کرنل
محمد خان نے اپنے سفر نامے ”بسلامت روی “ میں یہ جو کہا تھا کہ
”زندگی کا مزا تماشائی بننے
میں ہے نہ کہ تماشا بننے میں “
تو میں ان سے پوری طرح متفق ہوں ۔اورایسا صرف اس
لیے نہیں کہ وہ میرے گرائیں ہیں۔ میرے کئی عزیز احباب کواس
سوچ پہ اعتراض بھی ہے ۔ وہ تماشا بننے کو بھی
زندگی کا ایک حصہ ہی سمجھتے ہیں ۔ کہنے کی حد تک تو میں بھی اس بات کا قائل ہوں کہ ہر آدمی بیک وقت تماشا اور تماشائی ہوتا ہے لیکن
اپنی ذات کی حد تک میں کرنل صاحب کے فلسفے
کو ہی در خور اعتناءسمجھتا ہوں ۔
25جنوری 2013ءکو الحمراءہال نمبرI- میں ایک این۔جی۔او” Heal
Pakistan“کے ایک پروگرام میں بطور تماشائی شرکت کی تو مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں
تھا کہ میں بہت جلد اسی الحمراءہال کے اسی اسٹیج پر ،جہاں عطاالحق قاسمی صاحب جیسے لوگ تشریف فرماتھے،تماشا
بننے والاہوں لیکن بات تو وہی ہے، شہرہ آفاق ناول”عبداﷲ“کے مصنف ہاشم ندیم خان والی،کہ
”جب جب جو جو ہوتا ہے،تب تب سو سو ہوتا ہے“
سو، ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی ہونی ہو کر رہی....
مزید دِل
چسپ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
پاکستان
ٹیلی وژن کے پروگرام ”بزمِ طارق عزیز“ میں مقابلہءِ بیت بازی میں حصہ لینے کا ارادہ تو بہت عرصہ پہلے کا تھا لیکن
ہماری سُستی مسلسل آڑے آتی رہی ،جس کی وجہ سے یہ معاملہ غیرمعینہ مدت تک التواءکا شکار
رہا لیکن پچھلے دنوں ایک دوست نے بزمِ طارق
عزیز میں بطور تماشائی شرکت کی اور واپسی پہ
پروگرام پروڈیوسر کا فون نمبر بھی ساتھ لیتا آیا۔میرے کمرے میں پروگرام کی رُوداد سناتے ہوئے اس نے مجھ سے پوچھا
کہ
”اگر
مقابلہءِبیت بازی میں شرکت کی جائے تو کیسا
رہے گا؟“
میں اپنے دل کی بات اس کی زبان سے سن کر چہک اُٹھا
اور کہہ دیا کہ
”بہت اچھا رہے گا،تم بات کر کے مجھے بتا دینا“
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
اب مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ حضرت نفلوں کے بھوکے بیٹھے ہیں ۔ سو، اگلے ہی دن خوش خبری سنائی
کہ پروڈیوسر سے بات ہوگئی ہے ۔ وہ جلد ہی بُلائے گا۔ہم یہ سوچ کر مطمئن ہوگئے کہ ایک
ڈیڑھ ماہ تو لگ ہی جائے گاکہ” سرکاری چینل “ہے لیکن جمعہ کی سہ پہر کو اُس وقت ہمیں
یقین آیا کہ حکومت ختم ہوچکی ہے ،جب ہمارے
موبائل فون پہ میسجز اور مِس کالز(Miss Calls) کا تانتا بندھ گیا۔ ذرا تجسس
پہ معلوم ہوا کہ مقابلہءِ بیت بازی کا قرعہ فال ہمارے نام نکلاہے اورمحض تین دن بعد
29اپریل کو الحمراءہال نمبر I-
میں ہمارا مقابلہ ہونا ہے۔ تین دن کا سن کر
ہماری تو سِٹّی گم ہوگئی۔ بہرطور،کسی نہ کسی طرح اپنی بیاض(ڈائری) کھنگال کھنگال کر
حروفِ تہجی کے اعتبار سے اشعار کا ذخیرہ تیار کیا۔
یہ ذخیرہ جب تک تیار ہوا ۔ تب ہمارے پاس تیاری کے
لیے اٹھارہ گھنٹے سے بھی کم وقت بچا تھالیکن ہم ”ہمت مرداں ،مددِ خدا“کے مصداق اشعاررَٹنے
میں جُتے رہے ۔ انہی چند گھنٹوں میں ہم نے
ایک دوسرے سے دو تین آزمائشی مقابلے بھی کر ڈالے اور پھراﷲ کا نام لے کر 29اپریل کو
میدان میں کود پڑے ....
یہ بھی
پڑھیے:
بیت
بازی ،پروگرام کے آخر میں منعقد ہونا تھی ۔
سو، مابدولت اپنے شریک کار (Partner) اور پچیس دیگر تماشائی دوستوں اور طالب علموں کے جھرمٹ میں الحمراءہال میں داہنی جانب کی نشستوں پہ براجمان ہوگیا۔پروگرام کے آغاز سے پہلے ایک عجب
لطیفہ ہوا۔ہم ،پنجا ب یونیورسٹی کے طالب علموں کے لیے پچیس نشستیں ریزرو(Reserve) تھیں ۔ ہم سب پروگرام شروع ہونے سے تقریباََ آدھ گھنٹہ پہلے نشستوں
پہ جابیٹھے ،پروگرام شروع ہونے میں کچھ تاخیر ہوئی تو ہمارے تین دوست پانی پینے کے لیے
ہال سے باہر چلے گئے۔ اسی اثناءمیں دو ادھیڑ
عمر بزرگ آکر ان کی نشستوں پہ قابض ہوگئے۔وہ
جب واپس آئے تو بہت پس و پیش کی لیکن وہ بزرگ ٹس سے مس نہ ہوئے ، بعد میں ہمارے گروپ کی ان سے کافی نوک جھونک چلتی رہی۔
ایک
بزرگوار فرمانے لگے کہ
”
چھوٹوں کو بڑوں کے لیے قربانی دینی چاہیے“
”یہ
کیسی قربانی ہے جو آپ زبردستی ہی لیے جارہے ہیں؟ “
جواب
ہمارے کسی ستم گزیدہ بھائی کی جانب سے تھا۔
پھر بزرگوار کو جب معلوم ہوا کہ ہم پنجاب یونیورسٹی
سے ہیں تو چہک اُٹھے اور بتانے لگے کہ
”ہم بھی پنجاب یونیورسٹی کے اِسلامک سنٹر میں رہا کرتے تھے“
ہمارا
ایک اور ستم گزیدہ ساتھی جو اپنی نشست کی قربانی دے کر پچھلی قطار میں ایک اور نشست پہ بیٹھا تھا ،تلملا کر بولا:
”لگتا
تو نہیں ہے کہ آپ اِسلامک سنٹر سے ہیں “....
بہرِطور،
پروگرام کے آخرمیں مقابلہءِ بیت بازی ہوا۔ مخالف ٹیم کا تعلق کنئیرڈ
کالج حویلی نولکھا سے تھا۔ مقابلہ محض پانچ سے سات منٹ میں تمام ہوااور بفضلِ اﷲ تعالیٰ ہم نے فتح حاصل کی
۔پروگرام کے میزبان اور پاکستان ٹیلی وژن کی تاریخی اور طلسماتی شخصیات میں سے ایک طارق عزیز صاحب کے تیکھے جملوں نے محفل کو رنگین بنائے رکھا۔ دورانِ مقابلہ اسٹیج
پہ میں تماشائیوں کی طرف دیکھنے سے احتراز کر رہا تھاکہ اس سے اعتماد
ڈانوں ڈول ہو جاتاہے ۔میں نے ایک شعر طارق عزیز صاحب کی طر ف دیکھتے ہوئے پڑھاکہ:
نہ ہو ،اُن پہ جو مِرا بس
نہیں کہ یہ عاشقی ہے ،ہَوس نہیں
میں اُن ہی کا تھا،میں اُن ہی کا ہوں ،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی
تو
وہ مجھے گھورکر بولے:
”
تو مجھے کاہے کو دھمکاتے ہو؟“
اس برجستہ جواب پہ شائقین اور ہمارا قہقہہ مشترکہ
تھا....
( نوٹ:بزمِ طارق عزیز کا متذکرہ بالا پروگرام مورخہ 9مئی 2013ءکو پی
ٹی وی پہ ٹیلی کاسٹ ہوا تھا۔ تاہم ہمیں باوجود کوشش کے ویڈیو دستیاب نہیں ہو سکی)
آپ کے ذوقِ
نظر کی نذر:
0 تبصرے