چند
سال پہلے ہم باقاعدہ یونیورسٹی کے طالب علم ہوا کرتے تھے لیکن جب سے ڈگری مکمل
ہوئی ہے بے روزگار ہوئے پھرتے ہیں۔کچھ
عرصہ تو آوارہ گردی اورجاب کی آس امید میں گزرگیا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ اب ہم خود کو کافی
سینئر بے روزگار سمجھنا شروع ہوگئے ہیں۔اور آپ تو خوب جانتے ہیں کہ اوّل تو سینئرز کے فرائض منصبی کاتقاضہ ہوتا
ہے کہ وہ نئے آنے والوں کو ورغلائیں۔ دوم،چونکہ ہم سے اب تک کسی نے بھی نہیں پوچھا کہ بے روزگار کون ہوتاہے؟ لہٰذا ہم یہ بتانا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔
توحضرات
بے روزگار کی سب سے اہم نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کی شیو بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔
جی نہیں! آپ غلط سمجھے
۔وہ ہماری جامعہ مسجد کے پیش امام صاحب ہیں اور وہ شیو نہیں بلکہ ان کی فینسی داڑھی ہے۔ آج کل مارکیٹ میں یہی اِن ہے۔
ملاحظہ ہوں
شرطیہ مٹھے بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
بے
روزگار کی دوسری نشانی اس کے پریشان بال اور شکن آلود کپڑے ہوتے ہیں۔
دیکھئے مانا کہ بکھاریوں کا بھی یہی فیشن ہوتا ہے لیکن بے روزگار،
بکھاریوں سے کہیں زیادہ پریشان حال ہوتے ہیں ۔کیونکہ بکھاری بذاتِ خود ایک پیشے کا نام ہے
اور آپ بے روزگاراور بکھاریوں کو گڈمڈ مت
کیجیے۔ ان میں آسان فرق یہ ہوتا ہے کہ بکھاریوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ اُن کی دعا آسمان چیر سکتی
ہے جبکہ بے روزگار اس طرح کا تو کیا، کسی قسم کابھی کوئی دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں
نہیں ہوتا۔
بے
روزگار کی تیسری اور سب سے اہم علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ مخبوط الحواس سا ہوتا ہے ۔کئی
دفعہ اسلام آباد جانے کے لیے ملتان والی بس پکڑ لیتا ہے اور بھائی پھیرو جا نکلتا
ہے ۔ مسلسل ٹنیشن کی وجہ سے یہ حضرات کافی غائب دماغ بھی ہو جاتے ہیں اکثر گھنٹہ بھربند پنکھے کے نیچے بیٹھنے کے بعد
واپڈا والوں کو کوس رہے ہوتے ہیں کہ چھوٹا بھائی اچانک سے یاددِلاتا ہے کہ بجلی
تو موجود ہے۔ آپ ہی سوئچ آن کرنا بھول گئے
ہیں ۔ کپڑوں کا جوڑا پریس کرتے ہوئے بار
بار اُلجھن کا شکار ہوتے ہیں کہ شکنیں نہیں جارہیں۔ وہ تو کپڑے پریس کرچکنے کے بعد علم ہوتا ہے کہ
ساکٹ میں استری کا پلگ لگانا ہی بھول گئے
تھے۔
مقبول ترین
بلاگ یہ رہے:
نہیں
نہیں !مخبوط الحواس اور غائب دماغ میں نے ضرور کہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ ان بے چاروں کو بالکل پاگل ہی سمجھ بیٹھیں۔ آج کل کے پاگل تو ہزار حجتیں کرتے ہیں ، پتھر کھینچ کھینچ مارتے ہیں لیکن بے روز گار قدرے بے ضرر سے پاگل ہوتے ہیں ۔دیکھئے!آپ اب ہمیں بار بار ٹوک کر غصہ مت دلائیے گا۔ پہلے میری تحقیق کو پوری طرح سن سمجھ لیں پھر ہی کوئی رائے دیجئے گا،بلکہ جیسی رائے آپ دے
رہے ہیں نہ ہی دیجئے گا ۔
بے
روز گار کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ بار بار اپنی جیب پہ ہاتھ مارتا ہے حالانکہ
اُس میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہوتی۔ وہ ہر آہٹ پہ کسی مسیحا کی آمدکے خیال سے چونک
چونک جاتا ہے۔ اکثر اپنی ڈگریاں سامنے
رکھے غصے سے مٹھیاں بھنچے انہیں گھور رہا ہوتا ہے۔میری ذاتی تحقیق کے مطابق
سرِراہ نئے پرانے اشتہاروں کو آنکھیں پھاڑ
پھاڑ کر دیکھنے والوں میں اجنبی سیاحوں کے بعد بے روزگاروں کا دوسرا نمبر ہے ۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ
جعفری
آپ
کے دوستوں یاعزیز رشتہ داروں میں سے
جو شخص بھی ''میرٹ میرٹ '' یا ''میرٹ کی نا قدری '' ایسی اصطلاحوں کی مسلسل گردان کرے وہ نوے فیصدی کوئی بے روزگا
رہی ہوگا۔ان حضرات کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ انہیں جو بھی ملے
سلام کے بعد اگلا سوال یہی کرتا ہے کہ
''
اور سناؤ جاب ملی؟''
اور
یہ اس شخص کا گلہ گھونٹنے کی خواہش دِل میں دبائے ہلکا سا مسکرانے کی کوشش کرتے ہیں اور چبا چبا کر کہتے ہیں :
''
کوشش کررہاہوں ''
ان
کے ہاتھ میں اکثر ایک تڑا مڑا اخبار ہوتا
ہے اور یہ اکثر ہاکر سے اخبار کا سنڈے ایڈیشن مانگتے ہوئے بھی پائے جاتے ہیں ۔بے
روزگار اکثر انٹرنیٹ کیفے کے بھی مسلسل چکر کاٹتے ہیں ۔ گووہ فحاشی اور اس نوع کی
دیگر مشکوک سرگرمیوں کے ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے لیکن ہر آنے جانے والا انہیں گہری نظروں سے دیکھ کر مسکراتا ہوا گزرتاہے۔ حالانکہ یہ
حالات کے مارے جاب ہنٹنگ ویب سائٹس پہ خجل خوار ہو رہے ہوتے ہیں ۔
آپ
اتنی دیر خاموشی سے میری باتیں سنتے رہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ کچھ بھی پلے نہیں پڑا ۔لیکن اگر اب بھی نہیں سمجھے کہ بے روزگار کون ہوتا ہے تو سو باتوں کی ایک بات سنیے۔ آپ نے اکثر ڈراموں اور فلموں میں دیکھا ہوگا کہ جب کوئی مریض مرض کی آخری اسٹیج
سے بھی گزر جائے تو ڈاکٹر آ کر کہتے ہیں :
''I'm
Sorry! خدا کو یہی منظور تھا!''
بس بے روزگاری اس سے اگلی اسٹیج کا نام ہے۔
یہ بھی
پڑھیے:
0 تبصرے