Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

آج تم یاد بے حساب آئے

 
Aaj tum yaad be-hisaab aye, Meray Nadeem, Ahmed Nadeem Qasmi, Urdu, Columns, Urdu Columns, Urdu Columns by Asad Mahmood, Asad, Asad Mahmood, Khuda karay, Allama Iqbal, Ghalib, Faiz, Zafar, Zafar Iqbal

کالم نگاری کی ابتداءمیں نے قریباََ ایک برس قبل کی تھی۔ تب  احمد ندیم قاسمی کے فن اورشخصیت پر ایک کالم بعنوان”میرے ندیم“  لکھا تھا ۔ میرا علم اُس وقت بھی ناقص تھا ،کاملیت کا دعویٰ مجھے اب بھی نہیں  ہے لیکن باوجوداِس ناقص ترعلم کے، مجھے لگتا ہے کہ میں  اس عظیم فنکار کی صلاحیتوں  کا حق ادا نہیں  کر پایا ۔میں  نے ندیم کو اِس ایک سال کے عرصے میں  بارہا پڑھا ۔  ان کے شعری مجموعے خاص طور سے میرے زیرِ مطالعہ رہے ۔ اِس دوران میں  ،میں  نے ندیم کی لافانی شخصیت کے مزید کئی ورق خود پہ وَا ہوتے دیکھے۔ندیم کی شاعری میں  جو خیال کی انفرادیت، الفاظ کا چناؤ، اظہار کی برجستگی اوربیان میں  روانی ہے ۔اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ہمارے موجودہ ملکی حالات ہوں  ، روانڈا ،ایتھوپیا اور مصر میں  مرتی ،سسکتی اور مارشل لاءکے کوڑے اور گولیاں  کھاتی انسانیت ہو یا فلسطین ،کشمیر ،اور افغانستان میں  امت ِ مسلمہ پہ مسلط کی گئیں  قیامتیں ، احمد ندیم قاسمیؒ کی ایک نظم ”اجازت “میں گھٹن زدہ زندگیوں  میں  پنہاں  تلخی اور مظلوموں  کے دِلوں  میں  چھپے غبار کو ذرا محسوس کریں :

آپ کے ذوقِ نظر کی نذر:

میرے ندیمؔ

چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق

زندگی کے جتنے دروازے ہیں  مجھ پر بند ہیں

دیکھنا ،حدّ ِ نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جر م ہے

سوچنا، اپنے عقیدوں  اور یقینوں  سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے

آسمان در آسماں  اسرار کی پرتیں  ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے

کیوں ‘بھی کہنا جرم ہے،’کیسے ‘بھی کہنا جرم ہے

سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے، مگر

زندہ رہنے کے لیے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے

اور اِس ’کچھ اور بھی ‘ کا تذکرہ بھی جرم ہے

اے ہنر مندانِ آئین وسیاست!

اے خداوندانِ ایوانِ عقائد!

زندگی کے نام پر بس اِک اجازت چاہیے

مجھ کو اِن سارے جرائم کی اجازت چاہیے

کسی بھی شاعر یا ادیب کی فنی معراج بھلا کیا ہوتی ہے؟ یہی نا کہ اُس کے لکھے ہوئے مصرعے ،اشعار ،جملے اور الفاظ زبانِ زدِ عام ہو جائیں ۔  اہلِ زبان اس کی اصطلاحات کو اپنی تحریروں  میں  استعمال کریں  ۔ تو یہ رُتبہ ندیم سے زیادہ کس کو ملاہوگا۔مجھے تویوں  لگتا ہے کہ اردو ادب نے کئی لافائی جملے ندیم سے مستعار لیے۔ ایبٹ آباد واقعہ میں  جب اسامہ بن لادن کو شہید یا ہلاک کر امریکی سیلرز نے سمندر میں  بہا دیا تو میں  نے اگلے ہی دن ایک قومی اخبار میں  دیکھا کہ ندیم کے ایک شعرکو اِس تمام واقعے کی تشریح کے لیے کافی سمجھتے ہوئے ایک کالم نگار نے اپنے کالم کا عنوان رکھا تھا:

”کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں  گا/میں  تو دریاہوں  ،سمندر میں  اُتر جاؤں  گا“

 اور اِسی پہ کیا منحصر ؟لاکھوں  نہیں  تو ہزاروں  ایسی تشبیہات اور استعارے ہوں  گے جو ندیم نے لکھے اور وہ مقبولِ عام ٹھہرے....

یہ بھی پڑھیے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

احمد ندیم قاسمیؒ صرف شاعر نہیں  تھا ،وہ ایک بلند پایہ ادیب بھی تھا۔ پاکستان میں  اُردوافسانے کی نمو اور سمت متعین کرنے میں  ندیم کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ وہ انوکھا پن جو ندیم کی شاعری میں  ملتا ہے۔  افسانوں  میں  یہ صفت اس سے کچھ سِوا معلوم ہوتی ہے۔  کہانی میں  نت نئے پہلو نکالنے اور انتہائی دلچسپ منظر نگاری میں  بھی وہ یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔”قاسمی کہانی“کے عنوان سے پاکستان ٹیلی وژن پہ بھی طویل عرصے تک ان کی تحریر کردہ کہانیاں  فلمائی جاتی رہیں اور چہار دانگ عالم میں  ان کا شہرہ رہا....

ندیمؔ کی ایک اور نظم ”پتھر“ میں  ان کی نیرنگیءِ اظہاردیکھیے:

ریت سے بُت نہ بنا ،اے میرے اچھے فنکار!

ایک لمحے کو ٹھہر،میں  تجھے پتھر لادوں

میں  تِرے سامنے انبار لگادوں  لیکن

کون سے رنگ کا پتھر تِرے کا م آئے گا؟

سُرخ پتھر؟جسے دل کہتی ہے بے دل دُنیا!

یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر؟

جس میں  صدیوں  کے تحیّر کے پڑے ہوں  ڈورے

کیا تجھے رُوح کے پتھر کی ضرورت ہو گی؟

جس پہ حق بات بھی پتھر کی طرح گِرتی ہے!

اِک وہ پتھر ہے جسے کہتے ہیں  تہذیبِ سفید

اُس کے مَر مَر میں  سیاہ خون چھلک جاتاہے

ایک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر

ہاتھ میں  تیشہءِزر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے

جتنے میعار ہیں  اِس دَور کے سب پتھر ہیں

جتنے افکار ہیں  اِس دَور کے سب پتھر ہیں

شعر بھی ،رقص بھی،تصویرو غِنا بھی پتھر

مِرا اِلہام،تِرا ذہنِ رسا بھی پتھر

اِس زمانے میں  تو ہر فن کا نشاں  پتھر ہے

ہاتھ پتھر ہیں  تِرے،مِری زباں  پتھر ہے

ندیمؔ نے اردو شاعری کی قدیم اور ختم ہوتی روایت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ نئے انداز اپناتے ہوئے اسے اوجِ کمال تک پہنچا دیا۔نئے اندازِ غزل میں  اچھوتے موضوعات، قدیم نظم میں  جدید اختراعات اور خاص طور پر آزاد نظم کے اسلوب میں  وہ کار ِہائے نمایاں  ندیم نے انجام دیئے کہ دورِ جدید کی شاعری ان پر بجا طور پہ فخر کر سکتی ہے۔

ندیم کی ایک غزل کے چند اشعاردیکھیں :

نہ وہ سِن ہے فرصت ِ عشق کا ،نہ وہ دن ہیں  کشف ِ جمال کے

مگر اب بھی دل کو جواں  رکھیں  وہی شعبدے خدو خال کے

 

وہ کبھی شفق کا فسوں  کَہیں ، کبھی گل کَہیں ، کبھی خوں  کَہیں

کہ ہیں  میری صبحِ عروج میں  ابھی رنگ شامِ زوال کے

 

کوئی کوہکن ہو کہ قیس ہو،کوئی میر ہو کہ ندیم ہو

سبھی نام ایک ہی شخص کے ،سبھی پھول ایک ہی ڈال کے

ایک نظر اِدھر بھی:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

لگے ہاتھوں  ایک آزاد نظم بعنوان ”قبر پہ پھول “میں  ندیم کی سوچ اور بیان کی بے ساختگی ذراملاحظہ ہو:

                                                            اب کے بارش جو ہوئی

                                                            میں  نے یہ دیکھا

                                                            کہ سرِراہ جو اِک قبر تھی

                                                            (شاید کسی دیوانے کی)

                                                            اس پہ اِک پھول کِھلا ہے

                                                            جو ہواؤں  کے تھپیڑوں  سے تڑپتا ہے

                                                            تو پاتال سے ہنسنے کی صدا آتی ہے

ان چند باتوں  اور توصیفی پیراؤں سے ندیم کی تخلیقات کا حق تو کیا ادا ہونا ہے ،اس کا عشر عشیر بھی نہیں  ہوسکا ۔اس کام کے لیے تو کئی دفتر درکار ہیں  لیکن فی الوقت ندیم کے مجموعہ ءِکلام ”دوام“سے چند منتخب اشعار آپ کی نذر، پڑھیے اور سر دُھنیے:

ایک بے گنہ کا خون، غم جگا گیا کتنے!

بٹ گیا ہے اِک بیٹا،بے شمار ماؤں  میں

٭٭٭

میں  تجھ کو پاکے، تجھی کو صدائیں  دیتاہوں

تُو میرے دل میں  اُتر کر بھی کیوں  سفر میں  رہا

٭٭٭

مجھ پہ ہے شیخ کی تکریم تو لازم، لیکن

اسے نزدیک سے دیکھوں  تو برہمن دیکھوں

کبھی کہسار میں  کرتا تھامیں  معدن کی تلاش

اب زمینوں  میں  بھی ،سینوں  میں  بھی آہن دیکھوں

٭٭٭

صرف شیطاں  ہی نہ تھا منکرِ تکریمِ ندیم

عرش پر جتنے فرشتے تھے ،مری گھات میں  تھے

٭٭٭

اگر نہ درد مری روح میں  اُتر جاتا

میں  جیسا بے خبر آیا تھا، بے خبر جاتا

٭٭٭

نہ ملے زہر تو اپنا ہی لہو پیتے ہیں

جام خالی نہیں  رہتے کبھی سقراطو ں کے

٭٭٭

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے