Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

پی ایس ایل 2024ء: میچ 16- کراچی کنگز بمقابلہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز


اس میچ کا نتیجہ تو جیسے نوشتہ دیوار تھا۔ ایک ٹیم ٹورنامنٹ کی ٹاپ ٹیموں میں شامل اور دوسری نیچے سے ٹاپ کرنے والی ٹیم۔ مگر یہ میچ آخری گیند تک چلا جائے گا۔ اس کا اندازہ کسی کو نہ تھا۔ ایک نیل بائٹر اختتام، جس نے کراچی کنگز کو لاہور قلندرز کے پہلو میں پہنچا دیا۔


میچ کا آغاز ہوا تو کراچی کنگز کے کپتان شان مسعود ایک دفعہ پھر ٹیم میں اپنی اہمیت ثابت نہ کر پائے اور محض دو گیندوں پر عقیل حسین کو پیچھے ہٹ کر کھیلنے کے چکر میں وکٹیں گنوا بیٹھے۔ ٹم سائفرٹ بھی 21 رنز کے مہمان ثابت ہوئے مگر انہوں نے عثمان طارق کی آف سپن پر آؤٹ ہونے سے قبل 11 گیندوں پر 21 رنز کی ایک عمدہ اننگز کھیل لی تھی۔ جیمز ونس کو بھی عثمان طارق نے ایل بی ڈبلیو کیا۔ انہوں نے 25 گیندوں پر 37 رنز بنائے۔ کوئٹہ قلندرز نے عثمان طارق پر اچھا داؤ لگایا ہے۔ انہوں نے سندھ پریمیئر لیگ میں نہایت عمدہ کار کردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ یہاں بھی وہ ایک منفرد انداز سے باؤلنگ کرتے ہوئے اسی کارکردگی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔


کراچی کی مزید بیٹنگ کی بات کی جائے تو شعیب ملک 20 گیندوں پر 12 رنز بنا کر ابرار کی گیند پر جیسن رائے کو کیچ دے کر چلتے بنے۔ محمد نواز اس دفعہ اچھی فارم میں دکھائی دیے۔ انہوں نے شاید یہ نعرہ سن لیا تھا کہ 


پاکستان کو نواز دو


وہ قومی کرکٹ ٹیم میں ہوتے ہوئے پاکستان کو تو نہ نواز پائے لیکن اس دفعہ اپنی فرنچائز کو نوازنے کا سوچا۔ لیکن ابھی 19 گیندوں پر 28 رنز ہی بنا پائے تھے کہ عقیل حسین کی ایک گیند پر ابرار کو کیچ دے کر چلتے بنے۔ 


پولارڈ بھی اس مرتبہ پچھلے دو میچوں کی طرح کی عمدہ کارکردگی نہ دکھا پائے۔ انہوں نے 10 گیندوں پر 13 رنز بنائے تھے کہ ابرار نے انہیں بولڈ کر ڈالا۔ عرفان نیازی نے 10 گیندوں پر 15 رنز بنائے۔ انہیں وسیم جونیئر نے جیسن رائے کی مدد سے پویلین پہنچایا۔ حسن علی بھی دو گیندوں پر دو رنز ہی بنا پائے۔ انہیں بھی ابرار اور عقیل حسین کے گٹھ جوڑ نے آؤٹ کیا۔


عین ممکن تھا کہ کراچی ایک ذلت آمیز ٹوٹل تخلیق کرتی کہ انور علی بیچ میں آن ٹپکے۔ انہوں نے 14 گیندوں پر 25 رنز کی عمدہ اننگز کھیل کر ٹیم کو 165 رنز کے ٹوٹل تک پہنچنے میں مدد کی۔ انہوں نے 179 کے سٹرائک ریٹ سے کھیلتے ہوئے ایک چوکا اور دو فلک شگاف چھکوں کی مدد سے یہ رنز سکور کیے۔ ان 165 رنزوں میں سات اضافی رنز بھی شامل تھے۔


ابرار احمد نے شاندار بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 31 رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کیں۔ ان کے علاوہ عقیل حسین اور عثمان طارق نے دو دو وکٹیں لیں۔ طارق نے نہایت عمدہ باؤلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں چار رنز فی اوور کی اکانومی سے 16 رنز کے عوض یہ سودا کیا۔ ایک وکٹ وسیم جونیئر کے حصے میں بھی آئی۔ البتہ وہ بے حد مہنگے ثابت ہوئے۔

شرطیہ مٹھے بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

جوابی باری میں کوئٹہ کے اوپنرز نے نہایت اچھا سٹارٹ لیا۔ جیسن رائے نے نصف سنچری سکور کی۔ وہ 31 گیندوں پر 52 رنز بنانے کے بعد شعیب ملک کی گیند پر انہی کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔ سعود شکیل نے بھی کچھ اچھے ہاتھ دکھائے۔ وہ 20 گیندوں پر 24 رنز بنانے کے بعد حسن علی کی ایک گیند پر عرفان نیازی کے ہاتھوں پکڑے گئے۔ 


اوپنرز کے آؤٹ ہوتے ہی کوئٹہ کے بلے باز لڑکھڑا گئے۔ خواجہ نافع چھ گیندوں پر 2، سرفراز احمد چھ گیندوں پر 3 اور رائیلی روسو 10 گیندوں پر چھ رنز بنانے کے بعد بالترتیب زاہد، حسن علی اور زاہد کے ہاتھوں آؤٹ ہو کر پویلین میں جا بیٹھے۔ زاہد حسین، ایک وقت تھا کہ قومی ٹیم میں شامل تھے اور اب ایک یہ وقت ہے کہ انہیں فرنچائز ٹیم بھی شامل نہیں کر رہی حالانکہ وہ ایک اچھے بولر ہیں۔ کل جونہی انہیں موقع ملا، انہوں نے یہ بات ثابت کی۔


کراچی نے بے حد عمدہ باؤلنگ کی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے میچ خاصہ پھنسا لیا۔ مگر برا ہو ویسٹ انڈین بلے بازوں ردر فورڈ اور عقیل حسین کا۔ وہ دونوں پچ پر ڈٹ کر کھڑے ہو گئے اور ٹیم کو آخری گیند پر فتح سے ہمکنار کرا کے ہی دم لیا۔ ردر فوڈ نے 31 گیندوں پر 58 رنز کی خوبصورت اننگز تراشی۔ ان کی اننگز کی دلچسپ بات یہ تھی کہ ان کا سٹرائیک ریٹ 187 تھا اور اس اننگز میں صرف ایک چوکا شامل تھا۔ باقی چھ چھکے تھے۔ عقیل حسین نے بھی ایک مشکل وقت میں 17 گیندوں پر 22 رنز بنائے۔ ان کا یہ حصہ ٹیم کی جیت کے لیے گراں قدر ثابت ہوا۔ کراچی نے نہایت عمدہ باؤلنگ کا مظاہرہ کیا اور صرف دو اضافی رنز ہی دیے۔


محمد نواز چونکہ بیٹنگ میں اچھی کارکردگی دکھا چکے تھے۔ اس لیے باؤلنگ میں انہوں نے اس کا کفارہ یوں ادا کیا کہ تین اوورز میں 36 رنز کھا بیٹھے۔ انور علی نے بھی ان کا ساتھ نبھایا۔ انہوں نے بھی ایک اچھی باری کھیلی تھی۔ اس لیے دو اوورز میں ہی 28 رنز دے ڈالے۔ باقی بولرز نے بے حد نپی تلی باؤلنگ کا مظاہرہ کیا۔ حسن علی اور زاہد حسین نے دو دو وکٹوں کا سودا کیا۔ زاہد تو بے حد کنجوس ثابت ہوئے۔ انہوں نے چار اوورز میں 13 ڈاٹ گیندیں پھینکیں اور محض 17 رنز دیے۔ ان کی فرنچائز یقیناً سوچ رہی ہوگی کہ پہلے جانے کس حکیم کی باتوں میں آ گئے تھے کہ انہیں مسلسل باہر رکھا۔ بہرحال کراچی کی یہ روش نئی نہیں ہے۔ وہ پہلے بھی سٹار کھلاڑیوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہوئے پائی گئی ہے۔ انہوں نے یہی سلوک کبھی ٹاپ پرفارمرز محمد رضوان اور بابر اعظم کے ساتھ بھی کیا تھا۔


قب صورتحال کچھ یوں ہے کہ کراچی کنگز پانچ میچ کھیلنے کے بعد تین ہار چکی ہے اور چار پوائنٹس کے ساتھ لاہور قلندرز کی بغل میں پہنچ چکی ہے۔ گو اسلام آباد کے بھی اتنے ہی پوائنٹس ہیں لیکن ان کا رن ریٹ کراچی سے بدرجہا بہتر ہے۔ اچھی بات صرف یہ ہے کہ کراچی کو ابھی پانچ میچ مزید کھیلنے ہیں اور اگر وہ ان میں پچھلے میچوں والی غلطیاں نہیں دہراتے تو شاید پلے آف تک پہنچ ہی جائیں۔ وہاں جا کر پھر ہار جائیں تو پھر البتہ اور بات ہے۔

آپ کے ذوقِ سلیم کی نذر:

میرے ندیمؔ

چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے