا۔

یہاں  تک تو بات شاید ٹھیک ہی رہتی لیکن ایک تقریب میں  ہمارے میزبان نے ہمارا تعارف یوں  کرایا کہ

' 'یہ ہیں  جان کیمبل لندن سے اور یہ لورا ' لورا لئی' سے ''

اس پر ایک زبردست قہقہہ پڑا ۔ اور میں  سمجھ گیا کہ میزبان نے اپنے تئیں  کچھ مخول کیا ہے ۔

جہاں  تک ہمارے آپسی رشتے کی بات تھی تو ایک مسجد کے امام صاحب نے مجھ سے حال احوال پوچھتے ہوئے لورا کے بارے میں اشارہ کیا اور کہا کہ

''یہ آپ کی بیوی ہیں ؟''

 میرے انکار پر بولے :

''اچھا ؟ پھر ضرور کزن ہوں  گی !''

اور میرا جواب سنے بغیر ہی چل دیئے ۔ میں  نے اپنے ایک میزبان دوست سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا تو اس نے بتایا ہے کہ ہمارے یہاں  گرل فرینڈ کو عموماََ کزن ہی کہا جاتا ہے ۔ عجیب سرپھر ی قوم ہے ۔سنا تھا کہ یہ لوگ رشتوں  کے بارے میں  جذباتی ہوتے ہیں  مگر اِتنے کا علم نہ تھا۔

سیاح اور کالی سیاہ:

پاکستانی قوم کے حوالے سے ایک بات بتادوں  کہ یہ بے حد مخولیے واقع ہوئے ہیں ۔ہر بات اور واقعے میں  ہنسنے کا جواز پیدا کرلیتے ہیں۔مثلاََ اسلام آباد کی سڑکوں  پر آوارہ گردی کرتے ہوئے ایک شخص کو جب معلوم ہواکہ ہم سیاح ہیں تو وہ لورا کی طرف اشارہ کرکے بولا:

''آپ سیا ح ہوں  گے لیکن یہ تو کالی سیاہ ہیں ''

اور پھر ہنستے ہنستے پیٹ پکڑ کر دہرا ہوگیا ۔لورا نے تو اسے 'شکریہ'کہہ دیا لیکن مجھے کوئی بات کھٹکتی رہی۔

مقبول ترین بلاگ یہ رہے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

حرام اور حرام خور :

ہمیں  یہا ں ایک Saintکے بارے میں  بتایا گیا کہ وہ بہت 'پہنچے ہوئے 'ہیں  ۔Saintکو اُردو زبان میں  پیر کہاجاتا ہے ۔ہم لوگ جب پیر صاحب کے پاس حاضر ہوئے تو وہ میرا نام پوچھتے ہی بولے:

''اپنا نام بدل لو کاکا  Gambleکا مطلب جوا ہوتا ہے اور جوا اِسلام میں  حرام ہے ''

 میری اس وضاحت پر کہ

 'میں  تو کسی مذہب میں  یقین ہی نہیں  رکھتا '

 وہ جلال میں  آگئے اور چلائے کہ:

''جوا حرام ہے اورتُو حرام خور''

 ان کے چیلوں  نے یہ سنا تو مجھے مارنے کو دوڑے ۔بڑی مشکل سے دو چار کلو میٹر بھاگ دوڑ کے بعد خلاصی ہوئی۔

 پرانے دَور کے رسیا:

ہم برطانوی لوگ کافی زیادہ ماضی پرست واقع ہوئے ہیں  لیکن یہاں  آکر پتہ چلا کہ پاکستانی اس معاملے میں  ہم سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں ۔یہاں  نوجوان نسل بڑی فرماں دار ہے ۔ یہ اپنے بزرگوں  کو نہ صرف اپنے ساتھ ہی رکھتے ہیں  بلکہ ان کی ہر ممکن خدمت بھی کرتے ہیں ۔ گھر کے اکثر معاملات میں  بڑو ں کو داخلی خود مختاری حاصل ہے ۔لیکن بڑے بوڑھے اس صورتحال سے قطعاََ خوش نہیں  ہیں  کیونکہ جہاں  بھی دو چار مل بیٹھتے ہیں   نوجوان نسل کی برائی شروع کردیتے ہیں ۔

ہم  ایک دفعہ ایسی ہی ایک ایجڈ محفل (Aged Gathering ) میں  چلے گئے تو ہر بزرگ یہی رونا رو رہا تھاکہ نئی نسل بے راہ روی کا شکار ہوگئی ہے ۔ان میں  سے چندایک کا دعویٰ تھا کہ ان کی نسل آخری تھی جس نے اپنے والدین کی خدمت کی تھی ۔ہر کوئی اس بات سے بھی متفق تھا کہ اُن کا زمانہ بہت اچھا تھا ۔ میں  جب یہ متفقہ قراردادیں  سن سن کے تنگ آگیا تو پوچھ بیٹھا کہ

''بزرگو! آپ کے وقتوں  میں  بجلی تھی ؟''

بولے:

 ''نہیں ''

''ریڈیو؟ ٹی وی ؟؟''

میں  نے پوچھا ۔

''نہیں ''

''کمپیوٹر ؟انٹرنیٹ؟فریج؟ پنکھے؟ اے سی ؟ ''

''نہیں  نہیں  ''

متفقہ جواب آیا ۔

اِس پہ لورا بھڑک کر بولی کہ

" جب یہ سب کچھ آپ کے زمانے میں  تھا ہی نہیں  تو پھر اس میں  کیا بڑائی تھی؟''

سارے آہ ِ سرد کھنچ کر بولے:

''یہ سب تو کچھ نہیں  تھا لیکن وہ وقت کمال تھا''

 مجھے جب اس Logicکی سمجھ نہ آئی تو میں  نے فتویٰ نما بیان جاری کردیا:

'' بزرگوار !اگر بجلی، ریڈیو، ٹی وی، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور گلوبل نیٹ ورکنگ کی دنیا میں  بھی آپ کے بچوں  نے آپ کو نہیں  چھوڑا تو آپ انہیں  کیسے کوس سکتے ہیں ؟ اگر انہوں  نے چھوڑنا ہی ہوتا تو یہ ٹیکنالوجیکل بہانے ان کے لیے کافی تھے ''

 یہ سن کر ایک دوحضرات مجھے مارنے کو دوڑے کہ یہ ہمارے بچوں  کو خراب کرکے چھوڑے گا۔

مزید دِل چسپ بلاگ:

نیو بِگ بینگ تھیوری

میرے ندیمؔ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے