Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

جیو اور جینے دو!

 
Geo Aur Jeeanay Do, Urdu Columns, Asad Mahmood

ایک پوچھنے والے نے پوچھا کہ

 ”یا حضرت ! سب لوگ صحیح کیسے ہوسکتے ہیں ؟ کوئی نہ کوئی تو ضرور غلطی پر ہوتا ہوگا؟“

 دانا نے اُسے حکم دیا کہ

”فلاں  مسجد میں  جاؤ ۔ وہاں  ایک کونے میں  تین باریش بزرگ عبادت میں  مشغول ہوں  گے۔تم ان تینوں  کوایک ایک مُکّامارو اور اُن کا جو بھی ردّ ِ عمل ہو ،واپسی پہ وہ بیان کرو“

آپ کے ذوقِ نظر کی نذر:

میرے ندیمؔ

چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق

پوچھنے والا حیرت و استعجاب کے عالم میں(اور کچھ ڈرتے ڈرتے بھی)  دانا کی بتائی ہوئی مسجد میں  جا پہنچا ۔ آگے دیکھا تودانا کے کہنے کے عین مطابق تین بزرگ ذکر اذکار میں  مصروف تھے۔اُس نے تینوں  بزرگوں  کے عقب میں  پہنچ کر ایک لمحہ سوچا۔کچھ جھجھکا اور پھر زور سے ایک مُکّا پہلے بزرگ کی کمر میں  مارا۔اُس بزرگ نے کوئی توجہ دی ،نہ ہی پلٹ کر دیکھا ۔اُس کا ڈھیروں خون بڑھ گیا۔ وہ دوسرے بڈھاؤ کی طرف بڑھا۔ اُن کی  کمر میں  بھی مُکّا جما دیا۔وہ بزرگ فوراََ پلٹے اوراُس کا مارنے والا ہاتھ سہلاتے ہوئے پوچھا کہ

”بیٹا! تمہیں  چوٹ تو نہیں  آئی؟“

وہ ہلکا سا شرمند ہ تو ہوا مگر حوصلہ  اب آسمان چھو رہا تھا ۔ اُس نے ذرا سا آگے ہو کر زور دار مُکّے سے تیسرے بزرگ کی کمر کا نشانہ لیا۔وہ بزرگ پلٹے ایک اتنا ہی زور دار مُکّااُسے رسید کیا اور پھر دوبارہ عبادت میں  مشغول ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

بات اُس کے کچھ پَلے نہیں  پڑی تھی ۔وہ حیرت زدہ (اور کمر سہلاتے ہوئے )دانا کے پاس پہنچا ۔ تمام واقعات اُن کے گوش گذار کیے۔دانا کی مسکراہٹ گہری ہوگئی ۔انہوں  نے یہ بتا کر اُسے مزید حیران کر دیا کہ

” اُن تینوں  بزرگوں  کا ردّ ِ عمل اپنی اپنی جگہ ٹھیک تھا۔ وہ تینوں  بزرگ حق پر تھے“

پوچھنے والا حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہوا اور پوچھنے لگا کہ

”حضرت!تینوں  کیسے صحیح تھے؟“

دانا نے وضاحت کی:

پہلے بزرگ جس نے تمہارے مکے پہ کوئی ردّ ِ عمل ظاہر نہ کیا ۔ وہ اس لیے صحیح تھا کہ اس نے سوچاکہ میں  عبادت کو چھوڑ کر غیر اہم کام میں  کیوں  پڑوں ؟ دوسرا بزرگ جس نے تمہارا ہاتھ سہلایا وہ خدمت ِ خلق کے جذبے سے سرشار تھا۔  اسی لیے اُس نے اپنی تکلیف بھول کر تمہارا حال پوچھا“

"اور تیسرے بزرگ کے بارے میں  آپ کا کیا خیال ہے؟"

 پوچھنے والے نے ایک بار پھر کمر سہلاتے ہوئے بے صبری سے پوچھا۔

د انا نے تبسم کیا ااورفرمایا کہ

 ”تیسرے بزرگ نے فوراََ بدلہ لے کرحساب برابر کر دیا تاکہ تم پہ کچھ گناہ باقی نہ رہے۔

ایک نظر اِدھر بھی:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

اگر ہم اس واقعے کے تناظر میں  اپنے اردگرد دیکھیں  ۔ تھوڑی دیر کے لیے ہی اپنی اناءکا چولہ اُتار کر دوسرے فریق کی جگہ بیٹھ کر سوچیں  تو ہمیں  علم ہوگا کہ ہر کوئی اپنی اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہوتا ہے۔ عبدالحمید عدمؔ نے بالکل صحیح کہاتھا کہ

غلطاں  تھی کائنات اُسی رنگ میں  اے عدمؔ

جس رنگ کی نگاہ پڑی کائنات پر

لیکن آپ ہماری قوم کے اجتماعی رویے پہ نظر دوڑائیں تو یہ دکھائی دے گا کہ ہم دوسرے کی بات سننے سے پہلے ہی ،اسے صفائی یا وضاحت کا کوئی موقع دیئے بغیر ہی اُس پہ چڑھ دوڑتے ہیں  ۔ ہم اپنے نظریات کی ایک علیحدہ ہی دنیا بسا لیتے ہیں۔  جس میں  صرف ہماری نظر سے دیکھنے والا ہی ”مسلمان“ قرار پاتا ہے ۔  کسی اور نظریئے کا حامل فرد ”کافر“ ٹھہرتا ہے اور اسی سوچ کے نتیجے میں  چلّاس اور گلگت جیسے سانحے جنم لیتے ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک  پہ شکیلؔ جعفری کی ایک غزل پڑھنے کو ملی جو ہمارے معاشرے کی شدّت پسندی کی صحیح عکاس تھی۔ آپ بھی دیکھیے:

جو ہم کہتے ہیں  یہ بھی کیوں  نہیں  کہتا یہ کافر ہے

ہماراجبر یہ ہنس کر نہیں  سہتا یہ کافر ہے

 

یہ انساں  کو مذاہب سے پرکھنے کامخالف ہے

یہ نفرت کے قبیلوں  میں  نہیں  رہتا یہ کافر ہے

 

بہت بے شرم ہے یہ ماں  جو مزدوری کو نکلی ہے

یہ بچہ بھوک اِک دن کی نہیں  سہتا یہ کافر ہے

 

یہ بادل ایک رستے پر نہیں  چلتے یہ باغی ہیں

یہ دریا اس طرف کو کیوں  نہیں  بہتا یہ کافر ہے

 

ہیں  مشرک یہ ہوائیں  روز یہ قبلہ بدلتی ہیں

گھٹا جنگل انہیں  کچھ بھی نہیں  کہتایہ کافر ہے

 

یہ تتلی فاحشہ ہے پھول کے بستر پہ سوتی ہے

یہ جگنو شب کے پردے میں  نہیں  رہتایہ کافر ہے

 

شریعتاََ کسی کا گنگنانا بھی نہیں  جائز

یہ بھنورا کیوں  بھلا پھر چُپ نہیں  رہتا یہ کافرہے

خدارا!اپنی اس شدّت پسندی کے خول سے باہر نکلیں ۔دوسرو ں  سے بات کریں ۔دوسروں  کی بات سنیں ۔ ان کے نقطہءِنظر کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔اپنے نظریات کو حقیقت کی آنکھ سے بھی پرکھیں  شاید کہ غلط آپ خود ہوں ۔

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے