Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

تِری یاد وردِ زباں ہوئی

 
Teri Yaad Vird-e-Zuban Huyi, Urdu, Columns, Urdu Columns, Analysis, Asad, Asad Mahmood, Religion, Religious Analysis, Social, Social Analysis, Mosque, Masjid, Pray Almighty, Latest, Best

کافی عرصہ قبل کالج کے ہاسٹل میں  چھٹیاں  ہونے پہ میں  واپس گھر آتے ہوئے جب  قریبی قصبے کے بس اسٹاپ پہ اُترا تو خالہ زاد بھائی میرے انتظار میں  تھا۔میں  گاڑی سے اُترا تو اپنے گاں  تک تین کلومیٹر کا راستہ پیدل طے کرنے کا فیصلہ ارادہ ہوا۔ہم دونوں  نے مل کر بیگ اُٹھایا اور پیدل ہی چل دیئے۔ قصبے سے نکل کر پسماندہ بستی سے ہوتے ہوئے نیم پہاڑی گزرگاہ سے گزرے۔اونچے نیچے راستوں  پہ چلتے ہوئے،خوش گپیوں  میں  مصروف ہم اپنے گاں  اور قصبے کے درمیان واقع ندی سے پہلے موجود ایک نسبتاََ بلند سی پہاڑی چوٹی پہ پہنچے۔

وہاں، راستے سے ذراہٹ کے،پہاڑی چوٹی کے عین اوپرمجھے ایک چھوٹی سی چاردیواری بنی ہوئی نظرآئی ۔تقریباََ ایک ماہ پہلے جب میں  یہیں  سے گزر کر کالج گیا تھا تووہاں  کچھ بھی نہیں  تھا۔

”یہ کیا ہے؟“

میں  نے حیرت زدہ لہجے میں  استفسار کیا۔

”یہ مسجد ہے“

کزن نے چاردیواری کے مغرب کی سمت میں  بنی ہوئی چھوٹی سی محراب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

”مسجد اوریہاں  پہاڑ کی چوٹی پہ؟ یہ کس نے بنوائی ہے؟“

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

اُس نے قریب ہی واقع ایک بستی کے کسی آدمی کا نام لیا۔

”یہاں  مسجدکی کیا ضرورت تھی؟ کیا یہ راہ چلتے مسافروں  کے لیے بنوائی گئی ہے؟“

میں  نے پھر پوچھا۔

”ہاں  نام تو مسافروں  کا ہی ہے“

اُس کے جواب نے مجھے اُلجھن میں  ڈال دیا۔

 ”نام مسافروں  کا ہے،اس بات سے تمہارا کیا مطلب ہے؟“

”مطلب یہ ہے کہ اُس آدمی کا کسی دوسرے شخص سے اِس زمین کا تنازعہ چل رہا تھا، ایسے معاملہ حل نہیں  ہورہا تھا۔ اُس نے اِس اراضی پہ اپنی ملکیت پکی کرنے کے لیے یہاں  مسافروں  کے لیے مسجد بنادی ۔  یعنی اﷲاﷲ خیرصلا....“

اُس نے تفصیلاََ مجھے سمجھایا۔میں  ہکا بکا رہ گیاکہ ایسے ایسے بلند خیال لوگ بھی ہم میں  موجود ہیں  ۔

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

اس بات پہ پہلاردّعمل میرا بھی دوسرے لوگوں  کی طرح ہی تھا۔مجھے بھی وہ شخص بے حد برا لگاجو اپنے جھگڑے میں  (نعوذباﷲ) اﷲ کوڈال رہا تھااور خود فائدہ حاصل کر رہا تھالیکن کئی ماہ بعد تک،گو میں  نے اس مسجد میں  کسی ایک بھی مسافر کو نماز اداکرتے نہیں  دیکھا لیکن اس مسجدکے قیام کے بعد وہ لڑائی جھگڑے والا معاملہ سُلجھ سا گیا۔میں  اس بات پہ بے حد حیرت زدہ تھا ۔اُس آدمی نے اﷲ تعالیٰ کے نام کو بیچ میں  کیا ڈالا کہ جھگڑا بغیر کسی بحث مباحثے، بنا کسی لڑائی جھگڑے، بغیر کسی کا لہوبہائے، بنا مقدمہ چلائے اور کوئی خاندان اُجاڑے بغیر ہی سلجھ گیا،جھگڑا جڑ سے ہی اُکھڑ گیا۔

اس واقعے پہ غور کرنے بیٹھا تو مجھے ایک حیر ت انگیز بات یا د آئی،بچپن میں  کرکٹ میچ کھیلتے ہوئے اگر کوئی بھی فریق بے ایمانی کرتا اور یہ بات دوسرے فریق کے علم میں  آجاتی تو ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا،پُر زور اور ”پُر شور“ دلائل ہر دو فریقین کی طرف سے پیش کیے جاتے لیکن معاملہ کبھی بھی ایسے نہ سلجھتا بلکہ مزید اُلجھتا ہی چلا جاتا یہاں  تک کہ کوئی گروہ چِلّا اُٹھتا :

"قسم کھا ،اﷲ کی قسم کھاکر یہ بات دہرا کہ ایسا ہوا تھا( یا ایسا نہیں  ہوا تھا)"

یہ بھی پڑھیے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

اور پھر اگر کوئی قسم اُٹھا لیتا تو جھگڑا وہیں  نمٹ جاتا،تمام لوگ سب کچھ جیسے بھول ہی جاتے اور میچ دوبارہ شروع ہوجاتالیکن اگر کوئی بھی فریق قسم اُٹھانے پہ تیار نہ ہوتا تو جھگڑا طول پکڑ جاتا اور بعض اوقات دن کا اختتام  یونہی ”ڈرا“(Draw) حالت میں  کرنا پڑجاتا۔اب میں  یہ سب سوچتا ہوں  تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ سب اﷲ تعالیٰ کے نام کی برکت ہے،اس کی یاد کا کرم اور فضل ہے جو خاموش پھوارکی صورت میں  برستا ہے اورہر سمت سکون چھا جاتا ہے ،گدرائے ہوئے تکدّر آمیز چہروں  پہ طمانیت سی اُترنے لگتی ہے....!

کافی عرصہ قبل ،جب میں  ابھی ہائی سکول میں  زیر تعلیم تھا تو ادھر ہی ایک قریبی گاں  میں  چند قدم قطعہءِ اراضی کے لیے دو جوان بھائی مارے گئے تھے۔ قاتل فوج کا حاضر سروس سپاہی تھا۔ اُسے گرفتار کرلیا گیا اور شاید سزائے موت بھی سنا دی گئی تھی۔جس زمین کے لیے دو خاندان اُجڑ گئے تھے وہ شایداب بنجر ٹکڑا بن کر رہ گیاہو۔

میری تجویز ہے، صلائے عام ہے کہ ہمیں  ایسے ہر معاملے میں  جہاں  ذراسا بھی معاملہ بگڑنے کا احتمال ہو،جھٹ سے اﷲتعالیٰ کو ضامن بن لینا چاہیے۔ اس کے نام پہ سمجھوتا کر لینا چاہیے ۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک عقل مند آدمی نے جھگڑے والی زمین پہ اﷲ کا گھر بنا دیا اور یوں  جھگڑا طول پکڑنے سے پہلے ہی اختتام کو پہنچ گیا۔آیئے ! ہم سب ہرمتنازعہ جگہ ،ہر جھگڑے والی زمین ، ہر بگڑنے والی بات پہ اور ہر کدورت بھرے دل میں دوسروں  کے لیے نفرت کے کانٹے بونے کے بجائے اﷲ تعالیٰ کے نام کی کاشت کریں ،یقین مانیں ،ایسا کرنے سے ہم صرف اور صرف سکون کی فصلیں  ہی کاٹیں  گے۔ ہر سو ،ہر جا ہریالی ہی ہریالی ہوگی۔ ہر چہرے پہ اورہر دل میں  طمانیت ہی طمانیت ہوگی!

آپ کے ذوقِ نظر کی نذر:

میرے ندیمؔ

چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے