پاکستان
ٹوٹنے کو بیالیس سال ہونے کو آئے تھے ۔ ہم ہمیشہ کی طرح سولہ دسمبر پہ نظمیں اور دُکھی گیت لکھنے کی تیاریوں میں
تھے کہ خبر آئی کہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے راہنما عبدالقادر مولہ تختہءِ
دار پہ جھول گئے۔ہم محبت میں فقط دعوے ہی
کرتے رہے لیکن کوئی ایساسر پھرا بھی تھا جسے مقتل کے سوا کہیں چین نہ آیا ۔ مجھے لگتا ہے کہ آج پوری پاکستانی
قوم پہ عبدالقادر مولہ نے بھاری قرض چڑھا دیا ہے ۔جو شاید ہم رہتی دنیا تک چکا نہ
پائیں ۔میرے حب الوطنی کے تمام تر جذبے بہت چھوٹے اورمیرے دعوے بہت بودے ہوگئے ہیں
۔میرے پاس لفظ ختم ہوگئے ہیں ، جن سے
میں عبدالقادرملا کو خراجِ تحسین پیش کروں
۔میں ہمیشہ سے سوچا کرتا تھا کہ فیضؔ نے
کیوں کہا تھا کہ
جس دھج سے کوئی مقتل
میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس
جان کوتو کوئی بات نہیں
ملاحظہ ہوں
شرطیہ مٹھے بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
میں سوچتا تھا کہ بھلا شملہ اُونچا رکھنے سے کیا ملتا
ہے اگر سر ہی باقی نہ رہے ۔اور یہ جو فراز ؔنے بھی تو اپنی چہچہاتی شاعری میں کہا تھا کہ
جشنِ مقتل ہی نہ برپا
ہوا، ورنہ ہم بھی
پابہ جولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
مجھے
شاید ان دونوں اشعار میں پنہاں
فلسفے کی کبھی سمجھ نہ آتی اگر میں
عبدالقادر ملا کو تختہ ءِ دار پہ نہ جھولتے نہ دیکھ لیتا ۔اب یہ سوال بھی
پوچھا جاسکتا ہے کہ یہ عبدالقادر ملا تھا کون؟ یہ کون سرپھرا تھا جس کا جرم
پاکستان سے محبت تھا ؟ یہ سوال پوچھنے والے حق بجانب ہوں گے کیونکہ ہمارے میڈیا کو تو ایسی باتیں بتانے کی توفیق نہیں ہوتی ۔انہیں
تو ہندوستان کی فلمی نگری اور امن کی آشا جیسے الاپ الاپنے سے فرصت
نہیں ملتی ۔ہاں البتہ اگر کسی ہندوستانی کے پاﺅں
میں
کانٹا چبھتا ،دہشت گردی سربجیت سنگھ ،جاسوس کشمیر سنگھ کی بات ہوتی تو اور
بات تھی!
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
عبدالقادرملا
نے پاکستان کی پہلی سالگرہ(14اگست1948ء)
کو فرید پور ،مشرقی پاکستان میں جنم
لیا۔انہوں نے تعلیم کے بعد اپنا صحافتی
کیرئیر شروع کیا اور روزنامہ سنگرام کے ایگزیکٹو ایڈیٹر رہے۔ یہ جماعت اسلامی
بنگلہ دیش کے اسسٹنٹ جنرل سیکریٹری بھی تھے۔ انہوں نے اپنے آبائی حلقے (فرید پورا-4) سے جماعت
اسلامی کے ٹکٹ پہ 1986ءاور1996ءمیں
پارلیمنٹ کے الیکشن میں حصہ لیا
لیکن دونوں دفعہ انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔شیخ حسینہ واجد کی
عوامی لیگ کو بیالیس برس بعد 1971ءکے بنگلہ دیشی مجرموں کو سبق سکھانے کی سوجھی اوریوں اپنے سیاسی حریفوں کا پتہ صاف کرنے کے لیے ایک بدنام زمانہ
ٹریبونل (بنگلہ دیشی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل) قائم کیا،جس کی حیثیت شروع سے ہی
متنازعہ رہی ۔
5فروری 2013ءکو اس ٹریبونل نے عبدالقادرملاکو ان
پہ لگائے گئے چھ میں سے پانچ انسانی اور
جنگی جرائم کامجرم قرار دیا ، بنگلہ جنگِ آزادی (1971ء) کے دوران البدر کا رُکن
ہونابھی ان کا ایک اور جرم ٹھہرا اور ایک ”ویڈیوکلپ“ بطور ثبوت پیش کی گئی (بعد
ازاں جس کے جعلی ہونے کا ثبوت بھی مل گیا)جس میں
21سالہ نوجوان عبدالقادرملا میر پور کے علاقے میں قتلِ عام میں
شریک تھا۔نجانے ٹریبونل نے یہ سوال کیوں
نہ پوچھا کہ عوامی لیگ کو یہ ویڈیو بیالیس سال تک چھپا کر رکھنے کی ضرورت
کیوں پیش آئی۔بنگلہ دیشی انٹرنیشنل کرائمز
ٹریبونل نے انہیں عمر قید کی سزا سنائی
جسے سپریم کورٹ نے نظر ثانی کے دوران سزائے موت سے بدل دیا۔ انہیں 11دسمبر 2013ءکو پھانسی دی جانی تھی لیکن
حکومتی مداخلت پہ چند گھنٹے قبل ملتوی کر دی گئی اور پھر 12دسمبر 2013ءکو
انہیں تختہ ءِدار پہ لٹکا دیا گیا ۔
ملاحظہ ہوں
شرطیہ مٹھے بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
عبدالقادر
ملا کا حقیقی جرم کیاتھا ؟ یہ جاننے کے لیے
بہت تگ ودو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ان کی
پھانسی کی خبر سنتے ہی عوامی لیگ نے ڈھاکہ
سمیت کئی شہروں میں خوشی کے جلوس نکالے ، فائرنگ اور آتش بازی کی۔
ان تمام مظاہروں کی سرکردہ شباغ موومنٹ
نامی تنظیم کی جانب سے جماعت اسلامی پہ مستقل پابندی لگانے اور اس کی ساری قیادت کو
پھانسی دینے کے مطالبے بھی کیے گئے۔
(یہ
ساری تفصیلات عبداﷲ طارق سہیل کے کالم بعنوان ”ذبحِ عظیم اور امریکی منصوبہ“
میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں )۔
مسلمان
ہونا اور پاکستان سے محبت کرنا کوئی کم درجے کے جرائم نہیں تھے اور رہا ہمارا میڈیا تو اس کے نزدیک یہ
عبدالقادر ملا تھا ہی کون؟ نہ تویہ ہندوستانی جاسوس تھا،نہ ہی دہشت گردتھا اور
اوپر سے پاکستان سے محبت کا دعوے داربھی تھاتو وہ اس کے لیے اپنا قیمتی وقت
کیوں بربادکرتے؟
اللہ
اللہ! اتنے جرائم ایک ساتھ ،اور تو اورفرید پور کی مٹی میں آسودہ ءِخاک عبدالقادر ملا 1971ءمیں الشمس اور البدر نامی تنظیموں سے بھی وابستہ رہاتھا اور مکتی باہنی جیسے”
شریف النفس “گوریلوں کے خلاف برسرِ پیکار
رہا تھا اورتو اور وہ تو بنگلہ آزادی تحریک کا بھی مخالف تھا۔وہ مسلمان ہونے کو ہی
اپنی شناخت سمجھتا تھا۔ وہ دوقومی نظرئیے کا بھی پرچار کرتا تھا۔اس دو قومی نظرئیے
کا جسے اندراگاندھی نے بحیرہ ءِعرب میں ڈبونے
کا دعویٰ کیا تھا لیکن میں آج عبدالقادر
ملا کی طرف سے اندراگاندھی کے چیلوں سے
پوچھنا چاہوں گا کہ کیا واقعی دوقومی
نظریہ بحیرہ ءِعرب میں غرق ہو گیا تھا؟
یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:
اگر اسلام پسندی اور پاکستان سے وابستگی
عبدالقادر مولہ کا جرم ٹھہرتا ہے تو پھر انہیں دوقومی نظریہ کے مٹنے کا وہم ہوا
تھاکیونکہ اگر دوقومی نظریہ زندہ نہ ہوتا تو عبدالقادر مولہ کو جھوٹے جنگی جرائم
میں ملوث کرکے تختہءِدار پہ چڑھانے کی
نوبت ہر گز نہ آتی۔مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ بنگلہ دیش کے طویل ساحلوں کے نمکین پانی اور اونچے کالے پہاڑوں کی چوٹیوں
سے دوقومی نظریہ ایک بار بنگالی جادوکی طرح سر چڑھ کر بول اٹھا ہے۔عبدالقادر ملا نے
تو ابتداءکی ہے ابھی توسروں کی فصلیں کٹنے کا وقت آنا ہے اورپھر حسینہ واجد اور ان
کے بھارتی آقااپنے بلوں میں محفوظ نہیں
رہ سکیں گے۔انہیں 1971ءکے ہر شہید ،ہر زخمی اور ہر قیدی کے
دکھوں کاحساب چکانا پڑے گا۔وہ وقت زیادہ
دور نہیں رہا ۔وہ وقت بس آیا ہی چاہتاہے
کیونکہ انہوں نے غلط میدان کا انتخاب کیا
ہے ۔انہیں شاید یہ یاد نہیں رہا کہ
:
یہ اُمت احمدِ مرسلﷺ ہے
،اِک شوقِ شہادت کی وارث
اس گھر نے ہمیشہ
مَردوں کو سُولی کے لیے تیار کیا
یہ بھی
پڑھیے:
1 تبصرے
salam to muhiban e watan.
جواب دیںحذف کریں