Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

نوحہ کناں

 
Noha Kunaan, Urdu Columns, Asad Mahmood, urdu, columns, asad, analysis, politics, political analysis, shakeeb jalali, ghalib,

شکیبؔ جلالی کے یہاں  درخت سلامت تھے ۔ اُن کی دشمنی شاید ہواؤں  سے تھی ،جو درخت کے پتے گرارہی تھی اور انہیں  کہنا پڑا تھا:

نہ اتنی تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو

شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے

لیکن میرے ساتھ اس معاملے میں  بھی ہاتھ ہوگیا تھا۔ میں  ہواؤں  سے دشمنی مول لینے کے قابل ہی نہ رہا تھاکیونکہ میرے غمگساراور رفیق شجر باقی ہی نہ بچے تھے۔غالب کا شعر کئی صدیوں  بعد پھر مجسم ہو چکا تھا،فضاؤں  میں  اُجڑ جانے والوں ،مر مٹنے والوں  کی سسکیاں  گونج رہی تھیں ۔ مجھے لگا کہ وہ مجھے ہی سنا رہی تھیں :

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہوجائیں  گے ہم تم کو خبر ہونے تک

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

ہاں  !صحیح ہی تو کہاتھا۔ وہاں  محض خاک تھی ۔ ہر طرف چنگھاڑتی ہوئی اور مجھے چڑاتی ہوئی ہوائیں تھیں ۔ کوئی شجر سلامت رہا تھا اور نہ ہی کوئی پتا۔ اور تو اور وہ گھونسلے بھی نہ رہے تھے جن میں  کئی زندگیاں  بستی تھیں ....

لہولہان چراغوں  کے سر ملے ہیں  مجھے

تمہارے شہر میں  ایسے بھی گھر ملے ہیں  مجھے

مجھے بتاؤ اگر گھونسلے سلامت تھے

ہوامیں  اُڑتے یہ کس کے پر ملے ہیں  مجھے

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

وقوعہ کچھ یوں  ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب میرا گھر جانا ہوا تو چکوال موڑ سے آگے سڑک کو دو رویہ کرنے کے منصوبے کے پہلے حصے پہ عمل کرتے ہوئے وہاں  دس فٹ کی حدود میں  آنے والے تمام درختوں  کو حرف ِ غلط کی طرح مٹا دیا گیاتھا۔ یوں  لگ رہا تھا جیسے سڑک کے ساتھ بسنے والے علاقوں  کا حجاب اُتر گیا ہو،اُن کا حسن بے نقاب ہوگیا ہو۔ وہ بھلے لگ رہے تھے یا بُرے ،میں  اندازہ نہ کرسکا کیونکہ میرا دکھ بہت بڑا تھا۔

گھر میں  قیام کے دوران ،قریبی قصبے میں  جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں پرائمری سکول کے سامنے واقع میرے بچپن کے دنوں  کا ساتھی اور میرے خوشگوار لمحوں  کا رفیق اور مجھے ایسے ہزاروں  طلباءکی کئی حسین یادوں  کا اَمین،وہ گھنی چھاؤں  والا درخت بھی موجود نہ تھا۔ہاں! وہی درخت ،میرے سکول کے پہلے دن جس کے نیچے ایک ریڑھی بان کھڑا تھا اور میں  نے جس سے بسکٹ کا ایک پیکٹ خریدا تھا۔ وہی درخت جو عین سکول کے سامنے کھڑا تھا۔ جوآندھیوں  کو سکول سے گزرنے تک نہیں  دیتا تھا۔ وہی جو نجانے کب سے وہاں  ایستادہ تھا،جو نجانے کب سے سکول کو گردشِ دوراں  سے بچائے ہوئے تھا۔اب وہ ہم سے روٹھ گیا تھا۔اُسے ہوائیں  تو نہ اُکھیڑ سکی تھیں  ،البتہ کچھ اپنوں  نے ملیا میٹ کردیا تھا۔درخت کے نہ ہونے سے سکول کی عمارت بہت واضح نظر آرہی تھی لیکن وہ منظر جو میری آنکھوں  اور دل و دماغ میں  سرایت کر چکا تھا،وہ سامنے نہ تھا....

یہ بھی پڑھیے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

تمام قصبے کے ایک سمت واقع تمام شجر اُکھیڑ دیئے گئے تھے۔ ہر سوسڑک میں  توسیع اور ترقی کی باتیں  ہو رہی تھیں لیکن مجھے گھٹن سی محسوس ہو رہی تھی ۔ قصبے کابے حجاب حسن میری آنکھوں  کو خیرا نہیں  کر رہا تھا۔ نہ جانے مجھے کیوں  لگ رہا تھاکہ حجاب نہ رہنے سے کسی بے حجاب محمل نشین کی طرح اس قصبے نے بھی حسن کھو دیا تھا۔ اس کے ماتھے پہ جو قدرت نے جھومر لگا رکھاتھا۔اس نے اُسے اتار دیا تو اب وہ اپنی تمام تر خوش ادائی کے باوجود بھی دلوں  سے اُتر گیاتھا ....

میرے ساتھ ان رفیقوں  کا غم کرنے کو کوئی نہ تھا۔وہاں  ،اُن درختوں  پہ بسنے والے پرندے بھی کہیں  ہجرت کر گئے تھے ۔سو ،میں  بھی اندرہی اندر گریہ کنا ں  رہا۔اب درخت تو وہاں  نہیں  رہے لیکن شنید ہے کہ سابق وزیر اعظم کا یہ سڑک کو دو رویہ کرنے کامنصوبہ ،جو ہزاروں  درختوں  کو نگل گیا تھا،اب شاید موخر یا ٰختم کر دیا گیا ہے۔”کھایا پیا کچھ نہیں  گلاس توڑا بارہ آنے“ شاید اسی موقع کے لیے استعمال کرتے ہیں  یا شاید کوئی سچ کہہ گیا ہے کہ

یہ اِک اشارہ ہے آفاتِ ناگہانی کا

کسی جگہ سے پرندوں  کا کوچ کر جانا

آپ کے ذوقِ نظر کی نذر:

میرے ندیمؔ

چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے